جشنِ آزادی 2018ء اور نئے پاکستان کا نعرہ
نیا پاکستان بنانا ہے تو جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال
زندہ قومیں اپنی آزادی کا جشن جوش و جذبے سے مناتی ہیں۔ کل 14 اگست کو پاکستانی قوم اپنا 71واں یوم آزادی دھوم دھام سے منانے جارہی ہے۔ رواں برس اس دن کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے کیونکہ اس ملک میں جمہوریت مستحکم ہورہی ہے اور حالیہ عام انتخابات میں ''نئے پاکستان'' کا نعرہ لگانے والی جماعت برسر اقتدار آرہی ہے۔
نیا پاکستان کیسا ہوگا؟ کیا یہ خواب پورا ہوسکے گا؟ اس حوالے سے کیا چیلنجز درپیش ہوں گے؟ دنیا اسے کیسے دیکھ رہی ہے؟ نئی حکومت عوامی توقعات پوری کرسکے گی یا نہیں؟اس طرح کے بیشتر سوالات عوام کے ذہنوں میںگردش کررہے ہیں اور وہ ان کے جوبات جاننا چاہتے ہیں۔ عوامی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ''جشن آزادی 2018ء اور نئے پاکستان کا نعرہ'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے۔
ایس ایم ظفر ( سابق وفاقی وزیر قانون )
ہر سال یوم آزادی کے موقع پر ایک امید ابھرتی ہے کہ اگلا سال بہتر ہوگا، کچھ تبدیلیاں آئیں گی اور آسودگی ملے گی۔ اس سالگرہ پر آزاد ہونے کی خوشی، ریپبلکن بن جانے کی خوشی اور یہ کہ تبدیلی کی امید ایک نعرہ بن کر آئی ہے۔ یہ نعرہ بن جانا خود ایک تبدیلی ہے۔ میرے نزدیک اب یہ صرف نعرہ نہیں رہا بلکہ تبدیلی منشور بن چکی ہے لہٰذا اسے عملی جامہ پہنانا پڑے گا کیونکہ اس مرتبہ جنہوں نے انہیں ووٹ دیا ہے وہ بھی اور جنہوں نے ووٹ نہیں دیا وہ بھی ان سے تقاضہ کریں گے کہ تبدیلی کا جو نعرہ لگایا گیا اب اسے مکمل کیا جائے۔ اب یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ اگر یہ نعرہ مکمل نہ ہوا اورتبدیلی نہ آئی تو پھر سیاستدانوں کے ساتھ پرانا سلوک نہیں ہوگا بلکہ اب غصے کا اظہار شدت سے ہوگا۔ اس لیے اب انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ اب وہ تمام چیزیں جن پر تنقید ہوتی رہی، جنہیں تبدیل کرنے کا عزم دکھایا گیا، جن کے بارے میں عوام کو امید دکھائی گئی، انہیں عملی طور پر کرنا ہوگا۔ اب شہنشاہی جاہ و جلال عوام کو قبول نہیں ہوگا بلکہ وزیراعظم کو امارت کے مقام سے غربت کی جانب آنا ہوگا۔ اس کی آمدنی کم ہوتی ہوئی عوام کو نظر آنی چاہیے اور اس کا بیشتر وقت عوامی خدمت میں خرچ ہونا چاہیے۔ ایک بات سب کو سمجھنی چاہیے کہ تبدیلی صرف اکیلا وزیراعظم نہیں لاسکتا۔ اس کے لیے پوری حکومتی ٹیم کو لگن اور تندہی سے کام کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی اختلافات ہوتے ہیں،حکومتی ٹیم کو اپنے اندرونی اختلافات، اگر کوئی ہیں تو، پس پشت ڈال کر ایک ساتھ کام کرنا ہوگا اور عوام کو تبدیلی دکھانا ہوگی۔ عوام کو ''سٹیٹس کو'' ختم ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے۔ ایسا معلوم ہو کہ ''سٹیٹس کو'' اب گالی بن چکا ہے اور اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے لہٰذا معاملات سادگی کی طرف بڑھنے چاہئیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کا بہت زیادہ ٹیلنٹ بیرون ملک موجود ہے جس میں بہتر کام کرنے کی قابلیت موجود ہے اور وہاں خدمات سرانجام دے رہا ہے، انہیں پاکستان واپس آکر ملک کی خدمت کرنی چاہیے۔ حکومت کو بھی انہیں واپس لانے کے حوالے سے کام کرنا چاہیے۔ دنیا میں ایک اور بڑی تبدیلی آچکی ہے کہ اب لوگوں کے بینک اکائونٹ کی تفصیلات بتانا شروع کردی گئی ہیں۔ ہمارے ملک کی بہت ساری دولت باہر منتقل کی گئی ہے۔ اسے واپس لانے کیلئے ایمنسٹی سکیم بھی دی گئی تاہم جو رقم اس سکیم کے ذریعے بھی واپس نہیں آئی، اسے ملک میں لانے کا مناسب وقت ہے، یہ تبدیلی بھی اب آجانی چاہیے کہ ملک کا پیسہ واپس ملک میں لایاجائے۔ اب تبدیلی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، سب کو تبدیل ہونا پڑے گا اور اس کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انتخابات سے پہلے لوگوں نے صرف گریبان پکڑے تھے لیکن اگر اب تبدیلی نہ آئی اور ان کی امیدیں پوری نہ ہوئیں تو بات گریبان پکڑنے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اب گریبان چاک ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اب تبدیلی امید نہیں رہے گی بلکہ عملی طور پر نظر آئے گی۔
عابد حسن منٹو ( معروف دانشور و سینئر قانون دان)
میں اب صرف امید کے سہارے زیادہ زندہ نہیں رہتا۔15برس کا تھا جب پاکستان آزاد ہوا۔ پاکستان بنانے کی جدوجہد میں میرا خاندان پیش پیش تھا اور میں نے خود بھی کئی مواقع پر اس میں حصہ لیا۔ ہم راولپنڈی میں رہتے تھے اور زیادہ جلوس جامعہ مسجد راولپنڈی کی سڑک پر نکلتے تھے۔ میرے والد مسلم لیگ کے عہدیدار تھے، میں بھی ان کے ساتھ اس جلوس میں شریک تھا کہ پولیس نے دھاوا بولا اور ہم سب کو گرفتار کرکے لے گئی۔ میرا یہ جیل جانے کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ وہ جلوس تھا جس کے لیے قائد اعظمؒ نے پنجاب میں خضر حیات کی حکومت کے خلاف کال دی تھی۔ ایک ماہ بعد مجھے کم عمر ہونے کی وجہ سے جیل سے رہا کردیا گیا لیکن وہ ساری چیزیں آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ ہم ایک ایسا پاکستان بنانے کی جدوجہد کررہے تھے جس کے بننے سے پہلے ہی مشکلات شروع ہوچکی تھیں۔ اس وقت ہمارے راولپنڈی شہر کی مسلم لیگ کے صدر شیخ محمد عمر، تجربہ کار ضرور تھے مگر زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، میرے والد جو مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری اور وکیل بھی تھے، سے پوچھتے تھے کہ خواجہ صاحب جب پاکستان بن جائے گا تو مجھے کیا بنائیں گے۔ افسوس ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے ہی لوگ اس میں اپنے لیے عہدے تلاش کررہے تھے۔پاکستان بننے کے بعد ہماری سیاست میں وہ کردار آگئے جن کا سیاست سے صرف اتنا ہی تعلق تھا کہ وہ انگریزوں کے قریب تھے۔ جو لوگ لیڈر شپ میں آئے وہ وزارتوں اور عہدوں کے پہلے سے ہی دعویدار تھے جبکہ عوام کا جم غفیر جو قائد اعظمؒ سے متاثر ہوکر ان کے ساتھ چلا وہ نیچے ہی رہا۔ پہلے دن سے ہی پنجاب میں نواب ممدوٹ اور نواز دولتانہ کے درمیان لڑائی ہوئی اور یہ دونوں مسلم لیگی تھے۔ میں نے ساری کشمکش کو قریب سے دیکھا ہے۔ جن لوگوں کے قبضے میں یہ ملک آیا انہوں نے اسے ختم کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی ، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آج پاکستان موجودکیسے ہے۔ اس وقت اگر کوئی نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگاتا ہے تو میرا اس سے سوال یہ ہے کیا آپ نے یہ اندازہ لگا لیا کہ پرانا پاکستان کیا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ملک میں دو دفعہ زرعی اصلاحات کی گئیں کیونکہ اس وقت کی حکومت نے سمجھا کہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان دونوں زرعی اصلاحات کو ہمارے ہی ملک کی عدالت نے غیر شرعی قرار دے دیا۔ میں نے گزشتہ 8برسوں سے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے لیکن اس کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔آج کچھ لوگ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات کررہے ہیں۔ یہ مطالبہ کرنے والی لیڈرشپ پر غور کیا جائے تو وہ تمام جاگیردار ہیں جنہیں پنجاب کے بڑے علاقے میں اپنی طاقت منوانے کا وہ موقع نہیں ملتا جو الگ صوبہ بنا کر حکمرانی میں ملے گا۔ ہمارا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ملک میں حقیقی جمہوری نظام قائم کرنا چاہتے ہیں؟ جمہوری نظام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ الیکشن کرواکے حکومت بنا لی جائے۔ حالیہ الیکشن ہونے کے بعد جیتنے والی جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے، یہ دھاندلی صرف ان انتخابات میں ہی نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ سے ہی ہوتی آئی ہے اور طاقتور طبقات ایسا کرواتے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے، وہ گورنر ہائوس بھی عوام کیلئے کھول دیں گے، ایسا ہوبھی سکتا ہے کیونکہ یہ سرکاری عمارت ہے اور اس میں کسی کے مفادات کا ٹکرائو نہیں ہے لیکن اتنی ہی بڑی زمین پر کسی جاگیردار کا قبضہ چھڑوانے کی سکت ان میں نہیں ہے۔میرے نزدیک یہ پاکستان کو نیا بنانے کی جانب کوئی قدم نہیں ہوگا۔ اگر ہم نے نیا پاکستان بنانا ہے تو جاگیردارانہ نظام ختم کرنا ہوگا اور زمین واگزار کرواکر کسانوں کو دینا ہوں گی کیونکہ جب تک یہ لوگ اپنے مالک سے آزاد نہیں ہوں گے تب تک 60 فیصد آبادی آزادی سے اپنا ووٹ نہیں ڈال سکتی ۔ 80 ہزار ایکٹر رقبہ ایک شخص کے پاس ہے، وہاں موجود لوگوں کو آزاد کرنا ہوگا۔ کیا کسی نے دیکھا کہ سند ھ اور جنوبی پنجاب میں جہاں جاگیردارانہ نظام ہے وہاں لوگوں نے کسے ووٹ دیا،سرداروں کے علاقے میں کسے ووٹ ملے۔ ہر الیکشن کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہی لوگ دوبارہ آگئے یا ان کے رشتے دار آگئے، اس طرح سے تو پاکستان نیا نہیں بنے گا۔ افسوس ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان کی ترقی کو روکا ، وہی لوگ پرانے پاکستان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ قائد اعظمؒ کی 11 اگست کی تقریر کا بہت چرچہ ہے مگر اُس وقت اسے بلیک آئوٹ کیا گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ریاست جمہوری ہوگی اور مذہب کا کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔قائد اعظمؒ کی اس تقریر کو آج بھی زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کیلئے آئین پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔عوام کے پاس معاشی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ مفاد پرست طبقے کے ہاتھ میں ساری دولت ہے۔ بیرون ملک سے دولت واپس لانے کی باتیں ہورہی ہیں، سوال یہ ہے کہ دولت کیسے واپس لائیں گے؟ ان کے تو اپنے اپنے قوانین ہیں۔ میرے نزدیک یہاں موجود پیسے کے حوالے سے قانون بنائیں اوروہ پیسہ لے کر عوام کو معاشی طور پر مستحکم کیا جائے۔اس مرتبہ الیکشن میں بڑے بڑے بینرز اور ہولڈنگز نظر نہیں آئے، سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں فیصلہ کیا جو ہم نے الیکشن قوانین کے حوالے سے 1999ء میں دائر کیا، 2001ء میں اس کافیصلہ ہوا اور اب جا کر عملدرآمد ہوا۔ میرے نزدیک اگر نیت صاف ہو اور صحیح معنوں میں جدوجہد کی جائے تو قائد اعظمؒ کا پاکستان بنایا جاسکتا ہے۔
امجد اسلام امجد (معروف ادیب و دانشور)
آج ہماری تاریخ کا اہم موڑ ہے کیونکہ ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے۔ نئے پاکستان کے نعرے پر بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پرانا پاکستان کیا تھا، کیوں تھا اور کیسے تھا ؟ کچھ چیزیںنسل در نسل چلتی ہیں۔ 70 برسوں میں ہماری تیسری نسل آگے آگئی ہے۔ اس نسل نے بہت ساری چیزیں دوسری نسل اور دوسری نسل نے پہلی نسل سے لی ہیں۔ 800 برس تک یہاں مسلمانوں کی جو حکومتیں رہیں انہوں نے اپنے ملک و قوم کے ساتھ ظلم کیا اور دنیا کی تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ 15 ویں اور 16ویں صدی کے بعد جب یورپ میں بڑی تبدیلیاں آئیں، صنعتی انقلاب آیا تو یورپ نے پوری دنیا خصوصاََ افریقہ اور ایشیاء پر غلبہ پالیا۔ 1757ء جنگ پلاسی اور 1857ء میں سقوط دہلی ہوا۔ یہ 100 برسوں کا فرق ہے اور بہت کم لوگ ہیں جو اس دورانیہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انگریز کا راج شروع ہونے سے بہت سارے مسائل پیدا ہوئے۔ ہمارا نظام تعلیم ، طرز فکر و دیگر نظام ہمارے اپنے ہی تھے مگر انگریز نے اس نظام کی جگہ اپنے اصول رائج کردیے۔ انگریز نے چونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے ان کے ساتھ اس کا رویہ متعصبانہ تھا جبکہ ہندوئوں کو نرمی حاصل تھی۔ اس نئے زمانے کے تحت1885ء میں انڈین کانگریس قیام میں آئی جو سیاسی جماعت تھی۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی جانب سے پہلا ردعمل 1906ء میںمسلم لیگ کی صورت میں آیا جو اصلاحی جماعت تھی۔ 1929ء میں 14 نکات پیش کرکے پاکستان کی موجودہ شکل کی بنیاد رکھی گئی ۔ دنیا میں مغربی جمہوریت تھی مگر جنگ عظیم اول کے بعد دنیا میں ایک متوازی سسٹم وجود میں آیا جسے کمیونسٹ نظام کہتے تھے۔ اُس وقت برصغیر کے لوگوںکے سامنے دو راستے تھے کہ کس طرح نظام کو آگے چلائیں۔ انصاف ، مساوات، انسانی حقوق وغیرہ کا بہت سارا حصہ ہمیں روسی انقلاب سے ملا۔ یہ وہی چیزیں ہیں جو 1400 برس پہلے ہمیں دین اسلام نے بتائیں مگر ہم نے انہیں فراموش کردیا اور پھر ان کی ایک نئی شکل ہمارے سامنے آئی۔ جب پاکستان بنا تو اس کی بنیاد یہی تھی کہ وہ لوگ جو تعلیمی، معاشی و دیگر لحاظ سے پیچھے رہ گئے ہیں، انہیں ایسے نظام میں رکھا جائے جس میں سماجی اصلاحات کی جائیں گی اور ان لوگوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ افسوس ہے کہ گزشتہ 70 برسوں میں ان چیزوں پر باتیں تو بہت کی گئیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا بلکہ امیر ، غریب کا فرق بڑھتا گیا اور کسی کو برابری کی سطح پر مواقع نہیں ملے۔ آزادی کے بعد یہاں تین مضبوط طبقات سامنے آئے جن میں جاگیردار، بیوروکریٹس اور فوج شامل ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو سہارا بنایا حالانکہ ان کا رخ عوام کی حالت بہتر کرنے کی جانب ہونا چاہیے تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ طبقات آپس میں ملتے گئے اور اصل پاکستان پیچھے رہتا گیا۔ ہماری تاریخ میں قائداعظمؒ ،ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان، تین ایسے لیڈر آئے ہیں جن کی گرومنگ مغرب میں ہوئی ہے جو ان کے انداز نظر اور سوچ کو سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک نئے پاکستان کے لیے ایسے ہی شخص کی ضرورت تھی۔اب نہ صرف عمران خان بلکہ ہم سب کوایک ایسا راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے معاملات بہتری کی جانب بڑھیں۔ جس طرح امریکا میں حکومت کے بدلنے کے باوجود قومی پالیسی کا تسلسل رہتا ہے، اسی طرح ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے اندر وسعت قلبی اور ذہنی بلوغت پیدا کرنا ہوگی۔ الیکشن کے مسائل کو زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ جو بھی اچھا کام کرے اس کی تعریف اور تقلید کرنی چاہیے ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ غلط رواج ہے کہ نئی حکومت، پچھلی حکومت کے سارے کاموں کی مذمت کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے لہٰذا اب یہ روش ختم ہونی چاہیے۔ امید ہے نئے پاکستان میں وسعت قلبی اور ایمانداری کا رویہ ہوگا اور تمام لوگوں کو ایک جیسا انصاف ملے گا تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو گزشتہ 70 برسوں جیسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ماضی میں جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے نئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا گیا حالانکہ یہ اسی پاکستان کا تسلسل ہے لہٰذا اب سب کو مل کر ملک و قوم کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔
شاہد معراج (پادری)
تمام پاکستانیوں کو یوم آزادی مبارکم ہو۔ ہم مذہبی دن بھی مناتے ہیں مگر قومی دن کا الگ ہی رنگ ہے۔ پاکستان کی تعمیر میں ہمارے بزرگوں نے بلا امتیاز رنگ، نسل، زبان، مذہب، ذات اور عقیدہ کے بھرپور حصہ لیا۔ مال روڈ سے گزرتے ہوئے وہ سارا منظر تازہ ہوگیا کہ جب چودھری چندو لال نے ہائی کورٹ کی عمارت کے مقام پر اینگلو انڈین کرسچنز کو اکٹھا کرکے کونسل میٹنگ کی۔ پٹھانکوٹ اور ایسے تمام علاقے جہاں مسیحی اکثریت تھی انہیں کہا کہ ہم نے پاکستان کے حق میں ووٹ دینا ہے اور پھر انہوں نے بے شمار قراردادیں بائونڈری کمیشن کو بھی دیں اور کہا کہ ہمارا شمار مسلمان آبادی والے علاقوں کے ساتھ کیا جائے۔ ایس پی سنگھاصاحب، فضل دین و بے شمار بزرگوں نے بابائے قوم قائد اعظمؒ کی قیادت میں بھرپور کردار ادا کیا۔منٹو پارک میں 1940ء کو جب قرارداد پاکستان پیش کی گئی تو مذہبی اقلیتوں نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ قرارداد پاکستان کے چند برس بعد جب لائل پور دھوبی گھاٹ میں قائداعظمؒ، محترمہ فاطمہ جناحؒو دیگر لیڈرز گئے تو مسیحیوں کی جانب سے الگ سپاس نامہ پیس کیا گیا،اور ایک خواہش ظاہر کی گئی کہ الگ سے بھی ہمارے پاس آئیں ہم آپ کو باقاعدہ طور پر اپنا قائد ڈکلیئر کرنا چاہتے ہیں۔ اگلے دن واپڈا ہائوس لاہور کے قریب ایک ریستوران میں میٹنگ ہوئی جس میں باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا گیا۔ جولائی 1947ء میں پنجاب اسمبلی سیڑھیوں پر ، جب ووٹنگ ہورہی تھی کہ کہاں کھڑے ہونا ہے اور کس کے ساتھ جانا ہے۔ کالی دھن کی جانب سے نعرہ بلند کیاگیا کہ جو مانگے کا پاکستان اس کو ملے گا قبرستان۔ اسی وقت ایسی پی سنگھا صاحب نے جواب دیا کہ سینے پر گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے۔ یہ وہ جذبہ تھا جس کے تحت پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظمؒ نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں وہ سنہری اصول بتا دیے جس سے پاکستان کا آغاز کیا گیا کہ پاکستان بلا امتیاز رنگ، نسل، ذات اور عقیدہ کے تمام پاکستانیوں کا ملک ہے۔ ہمیں اس سنہری اصول کے مطابق ملک کو اسے آگے لے کر چلنا چاہیے۔جمہوری اعتبار سے نئی حکومت کی آمد آمد ہے۔ لوگوں کا جوش و جذبہ دیدنی ہے اور انہیں بہت ساری توقعات ہیں۔ پرانی وہ چیز ہے جو انسان کی سرشت ہے اورجس میں بہت سارے مفاد پرست عناصر نے ملک پر قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ ہمیں قائداعظمؒ کے پاکستان کو پھر سے ڈھونڈھنا ہے۔ حکومت کوئی بھی کیوں نہ ہو، اگر وہ اس سنہری اصول کو سامنے رکھے جس میں تمام پاکستانی کسی امتیاز کے بغیر خوشحال زندگی بسر کریں، یہ بہت بڑی بات ہوگی۔ ہمارے ہاں یہ ہوا کہ گھر کے باسیوں میں ہی تفریق آگئی۔ اب جو نئی بات ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کی سرشت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ آزادی تو ہم نے حاصل کرلی مگر اب ہمیں اپنی اس سرشت سے آزادی حاصل کرنی ہے جس سے لوگوں کا استحصال ہورہا ہے۔ حضرت قائد اعظمؒ نے ان تمام لوگوں کے لیے جو استحصال کا شکار تھے، جو حقوق عدل اور انصاف سے محروم تھے، ان کو ایک خوبصورت سرزمین دینے کا وعدہ بھی کیا اور اسے بنایا بھی۔ ان کی نیت اور سوچ نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ قائد اعظمؒ کو جو ٹیم ملی وہ بہت مخلص تھی۔ اس لیے بڑی جلدی یہ مشن مکمل ہوا۔ قرارداد پاکستان اقوام عالم کیلئے بہت بڑی مثال ہے کہ کس طرح سے ہم نے علیحدہ وطن حاصل کرلیاآج اقوام عالم میں پاکستان کا نام سربلند کرنے کیلئے اسی سنہری اصول کی جانب واپس جانا ہوگا اور حکومت کوئی بھی آئے اسے تمام پاکستانیوں کا برابر کا خیال رکھنا ہوگا۔ اور سب کو پاکستان کے پورے شہری ہونے کا احساس ہونا چاہیے اور ہمارا رویہ بھی ویسا ہی ہونا چاہیے۔ ہماری دعا بھی یہی ہے اور توقعات بھی یہی ہیں کہ معاملات درست ہوں گے۔ پرانا پاکستان کیا ہے، وہ بوسیدہ سوچ ہے جس نے اس گھر کے لوگوں کو ہی بے گھر کردیا، ان کا ہی استحصال کردیا۔ عدل و انصاف سے محروم کردیا ہے۔ہم نے پاکستان کی بات کرنی ہے۔ بچوں کی سوچ کو بڑھانا ہے اور ایک دوسرے کو قریب لانا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ نئی فضا میں ہمیں برداشت کی نہیں قبولیت کی سپرٹ کو آگے بڑھانا ہوگا۔ برادشت ہم مجبوری میں بھی کر لیتے ہیں، جب تک ہم ایک دوسرے کو قبول نہیں کریں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ قائد اعظمؒ کی قیادت میں سب نے ایک دوسرے کو قبول کیا، آج بھی اسی روح کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی بحیثیت قوم ہم نے دہشت گردی پر قابو پایا۔ اس کی وجہ سے ہماری مساجد، چرچ، تعلیمی درسگاہیں، بچے ، بڑے محفوظ نہیں رہے۔ سب نے مل کر اس دشمن کا مقابلہ کیا اور افواج پاکستان، پولیس، سول سوسائٹی سمیت کسی نے بھی قربانی سے گریز نہیں کیا۔ جو قوم قربانی دینا جانتی ہے اسے کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا۔ آج یہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی آسائشوں کو چھوڑ کر، قربانی کے جذبے کے ساتھ ایسے پاکستان کیلئے کام کریں، جس میں تمام لوگ برابر ہوں۔ پاکستانیوں کی وفاداری کسی مذہب کے ساتھ نہیں بلکہ مٹی کے ساتھ ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ دھرتی ماں کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یوم آزادی کا موقع ہے جو عہد کا دن ہے۔ ہم ہندوستان سے تو آزاد ہوگئے مگر کیا ہم حقیقی معنوںمیں اپنی پرانی سرشت جس میں نفرت، لالچ، کرپشن شامل ہیں اسے چھوڑنے کیلئے تیار ہیں؟ حکومت کوئی بھی ہو اگر وہ قائداعظمؒ کے پاکستان کیلئے کام کرے گی تو اقوام عالم میں پاکستان کا نام بھی سربلند ہوگا اور یہاں بسنے والے لوگ بھی خوشحال زندگی بسر کریں گے۔
نیا پاکستان کیسا ہوگا؟ کیا یہ خواب پورا ہوسکے گا؟ اس حوالے سے کیا چیلنجز درپیش ہوں گے؟ دنیا اسے کیسے دیکھ رہی ہے؟ نئی حکومت عوامی توقعات پوری کرسکے گی یا نہیں؟اس طرح کے بیشتر سوالات عوام کے ذہنوں میںگردش کررہے ہیں اور وہ ان کے جوبات جاننا چاہتے ہیں۔ عوامی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ''جشن آزادی 2018ء اور نئے پاکستان کا نعرہ'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے۔
ایس ایم ظفر ( سابق وفاقی وزیر قانون )
ہر سال یوم آزادی کے موقع پر ایک امید ابھرتی ہے کہ اگلا سال بہتر ہوگا، کچھ تبدیلیاں آئیں گی اور آسودگی ملے گی۔ اس سالگرہ پر آزاد ہونے کی خوشی، ریپبلکن بن جانے کی خوشی اور یہ کہ تبدیلی کی امید ایک نعرہ بن کر آئی ہے۔ یہ نعرہ بن جانا خود ایک تبدیلی ہے۔ میرے نزدیک اب یہ صرف نعرہ نہیں رہا بلکہ تبدیلی منشور بن چکی ہے لہٰذا اسے عملی جامہ پہنانا پڑے گا کیونکہ اس مرتبہ جنہوں نے انہیں ووٹ دیا ہے وہ بھی اور جنہوں نے ووٹ نہیں دیا وہ بھی ان سے تقاضہ کریں گے کہ تبدیلی کا جو نعرہ لگایا گیا اب اسے مکمل کیا جائے۔ اب یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ اگر یہ نعرہ مکمل نہ ہوا اورتبدیلی نہ آئی تو پھر سیاستدانوں کے ساتھ پرانا سلوک نہیں ہوگا بلکہ اب غصے کا اظہار شدت سے ہوگا۔ اس لیے اب انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ اب وہ تمام چیزیں جن پر تنقید ہوتی رہی، جنہیں تبدیل کرنے کا عزم دکھایا گیا، جن کے بارے میں عوام کو امید دکھائی گئی، انہیں عملی طور پر کرنا ہوگا۔ اب شہنشاہی جاہ و جلال عوام کو قبول نہیں ہوگا بلکہ وزیراعظم کو امارت کے مقام سے غربت کی جانب آنا ہوگا۔ اس کی آمدنی کم ہوتی ہوئی عوام کو نظر آنی چاہیے اور اس کا بیشتر وقت عوامی خدمت میں خرچ ہونا چاہیے۔ ایک بات سب کو سمجھنی چاہیے کہ تبدیلی صرف اکیلا وزیراعظم نہیں لاسکتا۔ اس کے لیے پوری حکومتی ٹیم کو لگن اور تندہی سے کام کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی اختلافات ہوتے ہیں،حکومتی ٹیم کو اپنے اندرونی اختلافات، اگر کوئی ہیں تو، پس پشت ڈال کر ایک ساتھ کام کرنا ہوگا اور عوام کو تبدیلی دکھانا ہوگی۔ عوام کو ''سٹیٹس کو'' ختم ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے۔ ایسا معلوم ہو کہ ''سٹیٹس کو'' اب گالی بن چکا ہے اور اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے لہٰذا معاملات سادگی کی طرف بڑھنے چاہئیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کا بہت زیادہ ٹیلنٹ بیرون ملک موجود ہے جس میں بہتر کام کرنے کی قابلیت موجود ہے اور وہاں خدمات سرانجام دے رہا ہے، انہیں پاکستان واپس آکر ملک کی خدمت کرنی چاہیے۔ حکومت کو بھی انہیں واپس لانے کے حوالے سے کام کرنا چاہیے۔ دنیا میں ایک اور بڑی تبدیلی آچکی ہے کہ اب لوگوں کے بینک اکائونٹ کی تفصیلات بتانا شروع کردی گئی ہیں۔ ہمارے ملک کی بہت ساری دولت باہر منتقل کی گئی ہے۔ اسے واپس لانے کیلئے ایمنسٹی سکیم بھی دی گئی تاہم جو رقم اس سکیم کے ذریعے بھی واپس نہیں آئی، اسے ملک میں لانے کا مناسب وقت ہے، یہ تبدیلی بھی اب آجانی چاہیے کہ ملک کا پیسہ واپس ملک میں لایاجائے۔ اب تبدیلی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، سب کو تبدیل ہونا پڑے گا اور اس کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انتخابات سے پہلے لوگوں نے صرف گریبان پکڑے تھے لیکن اگر اب تبدیلی نہ آئی اور ان کی امیدیں پوری نہ ہوئیں تو بات گریبان پکڑنے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اب گریبان چاک ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اب تبدیلی امید نہیں رہے گی بلکہ عملی طور پر نظر آئے گی۔
عابد حسن منٹو ( معروف دانشور و سینئر قانون دان)
میں اب صرف امید کے سہارے زیادہ زندہ نہیں رہتا۔15برس کا تھا جب پاکستان آزاد ہوا۔ پاکستان بنانے کی جدوجہد میں میرا خاندان پیش پیش تھا اور میں نے خود بھی کئی مواقع پر اس میں حصہ لیا۔ ہم راولپنڈی میں رہتے تھے اور زیادہ جلوس جامعہ مسجد راولپنڈی کی سڑک پر نکلتے تھے۔ میرے والد مسلم لیگ کے عہدیدار تھے، میں بھی ان کے ساتھ اس جلوس میں شریک تھا کہ پولیس نے دھاوا بولا اور ہم سب کو گرفتار کرکے لے گئی۔ میرا یہ جیل جانے کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ وہ جلوس تھا جس کے لیے قائد اعظمؒ نے پنجاب میں خضر حیات کی حکومت کے خلاف کال دی تھی۔ ایک ماہ بعد مجھے کم عمر ہونے کی وجہ سے جیل سے رہا کردیا گیا لیکن وہ ساری چیزیں آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ ہم ایک ایسا پاکستان بنانے کی جدوجہد کررہے تھے جس کے بننے سے پہلے ہی مشکلات شروع ہوچکی تھیں۔ اس وقت ہمارے راولپنڈی شہر کی مسلم لیگ کے صدر شیخ محمد عمر، تجربہ کار ضرور تھے مگر زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، میرے والد جو مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری اور وکیل بھی تھے، سے پوچھتے تھے کہ خواجہ صاحب جب پاکستان بن جائے گا تو مجھے کیا بنائیں گے۔ افسوس ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے ہی لوگ اس میں اپنے لیے عہدے تلاش کررہے تھے۔پاکستان بننے کے بعد ہماری سیاست میں وہ کردار آگئے جن کا سیاست سے صرف اتنا ہی تعلق تھا کہ وہ انگریزوں کے قریب تھے۔ جو لوگ لیڈر شپ میں آئے وہ وزارتوں اور عہدوں کے پہلے سے ہی دعویدار تھے جبکہ عوام کا جم غفیر جو قائد اعظمؒ سے متاثر ہوکر ان کے ساتھ چلا وہ نیچے ہی رہا۔ پہلے دن سے ہی پنجاب میں نواب ممدوٹ اور نواز دولتانہ کے درمیان لڑائی ہوئی اور یہ دونوں مسلم لیگی تھے۔ میں نے ساری کشمکش کو قریب سے دیکھا ہے۔ جن لوگوں کے قبضے میں یہ ملک آیا انہوں نے اسے ختم کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی ، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آج پاکستان موجودکیسے ہے۔ اس وقت اگر کوئی نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگاتا ہے تو میرا اس سے سوال یہ ہے کیا آپ نے یہ اندازہ لگا لیا کہ پرانا پاکستان کیا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ملک میں دو دفعہ زرعی اصلاحات کی گئیں کیونکہ اس وقت کی حکومت نے سمجھا کہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان دونوں زرعی اصلاحات کو ہمارے ہی ملک کی عدالت نے غیر شرعی قرار دے دیا۔ میں نے گزشتہ 8برسوں سے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے لیکن اس کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔آج کچھ لوگ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات کررہے ہیں۔ یہ مطالبہ کرنے والی لیڈرشپ پر غور کیا جائے تو وہ تمام جاگیردار ہیں جنہیں پنجاب کے بڑے علاقے میں اپنی طاقت منوانے کا وہ موقع نہیں ملتا جو الگ صوبہ بنا کر حکمرانی میں ملے گا۔ ہمارا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ملک میں حقیقی جمہوری نظام قائم کرنا چاہتے ہیں؟ جمہوری نظام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ الیکشن کرواکے حکومت بنا لی جائے۔ حالیہ الیکشن ہونے کے بعد جیتنے والی جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے، یہ دھاندلی صرف ان انتخابات میں ہی نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ سے ہی ہوتی آئی ہے اور طاقتور طبقات ایسا کرواتے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے، وہ گورنر ہائوس بھی عوام کیلئے کھول دیں گے، ایسا ہوبھی سکتا ہے کیونکہ یہ سرکاری عمارت ہے اور اس میں کسی کے مفادات کا ٹکرائو نہیں ہے لیکن اتنی ہی بڑی زمین پر کسی جاگیردار کا قبضہ چھڑوانے کی سکت ان میں نہیں ہے۔میرے نزدیک یہ پاکستان کو نیا بنانے کی جانب کوئی قدم نہیں ہوگا۔ اگر ہم نے نیا پاکستان بنانا ہے تو جاگیردارانہ نظام ختم کرنا ہوگا اور زمین واگزار کرواکر کسانوں کو دینا ہوں گی کیونکہ جب تک یہ لوگ اپنے مالک سے آزاد نہیں ہوں گے تب تک 60 فیصد آبادی آزادی سے اپنا ووٹ نہیں ڈال سکتی ۔ 80 ہزار ایکٹر رقبہ ایک شخص کے پاس ہے، وہاں موجود لوگوں کو آزاد کرنا ہوگا۔ کیا کسی نے دیکھا کہ سند ھ اور جنوبی پنجاب میں جہاں جاگیردارانہ نظام ہے وہاں لوگوں نے کسے ووٹ دیا،سرداروں کے علاقے میں کسے ووٹ ملے۔ ہر الیکشن کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہی لوگ دوبارہ آگئے یا ان کے رشتے دار آگئے، اس طرح سے تو پاکستان نیا نہیں بنے گا۔ افسوس ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان کی ترقی کو روکا ، وہی لوگ پرانے پاکستان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ قائد اعظمؒ کی 11 اگست کی تقریر کا بہت چرچہ ہے مگر اُس وقت اسے بلیک آئوٹ کیا گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ریاست جمہوری ہوگی اور مذہب کا کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔قائد اعظمؒ کی اس تقریر کو آج بھی زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کیلئے آئین پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔عوام کے پاس معاشی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ مفاد پرست طبقے کے ہاتھ میں ساری دولت ہے۔ بیرون ملک سے دولت واپس لانے کی باتیں ہورہی ہیں، سوال یہ ہے کہ دولت کیسے واپس لائیں گے؟ ان کے تو اپنے اپنے قوانین ہیں۔ میرے نزدیک یہاں موجود پیسے کے حوالے سے قانون بنائیں اوروہ پیسہ لے کر عوام کو معاشی طور پر مستحکم کیا جائے۔اس مرتبہ الیکشن میں بڑے بڑے بینرز اور ہولڈنگز نظر نہیں آئے، سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں فیصلہ کیا جو ہم نے الیکشن قوانین کے حوالے سے 1999ء میں دائر کیا، 2001ء میں اس کافیصلہ ہوا اور اب جا کر عملدرآمد ہوا۔ میرے نزدیک اگر نیت صاف ہو اور صحیح معنوں میں جدوجہد کی جائے تو قائد اعظمؒ کا پاکستان بنایا جاسکتا ہے۔
امجد اسلام امجد (معروف ادیب و دانشور)
آج ہماری تاریخ کا اہم موڑ ہے کیونکہ ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے۔ نئے پاکستان کے نعرے پر بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پرانا پاکستان کیا تھا، کیوں تھا اور کیسے تھا ؟ کچھ چیزیںنسل در نسل چلتی ہیں۔ 70 برسوں میں ہماری تیسری نسل آگے آگئی ہے۔ اس نسل نے بہت ساری چیزیں دوسری نسل اور دوسری نسل نے پہلی نسل سے لی ہیں۔ 800 برس تک یہاں مسلمانوں کی جو حکومتیں رہیں انہوں نے اپنے ملک و قوم کے ساتھ ظلم کیا اور دنیا کی تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ 15 ویں اور 16ویں صدی کے بعد جب یورپ میں بڑی تبدیلیاں آئیں، صنعتی انقلاب آیا تو یورپ نے پوری دنیا خصوصاََ افریقہ اور ایشیاء پر غلبہ پالیا۔ 1757ء جنگ پلاسی اور 1857ء میں سقوط دہلی ہوا۔ یہ 100 برسوں کا فرق ہے اور بہت کم لوگ ہیں جو اس دورانیہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انگریز کا راج شروع ہونے سے بہت سارے مسائل پیدا ہوئے۔ ہمارا نظام تعلیم ، طرز فکر و دیگر نظام ہمارے اپنے ہی تھے مگر انگریز نے اس نظام کی جگہ اپنے اصول رائج کردیے۔ انگریز نے چونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے ان کے ساتھ اس کا رویہ متعصبانہ تھا جبکہ ہندوئوں کو نرمی حاصل تھی۔ اس نئے زمانے کے تحت1885ء میں انڈین کانگریس قیام میں آئی جو سیاسی جماعت تھی۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی جانب سے پہلا ردعمل 1906ء میںمسلم لیگ کی صورت میں آیا جو اصلاحی جماعت تھی۔ 1929ء میں 14 نکات پیش کرکے پاکستان کی موجودہ شکل کی بنیاد رکھی گئی ۔ دنیا میں مغربی جمہوریت تھی مگر جنگ عظیم اول کے بعد دنیا میں ایک متوازی سسٹم وجود میں آیا جسے کمیونسٹ نظام کہتے تھے۔ اُس وقت برصغیر کے لوگوںکے سامنے دو راستے تھے کہ کس طرح نظام کو آگے چلائیں۔ انصاف ، مساوات، انسانی حقوق وغیرہ کا بہت سارا حصہ ہمیں روسی انقلاب سے ملا۔ یہ وہی چیزیں ہیں جو 1400 برس پہلے ہمیں دین اسلام نے بتائیں مگر ہم نے انہیں فراموش کردیا اور پھر ان کی ایک نئی شکل ہمارے سامنے آئی۔ جب پاکستان بنا تو اس کی بنیاد یہی تھی کہ وہ لوگ جو تعلیمی، معاشی و دیگر لحاظ سے پیچھے رہ گئے ہیں، انہیں ایسے نظام میں رکھا جائے جس میں سماجی اصلاحات کی جائیں گی اور ان لوگوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ افسوس ہے کہ گزشتہ 70 برسوں میں ان چیزوں پر باتیں تو بہت کی گئیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا بلکہ امیر ، غریب کا فرق بڑھتا گیا اور کسی کو برابری کی سطح پر مواقع نہیں ملے۔ آزادی کے بعد یہاں تین مضبوط طبقات سامنے آئے جن میں جاگیردار، بیوروکریٹس اور فوج شامل ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو سہارا بنایا حالانکہ ان کا رخ عوام کی حالت بہتر کرنے کی جانب ہونا چاہیے تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ طبقات آپس میں ملتے گئے اور اصل پاکستان پیچھے رہتا گیا۔ ہماری تاریخ میں قائداعظمؒ ،ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان، تین ایسے لیڈر آئے ہیں جن کی گرومنگ مغرب میں ہوئی ہے جو ان کے انداز نظر اور سوچ کو سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک نئے پاکستان کے لیے ایسے ہی شخص کی ضرورت تھی۔اب نہ صرف عمران خان بلکہ ہم سب کوایک ایسا راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے معاملات بہتری کی جانب بڑھیں۔ جس طرح امریکا میں حکومت کے بدلنے کے باوجود قومی پالیسی کا تسلسل رہتا ہے، اسی طرح ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے اندر وسعت قلبی اور ذہنی بلوغت پیدا کرنا ہوگی۔ الیکشن کے مسائل کو زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ جو بھی اچھا کام کرے اس کی تعریف اور تقلید کرنی چاہیے ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ غلط رواج ہے کہ نئی حکومت، پچھلی حکومت کے سارے کاموں کی مذمت کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے لہٰذا اب یہ روش ختم ہونی چاہیے۔ امید ہے نئے پاکستان میں وسعت قلبی اور ایمانداری کا رویہ ہوگا اور تمام لوگوں کو ایک جیسا انصاف ملے گا تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو گزشتہ 70 برسوں جیسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ماضی میں جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے نئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا گیا حالانکہ یہ اسی پاکستان کا تسلسل ہے لہٰذا اب سب کو مل کر ملک و قوم کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔
شاہد معراج (پادری)
تمام پاکستانیوں کو یوم آزادی مبارکم ہو۔ ہم مذہبی دن بھی مناتے ہیں مگر قومی دن کا الگ ہی رنگ ہے۔ پاکستان کی تعمیر میں ہمارے بزرگوں نے بلا امتیاز رنگ، نسل، زبان، مذہب، ذات اور عقیدہ کے بھرپور حصہ لیا۔ مال روڈ سے گزرتے ہوئے وہ سارا منظر تازہ ہوگیا کہ جب چودھری چندو لال نے ہائی کورٹ کی عمارت کے مقام پر اینگلو انڈین کرسچنز کو اکٹھا کرکے کونسل میٹنگ کی۔ پٹھانکوٹ اور ایسے تمام علاقے جہاں مسیحی اکثریت تھی انہیں کہا کہ ہم نے پاکستان کے حق میں ووٹ دینا ہے اور پھر انہوں نے بے شمار قراردادیں بائونڈری کمیشن کو بھی دیں اور کہا کہ ہمارا شمار مسلمان آبادی والے علاقوں کے ساتھ کیا جائے۔ ایس پی سنگھاصاحب، فضل دین و بے شمار بزرگوں نے بابائے قوم قائد اعظمؒ کی قیادت میں بھرپور کردار ادا کیا۔منٹو پارک میں 1940ء کو جب قرارداد پاکستان پیش کی گئی تو مذہبی اقلیتوں نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ قرارداد پاکستان کے چند برس بعد جب لائل پور دھوبی گھاٹ میں قائداعظمؒ، محترمہ فاطمہ جناحؒو دیگر لیڈرز گئے تو مسیحیوں کی جانب سے الگ سپاس نامہ پیس کیا گیا،اور ایک خواہش ظاہر کی گئی کہ الگ سے بھی ہمارے پاس آئیں ہم آپ کو باقاعدہ طور پر اپنا قائد ڈکلیئر کرنا چاہتے ہیں۔ اگلے دن واپڈا ہائوس لاہور کے قریب ایک ریستوران میں میٹنگ ہوئی جس میں باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا گیا۔ جولائی 1947ء میں پنجاب اسمبلی سیڑھیوں پر ، جب ووٹنگ ہورہی تھی کہ کہاں کھڑے ہونا ہے اور کس کے ساتھ جانا ہے۔ کالی دھن کی جانب سے نعرہ بلند کیاگیا کہ جو مانگے کا پاکستان اس کو ملے گا قبرستان۔ اسی وقت ایسی پی سنگھا صاحب نے جواب دیا کہ سینے پر گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے۔ یہ وہ جذبہ تھا جس کے تحت پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظمؒ نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں وہ سنہری اصول بتا دیے جس سے پاکستان کا آغاز کیا گیا کہ پاکستان بلا امتیاز رنگ، نسل، ذات اور عقیدہ کے تمام پاکستانیوں کا ملک ہے۔ ہمیں اس سنہری اصول کے مطابق ملک کو اسے آگے لے کر چلنا چاہیے۔جمہوری اعتبار سے نئی حکومت کی آمد آمد ہے۔ لوگوں کا جوش و جذبہ دیدنی ہے اور انہیں بہت ساری توقعات ہیں۔ پرانی وہ چیز ہے جو انسان کی سرشت ہے اورجس میں بہت سارے مفاد پرست عناصر نے ملک پر قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ ہمیں قائداعظمؒ کے پاکستان کو پھر سے ڈھونڈھنا ہے۔ حکومت کوئی بھی کیوں نہ ہو، اگر وہ اس سنہری اصول کو سامنے رکھے جس میں تمام پاکستانی کسی امتیاز کے بغیر خوشحال زندگی بسر کریں، یہ بہت بڑی بات ہوگی۔ ہمارے ہاں یہ ہوا کہ گھر کے باسیوں میں ہی تفریق آگئی۔ اب جو نئی بات ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کی سرشت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ آزادی تو ہم نے حاصل کرلی مگر اب ہمیں اپنی اس سرشت سے آزادی حاصل کرنی ہے جس سے لوگوں کا استحصال ہورہا ہے۔ حضرت قائد اعظمؒ نے ان تمام لوگوں کے لیے جو استحصال کا شکار تھے، جو حقوق عدل اور انصاف سے محروم تھے، ان کو ایک خوبصورت سرزمین دینے کا وعدہ بھی کیا اور اسے بنایا بھی۔ ان کی نیت اور سوچ نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ قائد اعظمؒ کو جو ٹیم ملی وہ بہت مخلص تھی۔ اس لیے بڑی جلدی یہ مشن مکمل ہوا۔ قرارداد پاکستان اقوام عالم کیلئے بہت بڑی مثال ہے کہ کس طرح سے ہم نے علیحدہ وطن حاصل کرلیاآج اقوام عالم میں پاکستان کا نام سربلند کرنے کیلئے اسی سنہری اصول کی جانب واپس جانا ہوگا اور حکومت کوئی بھی آئے اسے تمام پاکستانیوں کا برابر کا خیال رکھنا ہوگا۔ اور سب کو پاکستان کے پورے شہری ہونے کا احساس ہونا چاہیے اور ہمارا رویہ بھی ویسا ہی ہونا چاہیے۔ ہماری دعا بھی یہی ہے اور توقعات بھی یہی ہیں کہ معاملات درست ہوں گے۔ پرانا پاکستان کیا ہے، وہ بوسیدہ سوچ ہے جس نے اس گھر کے لوگوں کو ہی بے گھر کردیا، ان کا ہی استحصال کردیا۔ عدل و انصاف سے محروم کردیا ہے۔ہم نے پاکستان کی بات کرنی ہے۔ بچوں کی سوچ کو بڑھانا ہے اور ایک دوسرے کو قریب لانا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ نئی فضا میں ہمیں برداشت کی نہیں قبولیت کی سپرٹ کو آگے بڑھانا ہوگا۔ برادشت ہم مجبوری میں بھی کر لیتے ہیں، جب تک ہم ایک دوسرے کو قبول نہیں کریں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ قائد اعظمؒ کی قیادت میں سب نے ایک دوسرے کو قبول کیا، آج بھی اسی روح کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی بحیثیت قوم ہم نے دہشت گردی پر قابو پایا۔ اس کی وجہ سے ہماری مساجد، چرچ، تعلیمی درسگاہیں، بچے ، بڑے محفوظ نہیں رہے۔ سب نے مل کر اس دشمن کا مقابلہ کیا اور افواج پاکستان، پولیس، سول سوسائٹی سمیت کسی نے بھی قربانی سے گریز نہیں کیا۔ جو قوم قربانی دینا جانتی ہے اسے کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا۔ آج یہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی آسائشوں کو چھوڑ کر، قربانی کے جذبے کے ساتھ ایسے پاکستان کیلئے کام کریں، جس میں تمام لوگ برابر ہوں۔ پاکستانیوں کی وفاداری کسی مذہب کے ساتھ نہیں بلکہ مٹی کے ساتھ ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ دھرتی ماں کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یوم آزادی کا موقع ہے جو عہد کا دن ہے۔ ہم ہندوستان سے تو آزاد ہوگئے مگر کیا ہم حقیقی معنوںمیں اپنی پرانی سرشت جس میں نفرت، لالچ، کرپشن شامل ہیں اسے چھوڑنے کیلئے تیار ہیں؟ حکومت کوئی بھی ہو اگر وہ قائداعظمؒ کے پاکستان کیلئے کام کرے گی تو اقوام عالم میں پاکستان کا نام بھی سربلند ہوگا اور یہاں بسنے والے لوگ بھی خوشحال زندگی بسر کریں گے۔