پاکستانی خواتین کسی سے کم نہیں

پاکستانی خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے ساتھ اپنی باہمت اور پراعتماد شخصیت کا بھی ثبوت دیا ہے۔

پاکستانی خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے ساتھ اپنی باہمت اور پراعتماد شخصیت کا بھی ثبوت دیا ہے۔ فوٹو: فائل

مختصر وسائل اور ناکافی سہولیات کے باوجود ہمارے وطن پاکستان کی خواتین نے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ سبھی دنگ رہ گئے ہیں۔

مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پاکستانی خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے ساتھ اپنی باہمت اور پراعتماد شخصیت کا بھی ثبوت دیا ہے۔ ایسی ہی چند خواتین کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے۔

٭ روشین خان:

روشین خان کو ''چرنا آئی لینڈ کی جل پری'' کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ چرنا آئی لینڈ کراچی کے ساحل کے قریب ایک جزیرہ ہے۔ روشین خان پاکستان کی پہلی اور واحد خاتون اسکوبا ڈائیونگ انسٹرکٹر ہیں اور اس شعبے میں اپنی ہمت اور مہارت کا مظاہرہ بھی کررہی ہیں اور یہ فن دوسری نوجوان لڑکیوں کو بھی سکھارہی ہیں۔

٭ کلثوم ہزارہ:

کلثوم ہزارہ کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور یہ کراٹے چیمپئن ہیں۔ کلثوم نے اس تصور کو ختم کردیا ہے کہ خواتین صرف باورچی خانے میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ خواتین کی قومی کراٹے چیمپئن بن کر انھوں نے خواتین کے متعلق روایتی خیالات کو مسترد کردیا ہے۔

٭ماریہ تورپکائی وزیر:

ماریہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی کھلاڑی ہیں۔ اسکواش کی خواتین کھلاڑیوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے اس وقت وہ دنیا بھر میں 54 ویں نمبر پر ہیں۔ ابتدا میں وہ لڑکے کے روپ میں پشاور میں مقابلوں میں حصہ لیتی تھیں۔ لیکن طویل عرصے تک اپنی شناخت چھپانا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا اب وہ بہ حیثیت خاتون کھلاڑی اسکواش کے مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں۔


٭زینت عرفان:

دو پہیوں پر سوار شاہ راہوں پر حکم رانی کرنے والی پاکستانی خاتون کا نام زینت عرفان ہے۔ زینت کی کوشش ہے کہ وہ اپنے مرحوم والد کا خواب پورا کریں جو یہ چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی موٹر بائیک (موٹرسائیکل) پر اپنے وطن کا سفر کریں۔ زینت عرفان پاکستان کی پہلی خاتون موٹرسائیکلسٹ ہیں جنھوں نے پاکستان بھر میں موٹرسائیکل پر سفر کیا ہے۔

٭شمیم اختر:

شمیم اختر پاکستان کی پہلی خاتون ٹرک ڈرائیور ہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کا کار چلانا بھی بیش تر افراد کے نزدیک اچھا نہیں سمجھا جاتا، وہاں شمیم نے بہ حیثیت ٹرک ڈرائیور اپنی خصوصی پہچان بنائی ہے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی شمیم اختر اس کام کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام امور بھی سرانجام دیتی ہیں۔ برتن دھونے سے لے کر ٹرک میں مال لادنے تک تمام کام کرتی ہیں۔ الغرض پاکستانی خواتین نے یہ ثابت کردیا ہے کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، ہر جگہ پاکستانی خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔

قابل فخر کم عمر پاکستانی کوہ پیما لڑکیاں

قراقرم پہاڑی سلسلے کی طویل منگلیسر چوٹی سر کرکے انہوں نے تاریخی ریکارڈ قائم کردیا

چوبیس جولائی 2018 کو نو عمر پاکستانی لڑکیوں نے منگلیسر چوٹی سر کرکے تاریخی ریکارڈ قائم کیا۔ کوہ پیمائی کی تاریخ میں یہ ریکارڈ پاکستان کے لیے باعث فخر ہے۔ گوکہ اس سے قبل عالمی شہرت یافتہ پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ نے اکیس برس کی عمر میں ماؤنٹ ایوریسٹ پر پاکستانی پرچم لہرا کر دنیا بھر میں یہ ثابت کردیا تھا کہ پاکستان کی خواتین کسی سے کم نہیں۔ پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیوں کو سر کرنے والی وہ پہلی مسلمان اور پاکستانی خاتون ہیں۔ لیکن تین کم عمر لڑکیوں کی کوہ پیمائی کرتے ہوئے پہاڑی سلسلوں کی طویل چوٹی سر کرنے کا یہ منفرد ریکارڈ ہے۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی تیرہ سالہ آمنہ حنیف، چودہ سالہ مریم بشیر اور پندرہ سالہ سعدیہ بتول نے اپنے دادا اور دیگر کوہ پیماؤں کے ہمراہ سولہ جولائی کو اس مشکل اور سخت سفر کا آغاز کیا۔ انتہائی جدوجہد اور محنت کے بعد 24جولائی کو شمشال ویلی میں قراقرم پہاڑی سلسلے کی 6080 کلو میٹر طویل منگلیسر چوٹی سر کرکے تاریخی ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ اس کامیاب کوہ پیمائی کا سہرا وہ اپنے دادا کی حوصلہ افزائی کو قرار دیتی ہیں اور اپنے دادا کی مشکور ہیں۔ تینوں لڑکیوں نے اپنے دادا لٹل کریم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے دادا ہمیں حوصلہ نہ دیتے تو ہم اس تاریخی کارنامے کو سرانجام نہیں دے سکتی تھیں۔ آمنہ نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ کوہ پیمائی کا آغاز ہے اور مستقبل میں دنیا کی خطرناک ترین چوٹیاں سر کرنے کا پختہ ارادہ ہے۔

تینوں نو عمر لڑکیوں کے ہمراہ ان کے دادا لٹل کریم، محمد حنیف اور دیگر چار غیر ملکی کوہ پیما بھی تھے۔ حنیف، مریم اور آمنہ کے والد ہیں انھوں نے اپنی بیٹیوں کی اس کامیابی کے پس پردہ ان کی انتہائی جدوجہد اور محنت کو جذبے کو قرار دیتے ہوئے بیٹیوں کے اس کارنامے کو قابل ستائش قرار دیا، اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ''ہسپانوی کوہ پیما ماریہ مارکو'' کا بھی شکریہ ادا کیا جن کی حوصلہ افزائی اور راہ نمائی کے باعث لڑکیوں نے کامیابی سے یہ چوٹی سر کی۔ الغرض پاکستانی کم عمر لڑکیوں نے اس ریکارڈ سے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔

 
Load Next Story