انعامات کی رات

اس رات میں اتنے فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی...


Shahid Zubair August 14, 2012
’’جو شخص اس رات سے محروم رہا، وہ گویا سارے خیر سے محروم رہا۔‘‘ (فوٹو : ایکسپریس)

ISLAMABAD: لیلۃ القدر وہ رات ہے جس میں عبادت گزار بندوں پر تجلی خاص ہوتی ہے۔ اس کی عبادت مقبول، درجات بلند اور نامۂ اعمال میں ایک ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔ اتنے انعامات کی رات محمد ﷺ کی امت کو عطا کی گئی۔ خود باری تعالیٰ نے اسے سلامتی کی شب کہا۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:''بلاشبہہ اﷲ تعالیٰ نے لیلۃ القدر میری امت ہی کو عطا فرمائی ہے، اس سے پہلے کسی امت کو نہیں ملی۔''

حضور نبی کریم ﷺ کو جب دوسری امتوں کی عمروں کی خبر دی گئی تو آپؐ نے اپنی امت کی عمر کو، حقوق و فرائض کی بجا آوری کے لیے بہت کم سمجھا۔ چناں چہ باری تعالیٰ نے اس رات کی فضیلت بڑھادی۔ حدیث میں آیا ہے کہ اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو، گویا محض آخری دس روز کی عبادت آٹھ سو تینتیس سال کی عبادت ہوئی۔

اس شب کی فضیلت خود رب کریم نے بیان فرمائی اور ایک مستقل سورت قرآن پاک میں قائم کی۔ لیلۃ القدر مقدر کی رات ہے جس میں بندوں کی تقدیر فرشتوں کے حوالے کی جاتی ہے۔ قدر کی رات کا مطلب عظمت کی رات ہے، یعنی عملاً اس رات کی عبادت عزوشرف میں بڑھی ہوئی ہے۔ پھر اس رات میں اتنے فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔ یہ فرشتے صبح صادق تک انعام و اکرام کی بارش کرتے ہیں۔

لیلۃ القدر کی فضیلت کی کئی اور وجوہ بھی ہیں۔ قرآن پاک کا نزول اسی رات کو شروع ہوا۔ روایت ہے کہ اس رات ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ آدم کا مادہ جمع ہونا شروع ہوا۔ اسی رات جنت میں درخت لگائے گئے۔ اسی رات حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھائے گئے اور اسی رات بنی اسرائیل کی توبہ قبول کی گئی۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا سارے خیر سے محروم رہ گیا۔ اس کی بھلائی سے کوئی محروم نہیں رہتا، مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے۔''

سورۃ القدر میں ارشاد فرمایا:''بے شک! ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا، آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح القدس اپنے پروردگار کے حق سے ہر امر خیر لے کر اترتے ہیں، (یہ شب) سراپا سلام ہے، اور طلوع فجر تک رہتی ہے۔''

یہ شب سال بھر کی تمام راتوں کی سردار ہے۔اس رات فرشتے بندوں کی عبادت کو دیکھ کر حیرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے لیے رب کی مغفرت تقسیم کرتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''شب قدر میں جبرئیل فرشتوں کے ایک جتھے کے ساتھ نزول کرتے ہیں اور جس شخص کو عبادت میں مصروف پاتے ہیں، اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔''

اس شب میں کوئی مسلمان گھر ایسا نہیں ہوتا جس میں کوئی فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔ جو بیٹھا پایا جائے فرشتہ، اس کو سلام کرتا ہے، جو ذکر میں مصروف ہو، اس کو جبرئیل خود سلام کرتے ہیں اور جو نماز میں مصروف ہوتا ہے، اس پر اﷲ تعالیٰ خود سلامتی فرماتے ہیں۔

حضرت عبادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے کہ ہمیں شب قدر کی اطلاع فرمادیں مگر اس وقت دو مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:''میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی خبردوں، مگر فلاں فلاں شخص میں جھگڑا ہورہا تھا جس کی وجہ سے اس کا تعین اٹھالیا گیا۔''

نبی رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا:''مجھ کو یہ شب دکھائی گئی پھر مجھے بھلادی گئی اور میں نے اس کی صبح کو اپنے آپ کو پانی اور مٹی میں سجدہ کرتے دیکھا۔''

یہ بات اکیسویں شب کو دیکھی گئی، یعنی اکیسویں شب کی صبح آپؐ کی پیشانی پر پانی اور مٹی کا اثر دیکھا گیا۔

حضرت عائشہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کے حوالے سے بتایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''اس رات کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ وہ چمک دار اور کھلی ہوئی ہوتی ہے۔ صاف اور شفاف اور معتدل ہوتی ہے۔ گرم نہ سرد گویا اس میں چاند کھلا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے بعد صبح کو سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے، بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح۔''

ایک اور جگہ آپ ﷺ نے فرمایا:''یہ ایک نرم چمک دار رات ہے۔ نہ گرم ، نہ سرد، اس کی صبح سورج کمزور اور سرخ طلوع ہوتا ہے۔''

شب قدر کی فضیلت ، ہدایات اور احکامات کے بارے میں کئی احادیث ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کا فرمان بیان کیا:

''جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہوجائے، اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔''

اس حدیث میں ثواب کی نیت سے کھڑا ہونے کا مطلب محض نماز ہی نہیں، بلکہ پوری عبادت ہے۔ یہ گناہ کبیرہ سے استغفار کا بہترین موقع ہے۔ علمائے کرام نے اس شب کی عبادت کا کوئی خاص طریقہ بیان نہیں کیا، صرف یہی بتایا کہ جہاں تک ہوسکے نوافل ادا کیے جائیں، تلاوت سے فیض حاصل کیا جائے اور ذکر، استغفار اور درود شریف کی کثرت کی جائے۔

نبی پاک ﷺ نے فرمایا:''جس شخص نے سارے رمضان مغرب اور عشا کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، اس نے شب قدر کا بڑا حصہ پالیا۔''

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:''جس نے سارے رمضان المبارک میں عشا کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، اس نے لیلۃ القدر کو پالیا۔''

وہ چند راتیں جن کی قرآن اور حدیث میں فضیلت آئی ہے، ان شب جمعہ، رجب کی پہلی رات، شب معراج، شب برأت، عیدالفطر اور عیدالاضحی کی راتیں اور شب قدر شامل ہیں۔ تمام احادیث اور قرآن کریم میں خود ان راتوں پر بیانات موجود ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے رسول ﷺ سے پوچھا:''اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کونسی شب، شب قدر ہے تو میں اس رات اﷲ تعالیٰ سے کیا عرض کروں؟''
اﷲ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:''کہو اے اﷲ آپ معاف کرنے والے ہیں (اور) کریم ہیں۔ عفو کو پسند کرتے ہیں لہٰذا مجھ سے درگزر کردیجیے۔''

اس شب کی فضیلت اور عبادت کے لیے نبی پاک ﷺ مسجد میں اعتکاف فرماتے۔ آپؐ کا اعتکاف اکیسویں شب شروع ہوتا۔ مسجد میں اعتکاف کا مقصد یہی ہے کہ بندہ دنیاوی آلائشوں سے ہٹ کر تمام امور کو بالائے طاق رکھ کر کچھ دن کے لیے صرف اسی کا ہو رہے تاکہ آخری عشرے میں جو رب کریم کے وعدے کے مطابق جہنم سے آزادی کا عشرہ ہے، خود کو پوری یکسوئی کے ساتھ اس کے لیے وقف کرسکے۔

مسجد کے اندر اعتکاف ایک طرف تو طہارت قلب کرتا ہے، دوسرے معتکف یکسوئی اور شوق سے شب قدر کا منتظر رہتا ہے۔

لیلۃ القدر کے متعلق دو روایتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ شب قدر میں پورا قرآن کریم آسمان پر اتارا گیا جہاں سے تھوڑا تھوڑا نبی کریم ﷺ کو عطا ہوتا رہا۔ گویا جس سال قرآن اتارا گیا، وہ شب یقیناً رمضان ہی کی تھی۔

دوسری روایت یہ ہے کہ اس شب میں ملائکہ اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے جس میں تمام عالم پر روحانیت طاری ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں