داستانیں آدمی اور جانور
ابھی پچھلے کالم میں ہم لٹریچر فیسٹیول کا احوال بیان کر رہے تھے۔ اس بیان میں اہل سخا کی سخاوت کا اور اپنی کو...
ابھی پچھلے کالم میں ہم لٹریچر فیسٹیول کا احوال بیان کر رہے تھے۔ اس بیان میں اہل سخا کی سخاوت کا اور اپنی کوتاہ دامنی کا ذکر بھی ضمناً آیا۔ مگر کوتاہ دامنی کے باوجود ہم ہر فیسٹیول سے کتنے مالا مال ہو کر واپس ہو گئے ہیں۔ ہم نے پچھلے دنوں جب پلٹ کر کتابوں کے ان پلندوں پر نظر ڈالی جو ہم سمجھ لو کہ کمر پر لاد کر لائے تھے تو حیران رہ گئے۔ ارے اتنی کتابیں۔
ان دو آنکھوں سے ہم کتنا کچھ پڑھ پائیں گے اور اس پر مستزاد وہ کتابیں جو ڈاک سے موصول ہوئی تھیں۔ یا رب جب تو نے یاروں کو اتنا زور قلم بخشا تھا تو اسی تناسب سے ہمیں پڑھنے والی آنکھیں بھی عطا کی ہوتیں اور ان دو آنکھوں سے خالی پڑھنا ہی تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ اس گلزار ہست و بود میں دیکھنے کے لیے کتنا کچھ ہے۔ ایک شاعر کا شعر سن لیجیے
کاشۂ چشم لے کر جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
تو دیدار کی گدائی بھی کرنی ہوتی ہے۔ پھر دیدار کی گدائی ترک کر کے دیدۂ عبرت بھی بننا ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ۔ اتنے کام اور دو آنکھیں بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے۔
ہم اپنے اس انبار کو ٹٹول رہے تھے کہ جس حد تک بن پڑے اس قیمتی ذخیرے کے ساتھ انصاف کریں۔ ایک کتاب نظر آئی۔ داستانیں اور حیوانات، ہم متجسس ہوئے کہ ایں چہ می بینم کہ داستان انسان کی ایجاد ہے۔ حیوانات بیچ میں کہاں سے کود پڑے۔ کھول کر دیکھا ارے یہ تو اچھا بھلا تحقیقی کام ہے۔ محقق ہیں سعید احمد۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہیں ان کے اگلے پچھلے کام پر نظر دوڑائی۔ ارے یہ تو ہیں ہی تحقیق کے جانور۔ چرتے چگتے اردو داستانوں کی طرف آ نکلے ہیں۔ تحقیق کے لیے کیا موضوع چنا ہے۔ 'اردو داستانوں میں حیوانات کی علامتی حیثیت'۔
ہم نے سوچا کہ ہماری شعر و شاعری میں قصہ کہانیوں میں ابن آدم کا بہت ذکر ہوا۔ یہ کبھی دھیان میں نہیں آیا کہ اس روئے زمین پر ابن آدم کے سوا بھی تو مخلوقات شاد آباد چلی آتی ہیں۔ جہاں آدمی ہوں گے وہاں جانور بھی ہوں گے بلکہ خود آدمی بھی تو اچھی بھلی آدمیت سے کنارہ کر کے جانور بن جاتے ہیں، مگر اس محقق کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ اول اول آدمیوں اور جانوروں میں انیس بیس ہی کا فرق تھا اور اس عہد قدیم میں ایسے ایسے جانور تھے کہ آدمی انھیں دیکھ کر کبھی متحیر ہوتا، کبھی خوف زدہ، کبھی عقیدت سے ان کے سامنے سر جھکا دیتا۔ وہ جو دیومالائوں میں مقدس جانور نظر آتے ہیں اور جو وقتاً فوقتاً دیوتائوں کا روپ بھی دھار لیتے ہیں وہ اسی عقیدت بھری نظروں کا کرشمہ ہیں۔
خیر تو جب کہانی وجود میں آئی تو اول اول تو ان کہانیوں میں جانوروں ہی کا بول بالا نظر آتا تھا۔ آدمی تو بعد میں کہانیوں کا موضوع بنا ہے۔
اس محقق نے قدیم ادب پر نظر دوڑائی ہے۔ کتنے شاہکار ایسے ہیں کہ کہانیاں جانوروں کی۔ درپردہ انسان کی کہانی بھی بیان ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین کے حوالے سے اس نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ جانوروں کی کہانیاں سب سے پہلے مصری تہذیب کے زیر اثر نمودار ہوئیں۔ وہاں سے یہ کہانیاں مغربی ایشیا اور بابل میں گئیں جہاں وہ ایسپ کی کہانیوں کے طور پر مشہور ہوئیں۔ اردو میں ایسپ کی کہانیاں حکایاتِ لقمان کے طور پر جانی گئیں۔
اور پھر قدیم ہندوستان میں جانوروں کی کہانیاں۔ اور ان کہانیوں کے ایک مجموعہ نے تو ملک ملک پھیل کر عالمی شہرت حاصل کر لی۔ اس مجموعہ کا نام ہے۔ پنچ تنتر۔ سعید احمد نے جابجا کلیہ دمنہ کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ یہ اپنے طور پر کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے۔ اصل میں تو یہ پنچ تنتر کا ایک حصہ ہے۔ اور پنچ تنتر کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں محققوں نے قیاس کے گھوڑے زیادہ دوڑائے ہیں۔ تحقیق بہت ہوئی ہے مگر یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ حتیٰ کہ جس شخص وشنو شرما سے یہ کہانیاں منسوب ہیں اس کا معاملہ بھی مشکوک ہے۔ مگر مقبولیت میں اس کتاب کا مقابلہ مشکل ہی سے کوئی ایسا دوسرا مجموعہ کر سکتا ہے۔ یہ کہانیاں سنسکرت سے قدیم فارسی میں منتقل ہوئیں۔ وہاں سے عربی میں، عربی سے جدید فارسی زبان میں، فارسی سے اردو میں۔ اس عمل میں اس کی ہند قدیم کی تہذیب کی خوشبو غائب ہو گئی اور عربی فارسی رنگ میں اس طرح رنگی گئی کہ کرداروں کے نام بھی کچھ سے کچھ ہو گئے۔
خیر یہ بحث لمبی ہے۔ یہاں زیر بحث سعید احمد کی کتاب ہے۔ اس میں ایک قیمتی باب وہ ہے جہاں فورٹ ولیم کالج اور وہاں ہونے والے کام کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ہمارے کتنے مصنفین تو اسی بحث میں الجھ کر رہ گئے کہ اس ادارے کے قیام میں کون سے سامراجی مقاصد کارفرما تھے۔ ان میں ایک مقصد یہ بھی دریافت کیا گیا کہ اردو کے پہلو بہ پہلو ہندی کو بھی فروغ دے کر ہندی اردو کا تفرقہ ڈال دیا جائے۔
سامراجی اغراض و مقاصد جو اس ادارے سے صحیح یا غلط منسوب ہیں وہ اپنی جگہ لیکن یہاں اردو پر جو کام ہوا ہے اس کی اہمیت و معنویت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ سعید احمد نے صحیح لکھا ہے کہ '' اس کالج سے اردو نثر کی باضابطہ تاریخ شروع ہوتی ہے۔ کالج کے قیام سے اردو زبان کی اشاعت و توسیع کی رفتار میں بھی تیزی آئی اور اس کے نثری ادب کی ترقی کے لیے بھی نئی راہیں کھلیں۔''
صحیح کہا۔ اس وقت ہمارے لیے داستانی روایت کی تجدید داستان امیر حمزہ اور خاص طور پر اس کے جزو طلسم ہوش ربا پر تنقید و تحقیق اور انگریزی ترجموں سے عبارت بن کر رہ گئی ہے۔ سعید احمد نے داستانوں پر جو کام اس کالج میں ہوا ہے اس کا جائزہ لیا ہے۔ کس طرح پرانی داستانوں کو نئے پیکر میں ڈھالا گیا اور بیان کے لیے سیدھی سچی اردو پر زور دیا گیا۔ یہاں سے اس نئی اردو کا آغاز ہوتا ہے جو آگے چل کر اردو ناولوں اور مختصر افسانوں میں پروان چڑھی۔
مجموعی طور پر یہ ایک قابل قدر تحقیقی کام ہے۔ درسی انداز میں جو تحقیقی مقالے ہمارے یہاں لکھے جاتے ہیں ان سے ہٹ کر سعید احمد نے سنجیدگی سے تحقیق کی ہے اور کہاں کہاں سے سرے ملا کر ایک ایسا تحقیقی کام کیا ہے جو اردو کے تحقیقی ادب میں ایک اضافہ شمار کیا جا سکتا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان نے یہ کتاب شایع کی ہے۔
ان دو آنکھوں سے ہم کتنا کچھ پڑھ پائیں گے اور اس پر مستزاد وہ کتابیں جو ڈاک سے موصول ہوئی تھیں۔ یا رب جب تو نے یاروں کو اتنا زور قلم بخشا تھا تو اسی تناسب سے ہمیں پڑھنے والی آنکھیں بھی عطا کی ہوتیں اور ان دو آنکھوں سے خالی پڑھنا ہی تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ اس گلزار ہست و بود میں دیکھنے کے لیے کتنا کچھ ہے۔ ایک شاعر کا شعر سن لیجیے
کاشۂ چشم لے کر جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
تو دیدار کی گدائی بھی کرنی ہوتی ہے۔ پھر دیدار کی گدائی ترک کر کے دیدۂ عبرت بھی بننا ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ۔ اتنے کام اور دو آنکھیں بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے۔
ہم اپنے اس انبار کو ٹٹول رہے تھے کہ جس حد تک بن پڑے اس قیمتی ذخیرے کے ساتھ انصاف کریں۔ ایک کتاب نظر آئی۔ داستانیں اور حیوانات، ہم متجسس ہوئے کہ ایں چہ می بینم کہ داستان انسان کی ایجاد ہے۔ حیوانات بیچ میں کہاں سے کود پڑے۔ کھول کر دیکھا ارے یہ تو اچھا بھلا تحقیقی کام ہے۔ محقق ہیں سعید احمد۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہیں ان کے اگلے پچھلے کام پر نظر دوڑائی۔ ارے یہ تو ہیں ہی تحقیق کے جانور۔ چرتے چگتے اردو داستانوں کی طرف آ نکلے ہیں۔ تحقیق کے لیے کیا موضوع چنا ہے۔ 'اردو داستانوں میں حیوانات کی علامتی حیثیت'۔
ہم نے سوچا کہ ہماری شعر و شاعری میں قصہ کہانیوں میں ابن آدم کا بہت ذکر ہوا۔ یہ کبھی دھیان میں نہیں آیا کہ اس روئے زمین پر ابن آدم کے سوا بھی تو مخلوقات شاد آباد چلی آتی ہیں۔ جہاں آدمی ہوں گے وہاں جانور بھی ہوں گے بلکہ خود آدمی بھی تو اچھی بھلی آدمیت سے کنارہ کر کے جانور بن جاتے ہیں، مگر اس محقق کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ اول اول آدمیوں اور جانوروں میں انیس بیس ہی کا فرق تھا اور اس عہد قدیم میں ایسے ایسے جانور تھے کہ آدمی انھیں دیکھ کر کبھی متحیر ہوتا، کبھی خوف زدہ، کبھی عقیدت سے ان کے سامنے سر جھکا دیتا۔ وہ جو دیومالائوں میں مقدس جانور نظر آتے ہیں اور جو وقتاً فوقتاً دیوتائوں کا روپ بھی دھار لیتے ہیں وہ اسی عقیدت بھری نظروں کا کرشمہ ہیں۔
خیر تو جب کہانی وجود میں آئی تو اول اول تو ان کہانیوں میں جانوروں ہی کا بول بالا نظر آتا تھا۔ آدمی تو بعد میں کہانیوں کا موضوع بنا ہے۔
اس محقق نے قدیم ادب پر نظر دوڑائی ہے۔ کتنے شاہکار ایسے ہیں کہ کہانیاں جانوروں کی۔ درپردہ انسان کی کہانی بھی بیان ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین کے حوالے سے اس نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ جانوروں کی کہانیاں سب سے پہلے مصری تہذیب کے زیر اثر نمودار ہوئیں۔ وہاں سے یہ کہانیاں مغربی ایشیا اور بابل میں گئیں جہاں وہ ایسپ کی کہانیوں کے طور پر مشہور ہوئیں۔ اردو میں ایسپ کی کہانیاں حکایاتِ لقمان کے طور پر جانی گئیں۔
اور پھر قدیم ہندوستان میں جانوروں کی کہانیاں۔ اور ان کہانیوں کے ایک مجموعہ نے تو ملک ملک پھیل کر عالمی شہرت حاصل کر لی۔ اس مجموعہ کا نام ہے۔ پنچ تنتر۔ سعید احمد نے جابجا کلیہ دمنہ کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ یہ اپنے طور پر کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے۔ اصل میں تو یہ پنچ تنتر کا ایک حصہ ہے۔ اور پنچ تنتر کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں محققوں نے قیاس کے گھوڑے زیادہ دوڑائے ہیں۔ تحقیق بہت ہوئی ہے مگر یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ حتیٰ کہ جس شخص وشنو شرما سے یہ کہانیاں منسوب ہیں اس کا معاملہ بھی مشکوک ہے۔ مگر مقبولیت میں اس کتاب کا مقابلہ مشکل ہی سے کوئی ایسا دوسرا مجموعہ کر سکتا ہے۔ یہ کہانیاں سنسکرت سے قدیم فارسی میں منتقل ہوئیں۔ وہاں سے عربی میں، عربی سے جدید فارسی زبان میں، فارسی سے اردو میں۔ اس عمل میں اس کی ہند قدیم کی تہذیب کی خوشبو غائب ہو گئی اور عربی فارسی رنگ میں اس طرح رنگی گئی کہ کرداروں کے نام بھی کچھ سے کچھ ہو گئے۔
خیر یہ بحث لمبی ہے۔ یہاں زیر بحث سعید احمد کی کتاب ہے۔ اس میں ایک قیمتی باب وہ ہے جہاں فورٹ ولیم کالج اور وہاں ہونے والے کام کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ہمارے کتنے مصنفین تو اسی بحث میں الجھ کر رہ گئے کہ اس ادارے کے قیام میں کون سے سامراجی مقاصد کارفرما تھے۔ ان میں ایک مقصد یہ بھی دریافت کیا گیا کہ اردو کے پہلو بہ پہلو ہندی کو بھی فروغ دے کر ہندی اردو کا تفرقہ ڈال دیا جائے۔
سامراجی اغراض و مقاصد جو اس ادارے سے صحیح یا غلط منسوب ہیں وہ اپنی جگہ لیکن یہاں اردو پر جو کام ہوا ہے اس کی اہمیت و معنویت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ سعید احمد نے صحیح لکھا ہے کہ '' اس کالج سے اردو نثر کی باضابطہ تاریخ شروع ہوتی ہے۔ کالج کے قیام سے اردو زبان کی اشاعت و توسیع کی رفتار میں بھی تیزی آئی اور اس کے نثری ادب کی ترقی کے لیے بھی نئی راہیں کھلیں۔''
صحیح کہا۔ اس وقت ہمارے لیے داستانی روایت کی تجدید داستان امیر حمزہ اور خاص طور پر اس کے جزو طلسم ہوش ربا پر تنقید و تحقیق اور انگریزی ترجموں سے عبارت بن کر رہ گئی ہے۔ سعید احمد نے داستانوں پر جو کام اس کالج میں ہوا ہے اس کا جائزہ لیا ہے۔ کس طرح پرانی داستانوں کو نئے پیکر میں ڈھالا گیا اور بیان کے لیے سیدھی سچی اردو پر زور دیا گیا۔ یہاں سے اس نئی اردو کا آغاز ہوتا ہے جو آگے چل کر اردو ناولوں اور مختصر افسانوں میں پروان چڑھی۔
مجموعی طور پر یہ ایک قابل قدر تحقیقی کام ہے۔ درسی انداز میں جو تحقیقی مقالے ہمارے یہاں لکھے جاتے ہیں ان سے ہٹ کر سعید احمد نے سنجیدگی سے تحقیق کی ہے اور کہاں کہاں سے سرے ملا کر ایک ایسا تحقیقی کام کیا ہے جو اردو کے تحقیقی ادب میں ایک اضافہ شمار کیا جا سکتا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان نے یہ کتاب شایع کی ہے۔