وسیع تر قومی ڈائیلاگ

یہ سب پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ قومی اداروں اور سیاسی قیادت کے درمیان فاصلے اچھی بات نہیں۔


مزمل سہروردی August 13, 2018
[email protected]

آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن عمران خان کی جیت کے بعد عالمی سطح پر اچھے سگنل نہیں آرہے ہیں۔ عالمی سطح پر اس تبدیلی کی قبولیت نظر نہیں آرہی ہے۔ امریکا کا رویہ بہت بدل رہا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ امریکا سے دوریاں نئی نہیں ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل تھا۔ بتدریج تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ درمیان میں تعلقات ٹھیک کرنے کی بہت کوشش بھی کی گئی لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ اسی طرح مغرب میں بھی کوئی گرمجوشی نظر نہیں آرہی ہے۔

یہ درست ہے کہ مختلف ممالک کے سفیر مبارکباد کے لیے عمران خان کو مل رہے ہیں لیکن سفیروں کا ملنا کافی نہیں۔ سربراہان مملکت کے مبارکباد اور خیر سگالی کے فون آنے چاہیے تھے۔ دوست کہہ سکتے ہیں کہ ابھی کونسا عمران خان نے حلف اٹھا لیا ہے۔ جب حلف اٹھائیں گے مبارکباد کے فون بھی آجائیں گے۔ اﷲ کرے ایسا ہی ہو۔ لیکن عالمی روایت یہی ہے کہ انتخاب جیتنے کے بعد سربراہان مملکت کے مبارکباد کے فون آجاتے ہیں۔ حلف اٹھانے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ جیسے عمران خان کو تین فون آئے بھی ہیں۔ لیکن مغرب، امریکا اور عالمی طاقتوں کی طرف سے خاموشی معنی خیز ہے۔

عالمی منظرنامے میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ بہت چیلنجز ہیں۔ لیکن میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ عالمی چیلنجز کا مقابلہ تب ہی ممکن ہے جب اندر ماحول ٹھیک ہو۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ملک کے اندر دن بدن ماحول خراب ہوتا نظر آرہا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے جو پاکستان کے لیے خطرناک ہے، دشمن اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

25جولائی سے پہلے پاکستان میں صرف نواز شریف ایسے سیاستدان تھے جن کے حوالے سے یہ تاثر تھا کہ وہ اداروں سے محاذ آرائی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔حالانکہ نواز شریف کی اپنی جماعت کو بھی ان کی اس پالیسی پر سخت تحفظات تھے۔ میاں شہباز شریف سے لے کر ساری سنیئر قیادت اس پالیسی کے خلاف تھی لیکن مجبور تھی۔ لیکن اگر 25جولائی کے بعد کا منظر نامہ دیکھیں تو یہ کس قدر افسوسناک ہے کہ نواز شریف کو محاذ آرائی کی اس پالیسی میں بے وجہ کے اتحادی مل گئے ہیں۔

آپ مولانا فضل الرحمٰن کی مثال ہی سامنے رکھ لیں۔ متحدہ مجلس عمل کو دیکھ لیں۔ بیچارے مولانا فضل الرحمٰن گزشتہ دو دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کے دوست رہے ہیں۔ وہ تو تب نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کے حامی تھے جب سب خلاف تھے۔ 1997ء کے انتخابی نتائج کے بعد بھی مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان کی انتخابی سیاست سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنی تمام تر سیاست کا محور افغانستان اور امریکا مردہ باد تحریک کو بنا دیا تھا۔ یہ نائن الیون سے پہلے کا وقت تھا۔ ابھی مشرف کا مارشل لا بھی نہیں آیاتھا ۔ وہ صاف کہہ رہے تھے کہ اگر امریکا پاکستان میں امن نہیں ہو نے دے گا تو ہم بھی امریکیوں کی زندگیوں کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ تب انتخابی سیاست سے علیحدگی کے بعد بھی وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کے دوست رہے۔

پھر مشرف آگئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی امریکا مردہ باد تحریک پر بہت شور تھا۔مشرف نے چشمہ کے پاس ایک ریسٹ ہائوس کو سب جیل بنا کر اس میں مولانا فضل الرحمٰن کو نظر بند کر دیا۔ لیکن ایسے میں مشرف نے ملک میں انتخابات کروانے کا بھی اعلان کر دیا۔ مولانا جیل میں تھے انھوں نے جیل سے اپنی جماعت کو انتخابی سیاست میں واپسی کی ہدایت کی۔ مرکزی مجلس شوریٰ کا ملتان میں اجلاس ہوا۔ اور واپس انتخابی سیاست میں آنے کا اعلان ہو گیا۔ پھر متحدہ مجلس عمل بن گئی۔ پھر متحدہ مجلس عمل کو نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمٰن کو دو صوبوں میں اقتدار مل گیا۔ وہ قائد حزب اختلاف بھی بن گئے۔

مشرف کے صدارتی انتخاب میں بھی جے یو آئی (ف) نے جماعت اسلامی کی ناراضی مول لیتے ہوئے مشرف کی بالواسطہ حمایت کی۔ اس طرح مولانا فضل الرحمٰن کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے دوست رہے۔ لیکن حالیہ انتخابات کے بعد ان میں ایک بڑی تبدیلی نظر آرہی ہے۔ یہ وہ مولانا فضل الرحمٰن نہیں ہیں جنھیں ہم جانتے ہیں۔ لیکن یہ پاکستان کے لیے کوئی اچھا اور نیک شگون نہیں۔

اسی طرح محمود اچکزئی کے بارے میں تو سب کو معلوم تھا۔ لیکن اسفند یار ولی تو محاذ آرائی کی سیاست کے آدمی ہی نہیں تھے۔ انھوں نے تو اے این پی کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ان پر الزام ہی یہ تھا کہ انھوں نے اے این پی کو اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پھینک دیا ہے۔ وہ مشرف کی افغانستان میں مدد کر رہے تھے۔ نائن الیون کے بعد انھوں نے پاکستان کی بہت مدد کی۔ یہ سرحدی گاندھی والی اے این پی نہیں تھی۔ یہ نئی اے این پی تھی۔ لیکن حالیہ انتخا بی نتائج کے بعد وہ بھی بدلے نظر آرہے ہیں۔ آپ مصطفیٰ کمال کو دیکھ لیں۔ ان کا لہجہ بھی بدل گیا ہے۔ کہیں نہ کہیں مجھے پیپلزپارٹی کے اندر بھی تبدیلی نظر آرہی ہے۔ بظاہر وہ ابھی تبدیل نہیں ہوئے۔ لیکن اندر بحث جا ری ہے۔ آفتاب شیر پائو کو دیکھ لیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کو دیکھ لیں۔ جی ڈی اے کو دیکھ لیں ۔ ن لیگ تو پہلے ہی شامل ہے۔

یہ سب پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ قومی اداروں اور سیاسی قیادت کے درمیان فاصلے اچھی بات نہیں۔ قومی اداروں کے ساتھ یکجہتی اور محبت ہر قسم کی سیاست سے بالاتر ہونی چاہیے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قومی اداروں کو سیاست کے گند سے دور رہنا چاہیے۔ وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور قومی اداروں کے درمیان ایک ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے۔ ایک دوسرے کے تحفظات اور غلط فہمیاں دور کی جائیں۔ یہ مسائل لڑائی سے حل نہیں خراب ہوںگے۔ جس کا پاکستان کو نقصان ہو گا۔ یہ ڈائیلاگ کیسے ہوگا۔حکومت اور بالخصوص عمران خان تو اس میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ بلکہ وہ تو مسئلہ کی ایک بڑی وجہ ہیں۔

انھوں نے محاذ آرائی کواس قدر تلخ کر دیا کہ سب کے لیے زندگی موت کا مسئلہ بن گیا۔ ورنہ ہار جیت تو پہلے بھی ہوتی رہتی تھی لیکن وہ زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنتی تھی۔ ہر کسی کو زندہ رہنے کا کوئی نہ کوئی راستہ مل ہی جاتا تھا۔ گالی گلوچ نے ذہن آلودہ کر دیے ہیں۔وقتی غصہ اور غلط فہمیاں بڑھنے کے بجائے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عالمی منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے جب مل کر بات کی جائے گی تو سب مان جائیں گے۔ سب کے لیے پاکستان پہلے ہے۔ سب محب وطن پاکستانی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان کے مفاد میں اس محاذ آرائی کو ختم کرنے کا راستہ تلاش کیا جائے گا۔ دھاندلی کا بھی حل ہے۔ سب مسائل کا حل موجود ہے۔ صرف حل تلاش کرنے کی خواہش ہونی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔