محترم چیف جسٹس افسروں کی ترقی تنزلی کا نوٹس لیجیے2

کئی افسران اس ظلم کے سامنے ہتھیار ڈال کرگوشہ نشینی کی زندگی گزاررہے ہیں۔


راؤ منظر حیات August 13, 2018
[email protected]

KARACHI: جس دن سے کوئی سرکاری افسرمقابلے کاامتحان پاس کرکے تربیت کے لیے اکیڈمی داخل ہوتاہے،اس پَل سے لے کرریٹائرمنٹ تک ہرسال اس کے کام، شخصیت، ایمانداری، اہلیت یعنی ہرزاویہ پر،ایک مفصل رپورٹ لکھی جاتی ہے۔ اسے اے سی آر کہا جاتا ہے۔ جو Annual Confidential Report کامخفف ہے۔ بھاری بھرکم اے سی آرفارم ایک لحاظ سے ہرسرکاری ملازم کاپورے سال کااعمال نامہ ہوتاہے۔اس میں یہاں تک درج ہوتاہے کہ اس افسرمیں بطورٹیم کام کرنے کی کتنی صلاحیت ہے۔کیایہ مشکل سرکاری ذمے داریوں میں اپنے اعصاب پرقابورکھنے کی استطاعت رکھتاہے۔کیایہ افسردبائوکوبرداشت کر سکتا ہے۔

عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ جس دن سے کوئی انسان، سرکاری زندگی کی حیرت نگری میں داخل ہوتا ہے، اس کا اعمال نامہ مرتب ہوتا رہتا ہے۔ یہ کام اس کا وہ سینئر افسر کرتا ہے جسکے ساتھ وہ کام کرتارہاہے۔یادرہے کہ اس میں ایمانداری کاخانہ بھی ہوتاہے جس میں یہ لکھاجاتاہے کہ مذکورہ افسر ایماندارہے یابے ایمان۔یہ حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے کہ کئی بار،اے سی آرلکھنے کواس قدرسنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جتنا اس کا حق ہے۔ مگر نوے فیصدسے زیادہ،انتہائی بھرپوراورتوازن سے لکھی جاتی ہے۔

بات یہاں نہیں رکتی۔سترہ گریڈکاافسرجب سرکارکی نوکری میں آتاہے تواکیڈمی سے لے کراگلے بیس پچیس برس اسے انتہائی کٹھن اورمحنت طلب تربیت کے مراحل سے گزر نا پڑتا ہے۔اٹھارہ سے انیس تک کے لیے ایک بھرپور ٹریننگ کا دورانیہ ہے جوہفتوں پرنہیںبلکہ مہنیوں پرمحیط ہے۔ بالکل اسی طرح انیس سے بیس کے لیے تقریباًچارسے پانچ ماہ کا تربیت کورس ہوتاہے۔پہلے اسے''نیپا''کورس کہا جاتا تھا۔ بیس گریڈسے اوپرترقی کے لیے نیشنل مینجمنٹ کورس ہوتا ہے۔ یہ تقریباًچھ ماہ کے دورانیہ کا ہوتا ہے۔ ان تمام مراحل میں افسر کوسیکڑوں بار پرکھا جاتا ہے۔

طالبعلم نے این ایم سی خود بھی کیاہے اورکارکردگی کے حساب سے پہلے تین افسروں میں تھا۔اس کے بعداسی جگہ پربطورڈی ایس،ڈائریکٹنگ اسٹاف کے طورپرتین برس پڑھاتا بھی رہاہوں۔یہ اس قدر مشکل مرحلہ ہے کہ افسر سوائے محنت کے اورکسی بھی طریقے سے اسے عبورنہیں کر سکتے۔ ذاتی طورپربطوراستاد،موجودہ تقریباً نصف بیورو کریسی کوپڑھاتابھی رہاہوں اور جانچتا بھی رہا ہوں۔

کورس کے آخرمیں،ادارہ کاسربراہ،ہرافسرکے متعلق ایک ضخیم رپورٹ اپنے قلم سے لکھتاہے۔یہ رپورٹ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کوارسال کی جاتی ہے۔اس میں ایک انتہائی اہم نکتہ درج ہوتاہے کہ مذکورہ افسرترقی کے قابل ہے بھی کہ نہیں۔یہ کوئی خیالی بات نہیں ہوتی۔ادارے کاسربراہ ہرڈی۔ایس کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کرتربیت کے لیے آئے ہوئے افسران کوانتہائی مدلل اورتنقیدی نگاہ سے پرکھتا ہے۔ اس کے بعداسے مخصوص نمبردیے جاتے ہیں۔ مقابلے کے امتحان کے بعد،یہ مراحل انتہائی دشوار گزار اور محترم ہوتے ہیں۔

ان تمام کورسوں کی رپورٹیں،افسرکے اعمال نامے میں درج ہوتی ہیں۔یعنی اے سی آرکے علاوہ تین مختلف غیرجانبدار ادارے نوکری کے مختلف مراحل میں ہر افسر کو جانچتے ہیں اوراسے مزیدترقی کے لیے موزوں یاغیرموزوں قرار دیتے ہیں۔ان تمام مراحل میں صرف اورصرف میرٹ کا عمل دخل ہوتاہے۔آج تک دیکھنے یا سننے میںنہیں آیاکہ ان تربیتی کورسوں میں کسی قسم کی رعایت روارکھی گئی ہو۔ خدا کافضل ہے کہ ٹریننگ کی حد تک یہ نظام انتہائی قابل اعتماد ہے مگراچھی اے سی آر سے لے کرتربیت گاہوں کی بہترین رپورٹیں مکمل طور پر بے معنی ہیں۔ ترقی کے مرحلے میں خانہ پوری کے سوا ان کی کسی قسم کی کوئی عملی اہمیت نہیں ہے۔

سکے کادوسرارخ سب سے زیادہ اہم ہے۔وہ ہے سینٹرل سلیکشن بورڈ،ان کے ممبران اوراس کی کارروائی۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس بورڈمیں فیصلے حقائق، ریکارڈ، اے سی آرکے نمبروں،تربیتی کورسوں کی رپورٹوں کے مطابق نہیں ہوتے۔اس میں پسندیاناپسندکاعمل دخل ہوتا ہے۔ اس میں سیاسی دبائو،صوبائی حکومتوں کانظرنہ آنے والاشدید عمل دخل اورافسران کی گروہ بندی کامکمل راج ہوتا ہے۔

صوابدیدی اختیارات اوربورڈکے ممبران کے پاس چند نمبر لوگوں کے مستقبل بربادکرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پچھلے کالم میں عرض کی تھی کہ ہر صوبہ کاچیف سیکریٹری اپنے سیاسی باس یعنی وزیراعلیٰ سے افسروں کی ترقی کے متعلق فیصلہ لے کرآتاہے۔اگرایک وزیر اعلیٰ کسی افسر کو پسند نہیں کرتا، تو چیف سیکریٹری اس کے متعلق وہ وہ منفی باتیں کریگا کہ خداکی پناہ۔اس بورڈمیں چیف سیکریٹری کے علاوہ، ہر صوبے کاایک نمایندہ افسربھی ہوتا ہے۔گزشتہ دس برس سے یہ بھی صوبائی حکومت کا وفادار فرد ہوتاہے۔

اسی بورڈمیں خفیہ اداروں کی اکثریت جعلی رپورٹوں کو بھی Manage کر کے سامنے لایا جاتاہے۔اگرایک افسر ایماندار ہے،تواس کے متعلق انتہائی کرپٹ ہونے کی سورس رپورٹ بنوائی جاتی ہے۔ اگرکوئی مہاکرپٹ ہے،تواسے ان جعلی رپورٹوں کے ذریعے ایماندار ترین افسر بنادیا جاتا ہے۔ اب آپ ملاحظہ کیجیے۔ کہ سیاسی وزیراعلیٰ کسی بھی افسرکوناپسندکرتاہوتووہ تین مختلف زاویوں سے اس افسرکی ترقی رکواسکتاہے۔

معتوب افسرکے تیس سے پنتیس سال کے شاندارریکارڈکوردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے۔چیف سیکریٹری،صوبے کا نمایندہ اورخفیہ ایجنسیوں کی اکثریت رپورٹیں مکمل طور پر Manipulatedہوتی ہیں۔اس کی بے پناہ مثالیں ہیں۔ ماضی میں جانے کے بجائے،انتہائی نزدیکی واقعہ کی طرف توجہ مبذول کرواتاہوں۔پنجاب میں کیونکہ حالات سب سے خراب ہیں،سندھ سے بھی زیادہ۔لہذااس صوبے کی مثال دینابے حدمناسب ہے۔احدچیمہ پرمالیاتی بدعنوانی کے الزامات ہیں۔چندماہ پہلے انھیں نیب نے گرفتار کر لیا۔

ان کی گرفتاری کے دوران انھیں انیس سے بیس گریڈمیں پروموٹ کردیا گیا ۔کہایہ گیاکہ کیونکہ سینٹرل بورڈنے ان کی ترقی کی سفارش کی ہے۔لہذا انھیں ترقی دی جاتی ہے۔ مگراس سے ایک حیرت انگیزنکتہ آگے نکلتا ہے۔ اگر ''سینٹرل سلیکشن بورڈ''کسی بھی افسرکی ترقی کی سفارش کرتا ہے، تواَحدچیمہ کی ترقی کے اصول کومدِنظررکھتے ہوئے،ان تمام افسروں کی ترقی منظورکی جانی چاہیے جنھیں بورڈنے لکھ کر ترقی کے لیے موزوں قراردیاہے۔

اس طرح کے درجنوں نہیں،سیکڑوں کیسزہیں جن میں بورڈکی سفارشات کو رَد کیا گیا ۔ خودمیں بھی اس کا شکار ہوا ہوں یعنی ایک طرح سے سینٹرل سلیکشن بورڈکوبھی غیراہم بنا دیاگیا۔شائدآپ کویقین نہ آئے مگرتمام افسران جانتے ہیں کہ نوازشریف دور میں چند چہیتے افسروں سے مشورہ کر کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور بورڈ کے خاص ممبران کوہدایت کی جاتی تھی کہ فلاں ہمارابندہ ہے۔ اسے ترقی دی جائے اور فلاں افسرہمارا نہیں ہے، اسے مکمل رگڑالگایاجائے۔ یہ ایک ایسا کھیل تھاجس نے باصلاحیت افسروں کوزندہ درگور کر دیا۔ ان کی ترقیاں،حیلے بہانوں سے روک دی گئیں۔انھیں نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔

یہاں ایک بے حدسنجیدہ نکتہ سامنے لانا چاہتا ہوں۔ تمام افسرجوکسی بھی طریقے سے ایک مخصوص گروپ سے تعلق نہیں رکھتے تھے،انھیں ترقی نہیں دی گئی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہواکہ وفادارافسروں کی گریڈاکیس اوربائیس میں ایک کھیپ تیارکی گئی،جسکے ذریعے آل شریف نے اگلے پچاس برس حکومت کرنی تھی۔دوبارہ عرض کروں گا۔ اس وقت سینئر گریڈزمیں سوائے ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے خوشہ چینوں کے کوئی افسرباقی نہیں بچا۔

اگرحادثاتی طور پر کوئی اِکادُکاافسر ترقی پاگیاہے،تواسے صرف اور صرف غیراہم تعیناتوں کے لیے ''نظربٹو''کے طور پر بٹھایا گیا ہے۔ جن تیس سے چالیس افسروں کے ہاتھ میں اصل اقتدار ہے، ان میں سے کوئی بھی مخصوص سیاسی چھتری کے بغیر اوپر نہیں پہنچا۔عمران خان،اوران کی سیاسی ٹیم جو مرضی کر لیں، انھیں بہترین ٹیم نہیں ملے گی ۔جناب چیف جسٹس بار بار اہل افسروں کولگانے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔سول سروس کے زوال کی بات کررہے ہیں مگروہ افسرکہاں سے آئینگے۔ انکو تو بہت پہلے سینٹرل سلیکشن بورڈ میں Manipulation کے ذریعے فارغ کیاجاچکاہے۔

نئی حکومت چاہے بھی توانھیں موجودہ بیورو کریٹس میں سے بہت اچھے افسرملنے ناممکن ہونگے۔ درجنوں افسران کو جانتا ہوں جوحددرجہ مظالم کی وجہ سے بیگناہ ہونے کے باوجود، دربدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ کچھ تواتنے دل برداشتہ ہو گئے ہیں کہ ملک چھوڑ کر "دیارِغیر"میں معمولی بلکہ حقیر ملازمتیں کررہے ہیں۔

کئی افسران اس ظلم کے سامنے ہتھیار ڈال کرگوشہ نشینی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ ان مجبور، ناتواں اور لاغر افسروں کاکوئی والی وارث نہیں۔یہ معتوب لوگ کسی مضبوط سیاسی دھڑے سے تعلق نہیں رکھتے۔محترم چیف جسٹس،ان کمزور افسروں کی مددکیجیے۔یہ زندگی بھرتک جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر آپکودعائیں دینگے۔جناب ثاقب نثار صاحب ، اگر آپ ان کی فریادنہیں سنیں گے توقیامت کے دن یہ خدا سے شکوہ توضرور کرینگے۔ انکا شکوہ شائد وہاں سنا جائے!

(دوسرا آخری حصہ)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔