گھر کی ملکہ کون۔۔۔

ازدواجی زندگی میں منصفانہ تعلق ضروری ہے


ازدواجی زندگی میں منصفانہ تعلق ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

لڑکیوں کے بچپن میں بُننے والے سپنوں کے حقیقت بننے کا سلسلہ شادی کے بعد ایک نئی جہت سے روشناس ہوتا ہے۔

دوسری طرف یہ ان کے مزاج اور طبیعت کی پرکھ بھی ہوتی ہے۔ لڑکیاں شادی شدہ زندگی میں اپنی مختلف خواہشات کی تکمیل چاہتی ہیں۔ جس کے لیے اکثر کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ان کا شوہر ان کی گرفت میں رہے اور بس ان کے کہے پر چلتا رہے۔ شوہر کی تن خواہ سے لے کر گھر کے سارے معاملات پر اس ہی کا اختیار چلے اور اس کے کہے کو ٹالا نہ جا سکے۔

اس تمام سلسلے کے لیے میکے جانے، روٹھنے اور موڈ خراب کرنے کا طریقے اختیار کیا جاتے ہیں۔ ان چیزوں کو مرد کی کم زوری بنا کر اپنی بات منوانے میں کام یابی حاصل کر لی جاتی ہے۔ ساتھ ہی سسرال میں اپنی غلطی کبھی تسلیم نہ کرنے کو بھی بہت ''کام یاب'' گُر سمجھا جاتا ہے کہ حقیقت میں کوئی کمی بھی موجود ہو مگر دوسروں کے سامنے ہمیشہ خود کو اعلا اور لائق ثابت کرو۔ بقول ان کے غلطی تسلیم کرنے سے شوہر کی نظر میں بیوی کا مقام گر جاتا ہے اس لیے ہمیشہ دوسروں پر ہی الزام تراشی کی جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ ہم ہی صحیح ہیں۔

ایسا کرنے والی خواتین خود کو گھر کی ''ملکہ'' تصور کر رہی ہوتی ہیں، مگر کیا انہوں نے کبھی اس بات کا جائزہ لیا کہ میاں بیوی تو ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ حقیقتاً یہ دونوں ایک دوسرے کے شریک سفر اور دائمی ساتھی ہیں۔ اگر ان دونوں کا ساتھ ایک رفیق کے بجائے صرف ''نبھاؤ'' کی حد تک رہ جائے تو پھر اس رشتے کی روح سِرے سے ہی فوت ہو جاتی ہے، یہ کسی بھی طرح خوش گوار ازدواجی زندگی نہیں کہی جا سکتی کہ ایک دوسرے پر جبر کیا جائے۔ ایک چھت کے نیچے رہنے والوں کی یہ سرد جنگ خاندان میں کبھی بھی نیک شگون نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی اس طرح کی صورت حال سے بعض اوقات دوسری جانب سے ضبط کا بندھن جب ٹوٹتا ہے تو پھر یہ ایک طوفانی ریلے کی صورت اس خاندان کو ہی بہا لے جاتا ہے اور نتیجہ پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کیا ایسی ہی زندگی ہوتی ہے ایک گھر کی ''ملکہ'' کی؟ کہ جس کی خود ساختہ ''سلطنت'' ایک دن اس کے اس ہی رویے کی بنا پر اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھن جائے۔

حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ایسی خاتون ملکہ کہلانے کی قطعی مستحق ہی نہیں۔ اس کا یہ دعوا تو تب مانا جاتا جب وہ دل کی راج دھانی اپنے سرتاج کو سونپ کر اسے بادشاہ بناتی۔ جو عورت شوہر کو اپنے اشاروں پہ نچاتی ہو۔ جس کی نظر میں اس کی حیثیت صرف پیسہ کمانے والی ایک مشین کی سی ہو اور اس کے سوا اس کی کوئی وقعت نہ ہو۔ یہ سب حیثیت تو ایک غلام کی طرح ہیں اور جو عورت اپنے شوہر کو غلام سمجھتی ہو تو وہ بھی غلام کی ہی بیوی کہلائے گی جو کہ ملکہ تو کبھی نہیں ہو سکتی۔ یہاں اس بات کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ شوہر اپنی نصف بہتر سے تعلقات کو بس اپنی برتری تلے ہی دبائے اس کے حقوق غصب کیے جائیں۔ یہ رشتہ کسی بھی جانب سے زیادتی کا متحمل نہیں۔

کسی نئے گھر کو اپنا بنانے سے پہلے اس گھر میں بسنے والوں کے دلوں میں بَسنا پڑتا ہے، جو بہو کسی کے گھر میں بس جانے کا ہنر جانتی ہو، درحقیقت ایسی بہو ہی گھر کی ملکہ کہلاتی ہے اور بجا طور پر گھر پر راج کرتی ہے۔ دلوں کو جیتنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں، بس نیک نیتی اور خلوص کی ضرورت ہے، جس کا نتیجہ جلد یا بدیر ضرور نکلتا ہے۔ اگر ہر رشتے میں پیار بانٹا جائے تو بدلے میں بھی ضرور پیار ملتا ہے، لیکن اگر کوئی انا میں اس قدر مبتلا ہو کہ اسے اپنے علاوہ کوئی نظر نہ آئے تو ایسی عورت کسی بھی رشتے کو نبھانے میں کام یاب نہیں ہو سکتی، کیوں کہ رشتے ہمیشہ قربانی مانگتے ہیں، جو مغرور لوگوں کا شیوہ ہو ہی نہیں سکتا۔ غرور میں مبتلا لوگ تو کسی کے لیے اپنا طرز زندگی تبدیل نہیں کرتے اور ساری زندگی جھوٹی انا کے خول میں رہ کر بناوٹی مسکان ہونٹوں پر سجا کر اپنے آپ کو دنیا کا کام یاب انسان ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس طرح کے طرز عمل سے وہ شاید اپنی وقتی اور دنیاوی خواہشات تو پوری کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے حقیقی لطف سے بہت دور رہ جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |