حالات کس نہج پر جارہے ہیں

جس روز یہ اظہاریہ شایع ہوگا، خدشہ ہے کہ شاید کراچی کے حالات خاصے ناگفتہ بہ ہوچکے ہوں۔


Muqtida Mansoor May 19, 2013
[email protected]

PALLEKELE: جس روز یہ اظہاریہ شایع ہوگا، خدشہ ہے کہ شاید کراچی کے حالات خاصے ناگفتہ بہ ہوچکے ہوں۔ کیونکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق250 NA کے 43 پولنگ ا اسٹیشنوں پر 19 مئی کو ہونے والے انتخاب کامتحدہ قومی موومنٹ نے بائیکاٹ کردیا ہے۔ تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتیں کراچی اورحیدرآباد میں پہلے ہی دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کررہی ہیں۔یوں شہرمیں پہلے سے موجود تصادم کی فضاء میں مزید اضافہ ناگزیرنظر آرہا ہے۔ معاملہ صرف کراچی تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں 11مئی کوہونے والے انتخابات کی شفافیت پرمختلف نوعیت کے اعتراضات اٹھائے جارہے ہیںاورملک کے مختلف حلقوں میں ہونے والی دھاندلی پرسبھی سیاسی جماعتیں اپنااحتجاج ریکارڈ کرارہی ہیں۔یہ صورتحال سیاسی منظرنامے میں پیداتنائو میںمزید اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔

اگرحالیہ انتخابات کا حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لیا جائے تو کراچی سے خیبر تک سیاسی جماعتوں کو جو مینڈیٹ ملا ہے، وہ انیس وبیس کے فرق سے وہی ہے جس کاانتخابات سے قبل اندازہ لگایا جارہا تھا۔ دھاندلی کے چند واقعات نہ بھی ہوتے توسیاسی جماعتوں کی موجودہ پوزیشن میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیںتھی۔مگر بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کو نزاعی شکل دینے میں ان ٹیلی ویژن اینکروں کا بہت بڑاہاتھ ہے، جن کابعض علاقوں اور چند سیاسی جماعتوںکے بارے میں بغضِ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان کے اس روئیے کی وجہ سے معاشرے میں بعض حساس نوعیت کے تضادات تیزی کے ساتھ ابھرے ہیں،جو امکانی طورپر کسی بڑے نقصان پر منتج ہوسکتے ہیں۔مگر انجامِ کار سے بے نیاز یہ عناصر اپنی دکان چمکانے میں مصروف ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ اس وقت تقریباً سبھی سیاسی جماعتیں کراچی سے پشاور تک مختلف حلقوں میں دھاندلی کے جو الزامات عائد کرتے ہوئے احتجاج پر آمادہ ہیں۔جن میں تحریکِ انصاف سب سے آگے ہے۔ مگر اکثریت حاصل کرنے والی مسلم لیگ(ن) بھی سندھ میںمسلم لیگ (ف) کے ساتھ احتجاج میں شریک ہے۔ اس طرح کبھی کبھی یہ محسوس ہورہاہے، جیسے 1977 والا ماحول واپس آرہاہے۔اس صورتحال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انتخابی عمل میں رہ جانے والی خامیوں، کمزوریوں اورخرابیوں کا تیکنیکی بنیادوں پر جائزہ لینے کے بجائے انھیں سیاست مفادات کے حصول کا ذریعہ بنادیاگیاہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پاکستان کے انتخابی نظام میں جو سقم پائے جاتے ہیں،اس کی وجہ سے دھاندلی ایک قسم کے سیاسی کلچرکی شکل اختیار کرچکی ہے۔انتخابی دھاندلیاںکئی اقسام کی ہوتی ہیںاور اس کے کئی طریقہ اور اندازاب تک سامنے آچکے ہیں۔ جن میںخاص طورپر قبل از انتخاب، انتخاب کے روز اور بعد از انتخاب دھاندلیاںشامل ہوتی ہیں۔

قبل از انتخاب دھاندلیوں میںووٹرلسٹوں کی تیاری کے وقت بعض ووٹروں کے ناموں کا غلط اندراج، ناموں کی بلاجواز تنسیخ اوراضافہ شامل ہے۔اس کے علاوہ انتخابی حلقوں کی غیر فطری تشکیل بھی اسی کیٹیگری میں آتی ہے۔ انتخابات کے روز ہونے والی دھاندلیاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔اول، کسی مخصوص حلقے میں طاقتور بااثر امیدوارکا مخالف امیدوار کے پولنگ ایجنٹوںکو پولنگ اسٹیشن سے زبردستی بے دخل کرنا،اسلحے کے زور پرمخالف امیدوار کے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے زبردستی روک کرجعلی ووٹ بھگتانا شامل ہیں۔اس کے علاوہ انتخابی عملہ جو زیادہ تر مقامی کالجوں اور اسکولوں کے اساتذہ پر مشتمل ہوتا ہے، اپنی عزت وآبرو اور جان و مال کے تحفظ کی خاطر بااثر امیدواروں کے ناجائز مطالبات کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دوئم، ادارہ جاتی بنیادوں پرہونے والی دھاندلیاں، جن میں الیکشن کمیشن اور انتظامیہ سمیت مختلف ریاستی ادارے شامل ہوتے ہیں،ان کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔اس قسم کی دھاندلیاں بہت منظم اور خاص مقاصد کے لیے کی جاتی ہیں۔ ایوب خان کا مادر ملت کے خلاف صدارتی انتخاب، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم اس کی واضح مثالیں ہیں۔

اب جہاں تک تعلق ہے کہ قبل از وقت دھاندلیوں کا تعلق ہے،تو اس مرتبہ ووٹرلسٹوں کی درستی کے ذریعے اس پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔لیکن ان انتخابات میں قبل از وقت دھاندلی کا ایک نیامظہر سامنے آیا،جو دہشت گرد عناصر کی جانب سے تین سیاسی جماعتوں کوبم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے انتخابی مہم سے دور رکھنے کے لیے کیے گئے۔اس کے علاوہ نامزدگی فارموں کی وصولی کے دوران بھی انتہائی مضحکہ خیز مناظر دیکھنے میں آئے، جنھیں بعض حلقوں نے قبل از وقت دھاندلی قراردیا۔اسی طرح الیکشن کمیشن کی تشکیل پربھی مختلف متوشش حلقوں کی جانب سے شدید نوعیت کے اعتراجات بھی اٹھائے گئے تھے۔ لیکن سیاسی جماعتیں انتخابات کے غیر معینہ مدت کے لیے التواء سے بچنے کی خاطر ان تمام خرابیوں سے صرفِ نظرکرتے ہوئے انتخابی عمل کے بروقت انعقاد کی خواہشمند تھیں۔اسی طرح وفاق سمیت چاروں صوبوں میں متفقہ نگراں حکومتوں کے قیام میں بھی تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے بعض اعتراضات کے باوجود تعاون کیا۔

نامزدگی فارم جمع کرانے کے مرحلے پر جو مسائل سامنے آئے،ان کودیکھتے ہوئے اندازہ ہورہاتھا کہ الیکشن کمیشن اپنی بعض کمزوریوں کے سبب الیکشن کے دن ہونے والی روایتی دھاندلیوںکو روکنے میں ناکام رہے گا۔حالانکہ NADRA سے ووٹروں کی تصویروالی فہرستیں بھی حاصل کرلی گئی تھیں۔اس صورتحال میں انتخابات کے روز پیدا ہونے والے مسائل سے الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کی انتظامی نااہلی ثابت ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن عملے کی تقرری اور اس کی مناسب تربیت کے علاوہ انتخابی سامان کی پولنگ اسٹیشنوں تک بروقت ترسیل میںبھی ناکام رہا۔جب کہ نگراں حکومت انتخابات کے دن امن وامان برقرار رکھنے میں ناکامی کاشکار ہوئی۔اس صورتحال کا فائدہ طاقتور امیدواروں نے اٹھایا اور انھوں نے حسب روایت پولنگ اسٹیشنوں پر من مانیاں کیں۔

میں نے الیکشن کے دن اپناووٹ ڈالنے کے بعدشہر کے مختلف حلقوں کے 14پولنگ اسٹیشنوں کادورہ کیا۔ اس دوران مجھے مختلف نوعیت کی تیکنیکی خامیاں نظر آئیں،لیکن وہ دھاندلی جس کا زور شور سے ذکر ہورہاہے، دیکھنے میں نہیں آئی۔میں نے جو کچھ دیکھا وہ کچھ اس طرح تھا۔اول، NA258کے جس پولنگ اسٹیشن پر ہمارا ووٹ تھا، وہاں عملہ ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچا۔یہ شکایت تقریباًہرپولنگ اسٹیشن پر سننے کو ملی۔دوئم، کئی پولنگ اسٹیشنوںپریزئڈنگ افسر گریڈ17 سے نیچے درجے سے اہلکار تھے، جن میں انتظامی اہلیت کی بھی کمی تھی۔حالانکہ پریزائڈنگ افسر کے لیے گزیٹیڈ افسر ہونالازمی شرط ہے۔سوئم،جن پولنگ اسٹیشنوں کا میں نے دورہ کیا ان میں سے بیشتر کے عملے کی تربیت نہیں کی گئی تھی،جس کی وجہ سے انھیں صحیح(Valid)، ردکردہ (Cancelled)، چیلنج (Challenged) اور ٹینڈر(Tender) ووٹ کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اسی طرح انھیں مختلف فارموں خاص طورپر فارم نمبر14،جس پر نتائج ترتیب دیے جاتے ہیں۔چہارم،کئی پولنگ اسٹیشنوں پر عملہ نے بتایا کہ انھیں مکمل سامان بھی مہیا نہیں کیا گیا۔رات نو بجے کے قریب ایک سیاسی جماعت کے پولنگ ایجنٹ نے جو نتیجہ دکھایا ، وہ سادہ کاغذپر تحریر کردہ تھا،جو کہ انتخابی قواعدوضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔پنجم،اکثر پولنگ اسٹیشنوںپرپولیس اور رینجرز محض نمائشی طورپرتعینات نظر آئی۔

اس صورتحال کے تناظر میںاب دو اہم دو تجاویزسامنے آئی ہیں ۔ایک تجویزFAFEN کی جانب سے آئی ہے، جو خاصی منطقی ہے۔اس لیے اس تجویز کی وضاحت ضروری ہے۔پریزائیڈنگ افسر کو جو سامان مہیا کیا جاتا ہے اس میںایک فارم14 ہوتا ہے۔ووٹوں کی گنتی کے بعد پریزائیڈنگ افسر فارم14پرہر امیدوار کے ووٹ الگ الگ تحریر کرنے کے بعد چیلنج ووٹ، ٹینڈر ووٹ اور رد کردہ ووٹ کی تفصیلات بھی تحریر کرتا ہے۔اس فارم کی چار دفتری کاپیاں بنائی جاتی ہیں، جب کہ ہر امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کو بھی ایک ایک کاپی دی جاتی ہے۔ایک کاپی پولنگ اسٹیشن پر چسپاں کی جاتی ہے۔جو چار کاپیاں وہ تیار کرتا ہے، ان میں سے ایک فارم وہ ووٹوں کے سیل بند لفافوں کے ساتھ اسی شام ریٹرننگ افسر کو دینے کا پابند ہوتاہے۔

جس کی بنیاد پر اس حلقے کے نتائج تیار(Compile) ہوتے ہیں۔ فارم کی ایک کاپی اگلی صبح وفاقی الیکشن کمیشن اور دوسری صوبائی الیکشن کمیشن کو بھیجنا ہوتی ہے۔ جب کہ ایک کاپی اپنے پاس رکھتا ہے،تاکہ ٹربیونل میں پیشی کی صورت میں پیش کرسکے۔لہٰذا FAFEN کایہ مطالبہ خاصا جاندار ہے کہ اگر الیکشن کمیشن اس فارم کو شایع کردے تو ریٹرننگ افسران کی سطح پر تبدیل ہونے والے نتائج کا بھانڈا پھوٹ سکتاہے۔اب رہ گیا معاملہ انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کا، تو اس سے صرف یہ تو اندازہ ہوسکے گا کہ کتنے جعلی ووٹ بھگتائے گئے۔لیکن کس جماعت کے حق میںکتنے ووٹ ڈالے گئے،اس کا اندازہ نہیں ہوسکے گا۔

موجودہ حالات بتارہے ہیں کہ ملک ایک بار پھر 1977ء کی طرف گامزن ہے اور سیاسی عمل تیزی کے ساتھ تصادم کی طرف بڑھ رہاہے،جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اگر یہ صورتحال اسی طرح تسلسل کے ساتھ جاری رہتی ہے ،تو آنے والا وقت مزید پیچیدہ ہوسکتا ہے، جو نئے حکمرانوں کے لیے ایک بڑے چیلنج بن جائے گا۔ اس لیے تمام شراکت داروں کو اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ دیکھیں کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں اور ان سے کیسے نکلاجاسکتاہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں