لیلۃ القدر ایک نورانی شب

بزرگ کہتے ہیں کہ جو گزر گیا وہ ماضی کا حصہ بن گیا جب کہ مستقبل غیر...


Mufti Abu Huraira Muhiuddin August 14, 2012
لیلۃ القدر: ایک نورانی شب فوٹو : ایکسپریس

حضرتابن عباس فرماتے ہیں کہ جب لیلۃ القدر آتی ہے تو اﷲ تعالیٰ کے حکم پر جبرائیل امینؑ ملائکہ کے جھرمٹ میں آسمانوں سے زمین کی طرف اترتے ہیں۔ ملائکہ کے پاس سبز رنگ کے پرچم ہوتے ہیں جو وہ بیت اﷲ کی چھت پر گاڑ دیتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے ہر اس بندے کو سلام کرتے ہیں جو عبادت کی حالت میں کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر میں مشغول ہو اور ان لوگوں سے مصافحہ کرتے ہیں اور ان کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں، یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے۔ پھر جب صبح ہوجاتی ہے تو فرشتے جبرئیل امین سے پوچھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے مومنوں کی ضروریات کے بارے کیا فیصلہ فرمایا؟

جبرائیل امینؑ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے نظر رحمت سے دیکھتے ہوئے انہیں بخش دیا، سوائے چار افراد کے۔

صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم نے رسول کریمﷺ کی خدمت میں عرض کیا:

''یا رسول اﷲ! وہ چار افراد کون ہیں؟''

اس پر نبی رحمت ﷺ نے فرمایا:''عادی شرابی، والدین کا نافرمان، رشتے ناتے توڑنے والا اور کینہ پرور!''

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:''تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو اس رات سے محروم رہ گیا گویا تمام خیر سے محروم رہ گیا۔ اور اس رات کی بھلائی سے محروم صرف وہ محروم رہتا ہے جو حقیقتاً محروم ہے۔''

(ابن ماجہ)
گذشتہ اقوام میں لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ چناں چہ ان میں سے اﷲ رب العزت کے نیک بندے سینکڑوں سال تک شب و روز رب کائنات کی عبادت میں لگے رہتے جس کے نتیجے میں وہ نیکیوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ آخرت کے لیے تیار کرلیا کرتے تھے۔ مگر امت محمدیہ کی عمریں اﷲ تعالیٰ نے ان سابقہ امتوں کی نسبت بہت کم رکھی ہیں لہٰذا خدشہ تھا کہ سردار الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے امتی ان سابقہ امتوں کے لوگوں کے درجے تک نہیں پہنچ سکیں گے، اس لیے خالق کائنات نے ہمیں ''لیلۃ القدر '' عطا فرمادی اور اس ایک رات کی عبادت کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا۔ کس قدر افضل؟ اس کا کوئی تعین نہیں فرمایا۔ یہ ہر انسان کے ایمان و اخلاص پر منحصر ہے، کیوں کہ اس غفور الرحیم کے دربار میں سند مقبولیت حاصل کرنے والی نیکی پودے کی مانند پھلتی پھولتی رہتی ہے۔ اب وہ کس قدر برگ و بار لاتی ہے، اس کا صحیح علم اس پاک ذات یعنی اﷲ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو نہیں ہوسکتا۔ وہ چاہے تو اس ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں کے بجائے ہزار سال کے برابر بھی عطا فرما سکتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ دے سکتا ہے، اس کی رحمت سے کچھ بعید نہیں۔

یہاں پر ایک اور بات بھی غور طلب ہے، وہ یہ کہ پہلے زمانے کے نیک لوگوں کی عمریں زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی نیکیوں کی فہرست بہت طویل ہوتی تھی، مگر دوسری جانب جو نافرمان تھے، ان کے گناہوں کی فہرست بھی اسی قدر طویل ہوجایا کرتی تھی۔ اس رحیم و کریم ذات نے جو اس امت پر حد درجہ مہربان ہے، ہماری عمریں مختصر کرکے ہم پر دہرا احسان فرمایا۔ ایک تو یہ کہ ہم جیسے ناتواں لوگوں کو سینکڑوں سال کی ریاضت اور مشقت سے بچالیا، دوسری طرف بڑے بڑے گناہوں سے بھی بچالیا۔

پھر یہ بھی کہ ماہ رمضان میں ہر نیکی کا اجر کم از کم ستر گنا کردیا اور مزید یہ کہ شب قدر جیسی انمول نعمت بھی دی، جس میں ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے اور کتنا زیادہ ہے، اس کی بھی رب کریم نے کوئی حد مقرر نہیں فرمائی۔ جتنا زیادہ اخلاص اتنا ہی زیادہ ثواب!

ذرا تصور کیجیے کہ روز قیامت جب تمام انسان ایک جگہ جمع ہوں گے اور گذشتہ امتوں کے ہزار، ہزار سال کی عمریں پانے والے اﷲ کے فرماں برداروں کی نیکیوں کا ڈھیر لگا ہوا ہوگا، ان کے ہزار برسوں کے روزوں، نمازوں اور شب بیداری کے اجر سے ہر ایک متاثر ہو رہا ہوگا، بالخصوص نبی کریم ﷺ کے کم عمریں پانے والے امتی اپنی مختصر مدت کی عبادت کو دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہونے لگیں گے، ایسے میں جب اس امت کے خوش نصیبوں کو معلوم ہوگا کہ ان کی ہر سال صرف شب قدر کی عبادت گذشتہ اقوام کی ہزاروں سال کی عبادت پر حاوی ہوگئی تو انھیں کس قدر خوشی ہوگی۔

کیا اس خوشی کے حصول کے لیے ہمیں کچھ نہیں کرنا چاہیے؟ مگر ہم تو اس کی خاطر ایک رات کا سکھ چین قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ رب کائنات اپنی سچی ترین کتاب اور صادق و امین پیغمبر محمد مصطفیٰﷺ کے ذریعے ہم سے وعدہ کر رہا ہے کہ ایک نیکی کا اجر دس تا سات سو گنا، بلکہ اس سے بھی زیادہ دوں گا۔ رمضان میں مزید ستر گنا بڑھا دوں گا اور لیلۃ القدر میں تو اپنے کرم کی انتہا کرتے ہوئے ایک رات کی عبادت کا ثواب تیس ہزار راتوں کی عبادت سے زیادہ دوں گا، مگر افسوس کہ ہم اس کے لیے صرف ایک رات کی نیند قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ زندگی تو یوں بھی بہت مختصر ہے پھر ہم میں سے اکثر کی عمر گزر چکی ہے اور مزید فکر کی بات یہ ہے کہ اگر ہم بڑھاپے میں توبہ کریں، دن رات عبادت کریں تب بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔

بزرگ کہتے ہیں کہ جو گزر گیا وہ ماضی کا حصہ بن گیا جب کہ مستقبل غیر یقینی ہے لہٰذا آج کا دن ہی اصل زندگی ہے، اس لیے یہی شب و روز اصل زندگی ہیں۔ جس نے اس ماہ مبارکہ کے پاک دنوں میں روزہ رکھ کر اور ان راتوں میں جاگ کر خدا کی عبادت کرکے انہیں قیمتی بنالیا، گویا انہوں نے دنیا کے بدلے آخرت خریدلی اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں