خواب گر
تاج پورہ قبرستان میں یہ وقت ِ زوال تھا ۔شاہ صاحب کا جسد ِخاکی نماز ِجنازہ کے بعد یہاں اُن کی لحد کےپاس رکھ دیاگیاتھا۔
تاج پورہ قبرستان میں یہ وقت ِ زوال تھا ۔شاہ صاحب کا جسد ِخاکی نماز ِجنازہ کے بعد یہاں اُن کی لحد کے پاس رکھ دیا گیا تھا۔ اردو صحافت کا ایک پورا عہد پیوند ِخاک ہو رہا تھا ۔ گزشتہ ایک برس میں تین اقربا کی اموات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ پہلے بڑی ہمشیرہ سرطان کے ہاتھوں جان ہار گئیں ۔ اُن کی جوانمرگی کا زخم تازہ ہی تھا کہ ماموں انتقال کر گئے۔ چند دن بعد بڑے بہنوئی عین ِجوانی میں داغ ِ مفارقت دے گئے ۔لحد کنارے ایکاایکی وہ تمام چہرے آنکھوں میںآنسو بن کرجھلملا گئے، جنھیں پچھلے ایک برس میں آغوش لحد میں اُتار ا تھا۔
''کلمہ ء شہادت ۔۔۔۔ 'ورد شروع ہو گیا تھا۔ شاہ صاحب کا جسد ِخاکی لحد میںاُتار ا جارہا تھا ۔ سعید اظہر صاحب کی آواز گلوگیر ہوگئی تھی ،' اچھا عباس یار،اللہ دے حوالے ۔' مجھے یاد آ رہا تھا کہ ایک بار بسلسلہ پروگرام' کالم کار' ، شاہ صاحب اور میں کہیں جار ہے تھے ۔ دوران ِسفر گاڑی میںکوئی بات ہو رہی تھی ۔ شاہ صاحب نے کہا ، '' اب میں نے آگے کہیں نہیں جانا ، روزنامہ' ایکسپریس' میرے اخباری سفر کا آخری اسٹیشن ہے۔'' مسافر نے اپناعہد نبھایا، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ مسافر آخری اسٹیشن پر اس طرح اُترے گا کہ اُترتے ہی ایک نئے سفر پر روانہ ہوجائے گا ۔ تدفین کا عمل مکمل ہوگیاتھا۔سورج غروب ہوچکا تھا،اور اندھیر ا چھا رہا تھا ۔میں نے مٹھی بھر مٹی لی۔ شاہ صاحب کی قبر پر ڈالی۔ ساحر لدھیانوی کا یہ قطعہ یاد آیا،
عزتیں ، شہرتیں ، چاہتیں ، اُلفتیں
کوئی بھی چیز دنیا میں رہتی نہیں
آج میں ہو ں جہا ں کل کوئی اور تھا
یہ بھی اک دور ہے ، وہ بھی اک دور ہے
شاہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 'نوائے وقت ' کے دفتر میں ہوئی تھی ۔شاہ صاحب ڈپٹی ایڈیٹر 'نوائے وقت' مقرر کیے گئے ، اور میں ہفت روزہ'' ندائے ملت'' کے اجرا پر مامور ہوا تھا ۔انھی دنوں شاہ صاحب کا کالم ' کنکریاں ' شروع ہوا تھا۔ ایک مرتبہ شاہ صاحب نے بتایا کہ کس طرح انھوں نے اصرار کرکے کالم لکھنا شروع کیا تھا۔ 'مجید نظامی صاحب نے کہا ، اس طرح آپ نیوز روم پر پوری توجہ نہیں دے سکیں گے۔ لیکن، میں چونکہ ' خبریں' میں مستقل کالم لکھ رہا تھا اور مجھ کو کالم نگاری کی 'چاٹ' لگ چکی تھی ، میں نے کہا ، آپ فکر نہ کریں ، نیوز روم کا ہرج نہیں ہوگا ۔'کنکریاں' میں ادب اورصحافت دونوں کا ذائقہ تو تھا ہی ، لیکن اُس کی انفرادیت یہ تھی کہ اُس کا ہر جملہ میں ایک لطیف اور گہرا طنز چھُپا ہوتا تھا ۔
شاہ صاحب سے میرا تعلق برخورداری کا او ر شاگردی کا تھا۔ نظریاتی بُعد کے باعث اس میں تکلف کا رنگ بھی تھا ۔تاہم شاہ صاحب کی شفقت ِبے پایاں میں کبھی فرق محسوس نہیں کیا تھا۔ 'نوائے وقت بلڈنگ' میں ، اُن کا کمرہ تیسرے فلور پر تھا۔میرا کمرہ ، جب تک 'ندائے ملت' کا ایڈیٹر رہا ، پانچویں فلور پر، اورجب 'سنڈے میگزین' کا ایڈیٹر مقرر ہوا تو دوسرے فلو رپر تھا ۔ کمپوزنگ روم ،چونکہ نیوزروم اور میگزین کا مشترکہ تھا، لہٰذا کوریڈور میں ،یا سیڑھیوں پر اکثر شاہ صاحب سے ملاقات ہو جاتی تھی ۔ باغ ِ جناح میں سر ِ شام واک اُن کا معمول تھی۔ ٹریک سوٹ میں وہ بڑے چاق وچوبند نظر آتے تھے ۔ بڑھاپا انھوں نے اپنے اوپر طاری ہی نہ ہونے دیا تھا۔ یہ بات اُن میں دیکھی ، یا اے حمید مرحوم میں۔ سال پر سال گزرتے گئے ۔ 'ایکسپریس' کے گروپ ایڈیٹر ہو گئے ۔شاہ صاحب کی براہ راست راہنمائی میں کام کرنے کا تجربہ یہاںاُن کے پروگرام 'کالم کار' میں ہوا ۔ شاہ صاحب کی شخصیت کے بعض حیرت انگیز پہلو مجھ پر یہیں آشکار ہوے۔
شاہ صاحب کوتمہید باندھنے بات کو خواہ مخواہ طول دینے سخت چڑ تھی ۔ وہ اپنا کالم لکھ رہے ہیں ، یا کوئی کالم ایڈٹ کر رہے ہیں ۔ بیچ میں نیچے ری سیپشن سے کال آگئی۔آپریٹر نے کہا ،کوئی آپ سے ملنے آیا ہے ۔ شاہ صاحب نے سگریٹ کا کش لگایا ، بھنووں کو چُٹکی سے مروڑاکہ یہ اُن کی عادت تھی، اور کہا ،'آ گیا ہے ، تو آنے دو ۔' میں نے کبھی نہیں دیکھاکہ شاہ صاحب نے کہا ہو ' نہیں ، کہدو ، میں مصروف ہو ں ۔' ملاقاتی اُوپر اُن کے کمرے میں داخل ہوتاہی تھا کہ شاہ صاحب بغیر کسی تمہید کے کہتے ،' ہاں ، کہاں ہے تمہاری درخواست ، اور جب وہ جھینپتے ہوئے اپنی درخواست شاہ صاحب کی طرف بڑھاتا ، ، تو تعجب ہوتا کہ شاہ صاحب کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ کوئی درخواست ہی لے کر آیا ہے ۔
روزمرہ گفتگو میں بھی ، شاہ صاحب ''کہنا یہ ہے ، مطلب یہ ہے ، چونکہ ، چنانچہ اور لیکن ویکن '' کے لفظ استعمال نہیں کرتے تھے ۔ صاف ، سیدھی اور دوٹوک بات۔'' کالم کار'' میں اُن کا یہی انداز ہوتا تھا ۔ نہ غیر ضروری تمہید اور نہ لمبے چوڑے اختتامی کلمات ، پروگرام ختم ، بات ختم ۔ خدمت ِخلق کا شاہ صاحب کا جنون تھا ۔ ایک سائل جا رہا ہے، دوسرا آ رہا ہے ۔ چٹوں سے جیب بھی بھری ہے ،اور بیگ بھی ۔کسی کو نوکری چاہیے ،کسی کو مالی مدد کی ضرورت ہے اور کوئی تھانے کچہری کا ستایا ہوا ہے ۔شاہ صاحب لگے ہوئے ہیں یہ سارے کام کروانے میں ۔ چہرے پر کوئی ناگواری نہیں۔ لہجے میں کوئی بے زاری نہیں ۔ گویا ، لوگوں کے کام کرنے میں اُن کو راحت ملتی تھی ۔
اخباری دنیامیں، اس معاملہ میں صرف مجیب الرحمان شامی اُن کے ہم پلہ ہیں۔ کوئی بھی آیا ہے، شامی صاحب ، یہ مسئلہ ہے ، شامی صاحب اُٹھے ہیں اور چل پڑے ہیں۔ نظریاتی طور پر شاہ صاحب اگر دریا کا ایک کنارہ تھے، تو شامی صاحب دوسرا کنارہ ۔ شاہ صاحب میں، جو بات خطرناک حد تک پائی جاتی تھی ، وہ یہ تھی کہ خوف چھوکر نہیں گزرا تھا۔ان موضوعات پر ، جن پر لکھتے ہوئے بڑے بڑوں کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں ، شاہ صاحب بے دھڑک لکھتے تھے ،اور جب اُن کے دوست احباب اُن کو کہتے 'شاہ صاحب ، ہتھ ہولا رکھیں ' تو شاہ صاحب کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ' مرنا تو ہے ایک دن، سدا تو یہاں نہیں رہوں گا۔ لیکن ڈروں گا نہیں ، جو صحیح سمجھوں گا ، لکھوں گا۔' قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں ، لیکن شاہ صاحب ہیں کہ روزمرہ کے معمولات میں معمولی سا فرق نہیں آرہا۔ وہی رات گئے دفتر سے نکلنا اور گھر پہنچنا ۔ صرف خوف سے نہیں، شاہ صاحب منافقت سے بھی ہمیشہ کوسوں دور نظرآئے ۔
ایک بار ایک کالم نگار نے کہا ، شاہ صاحب ، آپ پر پیپلز پارٹی کی چھاپ لگ گئی ہے ۔ شاہ صاحب کے لبوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ ابھری ۔ حسب ِ عادت انھوں نے سگریٹ کا کش لگایا ، چُٹکی سے بھنووںکو مروڑا ، اور کہا ،' جناب ، چھاپ کی بات جانے دیں۔یہ آپ پر لگی ہے ، لیکن آپ کو نظر نہیں آرہی ۔ آپ ابھی میرے ساتھ باہر چلیں، ایک عام سا قاری بھی ہمیں بتا دے گا کہ آپ کس پارٹی کے ہیں، اورمیں کس پارٹی کا ہوں۔' ان کے کالم نگار دوست نے قہقہہ لگایا اورکہا ،' بات آپ نے صحیح کہی ۔' ایک بار میں نے کہا ،' شاہ صاحب ، پیپلزپارٹی نے آپ کی قدر نہیں کی۔' مجھے یاد ہے ، شاہ صاحب یکدم اُداس ہو گئے ، اور پھر کہا ،اصغر دیکھو، میں کوئی اُن کے لیے تھوڑا ہی کررہاہوں، میں تومجبورِ وفاہوں۔ میںنے تو برسوں پہلے ایک خواب دیکھا تھا ، اورآج تک اس کی تعبیر ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں تواب اس خواب سے دست بردار نہیں ہوں گا۔' آج جب میں یہ سطور سپرد ِقلم کر رہاتھا تو آناً فاناً ن م راشد کی نظم' خواب گر' نے آلیا ۔ خواب لے لو خواب ،ایک خواب آشنا شخص کی صدا پر صدا ، لیکن جواب ندارد، تا آنکہ رات کی تاریکی میں ڈوب کر ، یہ صدا خاموش رات کا حصہ بن جاتی ہے ،
'خواب لے لو خواب'
صبح ہوتے ہی چوک پر جا کر لگاتا ہوں صدا -----
'خواب اصلی ہیں یا نقلی ؟ '
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے اُن سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو
شام ہوجاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا ------
'مُفت لے لو مفت ، یہ سونے کے خواب'
مُفت سن کر اور بھی ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ -------
'یہ لے لو خواب -----
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو ، خواب -----
میرے خواب ------
خواب----- میرے خواب ------
ان کے دااام بھی ی ی ی ------ '
''کلمہ ء شہادت ۔۔۔۔ 'ورد شروع ہو گیا تھا۔ شاہ صاحب کا جسد ِخاکی لحد میںاُتار ا جارہا تھا ۔ سعید اظہر صاحب کی آواز گلوگیر ہوگئی تھی ،' اچھا عباس یار،اللہ دے حوالے ۔' مجھے یاد آ رہا تھا کہ ایک بار بسلسلہ پروگرام' کالم کار' ، شاہ صاحب اور میں کہیں جار ہے تھے ۔ دوران ِسفر گاڑی میںکوئی بات ہو رہی تھی ۔ شاہ صاحب نے کہا ، '' اب میں نے آگے کہیں نہیں جانا ، روزنامہ' ایکسپریس' میرے اخباری سفر کا آخری اسٹیشن ہے۔'' مسافر نے اپناعہد نبھایا، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ مسافر آخری اسٹیشن پر اس طرح اُترے گا کہ اُترتے ہی ایک نئے سفر پر روانہ ہوجائے گا ۔ تدفین کا عمل مکمل ہوگیاتھا۔سورج غروب ہوچکا تھا،اور اندھیر ا چھا رہا تھا ۔میں نے مٹھی بھر مٹی لی۔ شاہ صاحب کی قبر پر ڈالی۔ ساحر لدھیانوی کا یہ قطعہ یاد آیا،
عزتیں ، شہرتیں ، چاہتیں ، اُلفتیں
کوئی بھی چیز دنیا میں رہتی نہیں
آج میں ہو ں جہا ں کل کوئی اور تھا
یہ بھی اک دور ہے ، وہ بھی اک دور ہے
شاہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 'نوائے وقت ' کے دفتر میں ہوئی تھی ۔شاہ صاحب ڈپٹی ایڈیٹر 'نوائے وقت' مقرر کیے گئے ، اور میں ہفت روزہ'' ندائے ملت'' کے اجرا پر مامور ہوا تھا ۔انھی دنوں شاہ صاحب کا کالم ' کنکریاں ' شروع ہوا تھا۔ ایک مرتبہ شاہ صاحب نے بتایا کہ کس طرح انھوں نے اصرار کرکے کالم لکھنا شروع کیا تھا۔ 'مجید نظامی صاحب نے کہا ، اس طرح آپ نیوز روم پر پوری توجہ نہیں دے سکیں گے۔ لیکن، میں چونکہ ' خبریں' میں مستقل کالم لکھ رہا تھا اور مجھ کو کالم نگاری کی 'چاٹ' لگ چکی تھی ، میں نے کہا ، آپ فکر نہ کریں ، نیوز روم کا ہرج نہیں ہوگا ۔'کنکریاں' میں ادب اورصحافت دونوں کا ذائقہ تو تھا ہی ، لیکن اُس کی انفرادیت یہ تھی کہ اُس کا ہر جملہ میں ایک لطیف اور گہرا طنز چھُپا ہوتا تھا ۔
شاہ صاحب سے میرا تعلق برخورداری کا او ر شاگردی کا تھا۔ نظریاتی بُعد کے باعث اس میں تکلف کا رنگ بھی تھا ۔تاہم شاہ صاحب کی شفقت ِبے پایاں میں کبھی فرق محسوس نہیں کیا تھا۔ 'نوائے وقت بلڈنگ' میں ، اُن کا کمرہ تیسرے فلور پر تھا۔میرا کمرہ ، جب تک 'ندائے ملت' کا ایڈیٹر رہا ، پانچویں فلور پر، اورجب 'سنڈے میگزین' کا ایڈیٹر مقرر ہوا تو دوسرے فلو رپر تھا ۔ کمپوزنگ روم ،چونکہ نیوزروم اور میگزین کا مشترکہ تھا، لہٰذا کوریڈور میں ،یا سیڑھیوں پر اکثر شاہ صاحب سے ملاقات ہو جاتی تھی ۔ باغ ِ جناح میں سر ِ شام واک اُن کا معمول تھی۔ ٹریک سوٹ میں وہ بڑے چاق وچوبند نظر آتے تھے ۔ بڑھاپا انھوں نے اپنے اوپر طاری ہی نہ ہونے دیا تھا۔ یہ بات اُن میں دیکھی ، یا اے حمید مرحوم میں۔ سال پر سال گزرتے گئے ۔ 'ایکسپریس' کے گروپ ایڈیٹر ہو گئے ۔شاہ صاحب کی براہ راست راہنمائی میں کام کرنے کا تجربہ یہاںاُن کے پروگرام 'کالم کار' میں ہوا ۔ شاہ صاحب کی شخصیت کے بعض حیرت انگیز پہلو مجھ پر یہیں آشکار ہوے۔
شاہ صاحب کوتمہید باندھنے بات کو خواہ مخواہ طول دینے سخت چڑ تھی ۔ وہ اپنا کالم لکھ رہے ہیں ، یا کوئی کالم ایڈٹ کر رہے ہیں ۔ بیچ میں نیچے ری سیپشن سے کال آگئی۔آپریٹر نے کہا ،کوئی آپ سے ملنے آیا ہے ۔ شاہ صاحب نے سگریٹ کا کش لگایا ، بھنووں کو چُٹکی سے مروڑاکہ یہ اُن کی عادت تھی، اور کہا ،'آ گیا ہے ، تو آنے دو ۔' میں نے کبھی نہیں دیکھاکہ شاہ صاحب نے کہا ہو ' نہیں ، کہدو ، میں مصروف ہو ں ۔' ملاقاتی اُوپر اُن کے کمرے میں داخل ہوتاہی تھا کہ شاہ صاحب بغیر کسی تمہید کے کہتے ،' ہاں ، کہاں ہے تمہاری درخواست ، اور جب وہ جھینپتے ہوئے اپنی درخواست شاہ صاحب کی طرف بڑھاتا ، ، تو تعجب ہوتا کہ شاہ صاحب کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ کوئی درخواست ہی لے کر آیا ہے ۔
روزمرہ گفتگو میں بھی ، شاہ صاحب ''کہنا یہ ہے ، مطلب یہ ہے ، چونکہ ، چنانچہ اور لیکن ویکن '' کے لفظ استعمال نہیں کرتے تھے ۔ صاف ، سیدھی اور دوٹوک بات۔'' کالم کار'' میں اُن کا یہی انداز ہوتا تھا ۔ نہ غیر ضروری تمہید اور نہ لمبے چوڑے اختتامی کلمات ، پروگرام ختم ، بات ختم ۔ خدمت ِخلق کا شاہ صاحب کا جنون تھا ۔ ایک سائل جا رہا ہے، دوسرا آ رہا ہے ۔ چٹوں سے جیب بھی بھری ہے ،اور بیگ بھی ۔کسی کو نوکری چاہیے ،کسی کو مالی مدد کی ضرورت ہے اور کوئی تھانے کچہری کا ستایا ہوا ہے ۔شاہ صاحب لگے ہوئے ہیں یہ سارے کام کروانے میں ۔ چہرے پر کوئی ناگواری نہیں۔ لہجے میں کوئی بے زاری نہیں ۔ گویا ، لوگوں کے کام کرنے میں اُن کو راحت ملتی تھی ۔
اخباری دنیامیں، اس معاملہ میں صرف مجیب الرحمان شامی اُن کے ہم پلہ ہیں۔ کوئی بھی آیا ہے، شامی صاحب ، یہ مسئلہ ہے ، شامی صاحب اُٹھے ہیں اور چل پڑے ہیں۔ نظریاتی طور پر شاہ صاحب اگر دریا کا ایک کنارہ تھے، تو شامی صاحب دوسرا کنارہ ۔ شاہ صاحب میں، جو بات خطرناک حد تک پائی جاتی تھی ، وہ یہ تھی کہ خوف چھوکر نہیں گزرا تھا۔ان موضوعات پر ، جن پر لکھتے ہوئے بڑے بڑوں کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں ، شاہ صاحب بے دھڑک لکھتے تھے ،اور جب اُن کے دوست احباب اُن کو کہتے 'شاہ صاحب ، ہتھ ہولا رکھیں ' تو شاہ صاحب کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ' مرنا تو ہے ایک دن، سدا تو یہاں نہیں رہوں گا۔ لیکن ڈروں گا نہیں ، جو صحیح سمجھوں گا ، لکھوں گا۔' قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں ، لیکن شاہ صاحب ہیں کہ روزمرہ کے معمولات میں معمولی سا فرق نہیں آرہا۔ وہی رات گئے دفتر سے نکلنا اور گھر پہنچنا ۔ صرف خوف سے نہیں، شاہ صاحب منافقت سے بھی ہمیشہ کوسوں دور نظرآئے ۔
ایک بار ایک کالم نگار نے کہا ، شاہ صاحب ، آپ پر پیپلز پارٹی کی چھاپ لگ گئی ہے ۔ شاہ صاحب کے لبوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ ابھری ۔ حسب ِ عادت انھوں نے سگریٹ کا کش لگایا ، چُٹکی سے بھنووںکو مروڑا ، اور کہا ،' جناب ، چھاپ کی بات جانے دیں۔یہ آپ پر لگی ہے ، لیکن آپ کو نظر نہیں آرہی ۔ آپ ابھی میرے ساتھ باہر چلیں، ایک عام سا قاری بھی ہمیں بتا دے گا کہ آپ کس پارٹی کے ہیں، اورمیں کس پارٹی کا ہوں۔' ان کے کالم نگار دوست نے قہقہہ لگایا اورکہا ،' بات آپ نے صحیح کہی ۔' ایک بار میں نے کہا ،' شاہ صاحب ، پیپلزپارٹی نے آپ کی قدر نہیں کی۔' مجھے یاد ہے ، شاہ صاحب یکدم اُداس ہو گئے ، اور پھر کہا ،اصغر دیکھو، میں کوئی اُن کے لیے تھوڑا ہی کررہاہوں، میں تومجبورِ وفاہوں۔ میںنے تو برسوں پہلے ایک خواب دیکھا تھا ، اورآج تک اس کی تعبیر ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں تواب اس خواب سے دست بردار نہیں ہوں گا۔' آج جب میں یہ سطور سپرد ِقلم کر رہاتھا تو آناً فاناً ن م راشد کی نظم' خواب گر' نے آلیا ۔ خواب لے لو خواب ،ایک خواب آشنا شخص کی صدا پر صدا ، لیکن جواب ندارد، تا آنکہ رات کی تاریکی میں ڈوب کر ، یہ صدا خاموش رات کا حصہ بن جاتی ہے ،
'خواب لے لو خواب'
صبح ہوتے ہی چوک پر جا کر لگاتا ہوں صدا -----
'خواب اصلی ہیں یا نقلی ؟ '
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے اُن سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو
شام ہوجاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا ------
'مُفت لے لو مفت ، یہ سونے کے خواب'
مُفت سن کر اور بھی ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ -------
'یہ لے لو خواب -----
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو ، خواب -----
میرے خواب ------
خواب----- میرے خواب ------
ان کے دااام بھی ی ی ی ------ '