شریف برادران کی ترجیحات
11 مئی کے انتخابی نتائج نے مسلم لیگ ن کو کامیابی دلا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کی یہ کامیابی ان کی کارکردگی کا نتیجہ نہیں بلکہ
11 مئی کے انتخابی نتائج نے مسلم لیگ ن کو کامیابی دلا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کی یہ کامیابی ان کی کارکردگی کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کی خوش قسمتی یہ رہی کہ انتخابی میدان میں سوائے ایک ناتجربہ کار کھلاڑی کے کوئی ان کا حریف نہ تھا۔ پیپلزپارٹی اپنی ناقص پانچ سالہ کارکردگی کی وجہ سے عوام میں مقبول نہیں تھی جب کہ عمران خان کو پاکستانی سیاست کے داؤ پیچ کا کوئی علم نہ تھا، انھوں نے سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ لیا۔ اس کھیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام پر ان کا زیادہ اثر نہ ہوا اور انتخابات میںکپتان ہاتھ ملتے رہ گئے۔
نواز شریف اپنی برطرفی کے بعد ہمیشہ یہ شکوہ کرتے رہے کہ اگر انھیں اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیتے ۔ اس قسم کے دعوے تو سیاستدان کرتا ہے لیکن زمینی حقیقتیں کچھ اور ہوتی ہیں۔ نواز شریف کو دو بار وزیراعظم بننے کا موقع ملا لیکن اس دو دور حکومت میں ان کے پاس سوائے موٹروے کے کارکردگی کا کوئی دوسرا سرٹیفکیٹ نہ تھا۔ 11مئی 2013 کو عوام نے ایک بار پھر انھیں ووٹ دیا۔ 1999 میں ان کی حکومت سے برطرفی کے بعد ان کے پاس عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے صرف دو سال کا وقت تھا اب ان کے ساتھ کوئی انہونی نہ ہوئی تو پورے پانچ سال کا وقت ہے اور اس ملک کے عوام اپنی تقدیر بدلنے کے منتظر ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ترمیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ عوام کی تقدیر کس طرح بدلتے ہیں۔
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر جن خیالات کا اظہار کر رہے ہیں وہ مثبت بھی ہیں اور دانشمندانہ بھی مثلاً قومی مسائل کے حوالے سے وہ اپنی پہلی ترجیح معیشت کی بحالی بتا رہے ہیں جو بغیر بھاری امداد یا قرضوں کے ممکن ہی نہیں۔ آئی ایم ایف کو اس کے قرضے کی ایک قسط ایک ارب ڈالر کی فوری ادائیگی ناگزیر ہے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 2008 کے مقابلے میں نصف رہ گئے ہیں۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز جیسے کئی ادارے بری حالت میں ہیں۔ بجلی، گیس کی قلت کا عالم یہ ہے کہ ہماری صنعت کا نصف سے زیادہ حصہ بند پڑا ہے۔
مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ہماری معاشی زبوں حالی کو دیکھ کر کوئی عالمی مالیاتی ادارہ بغیر ضمانت اور کڑی شرائط کے قرض دینے کے لیے تیار نہیں، ہمارے ملک میں امن وامان کا عالم یہ ہے کہ کوئی شہری گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر۔ اس صورت حال کی وجہ سے ہمارے صنعت کار دوسرے محفوظ ملکوں میں اپنا سرمایہ اور اپنی صنعتیں منتقل کر رہے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری مکمل طور پر رکی ہوئی ہے۔ بلوچستان اور کراچی شدید انتشار اور دہشت گردی کا شکار ہیں۔ خیبر پختونخوا دہشت گردی کا اڈہ بنا ہوا ہے آسمان کو چھوتی مہنگائی سے عوام نیم جان ہوگئے ہیں۔ انتخابی دھاندلی کے نام پر چاروں صوبوں میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔اس انتہائی مایوس کن منظر نامے میں معیشت کی بحالی اور پاکستان کو ایشیاء کا معاشی ٹائیگر بنانے کے دعوے کرنے کے لیے ٹائیگر کا دل چاہیے۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے نواز شریف کے بیانات مثبت ہیں۔ بھارت اور دوسرے پڑوسی ملکوں سے دوستی مسلم ملکوں سے تعلقات میں پیش رفت افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز رہنا۔ امریکا کو ڈرون حملوں سے روکنے کی کوشش کرنا یقینا مثبت اشارے ہیں لیکن ہمارا معاشرہ مذہبی شدت پسندی کے جس راستے پر چل نکلا ہے اور اس کلچر کی حامی قوتوں کو جس طرح مستحکم کردیا گیا اس کے پس منظر میں کیا بھارت سے دوستی بھارت سے تجارتی تعلقات کا فروغ مسئلہ کشمیر کو زمینی حقائق کی روشنی میں حل کرنا اور امریکا سے تعلقات کا فروغ آسان کام ہیں؟
نواز شریف نے معیشت کی بحالی کو اپنی اولین ترجیح بتایا ہے اور جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے معیشت کی بحالی کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ وہ کشکول توڑنے کے دعوے بھی کرتے رہے ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ انھیں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کشکول اٹھانا پڑے گا۔ سیاستدان عوام سے داد تحسین حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے لیکن عملاً ناممکن وعدے تو کرتے ہیں لیکن جب ان وعدوں کا اونٹ عمل کے پہاڑوں کے نیچے آتا ہے تو سیاستدانوں کو لگ پتا جاتا ہے۔ آج سرمایہ دارانہ معیشت کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ کئی مغربی ملکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بیل اوٹ کی بیساکھیاں فراہم کی جارہی ہیں۔ خود دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت امریکا قرضوں میں سر سے پیر تک ڈوبا ہوا ہے۔
اس بھیانک منظرنامے میں کسی پسماندہ ملک کے لیے اقتصادی استحکام حاصل نا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کو آج جو اہم ترین مسائل درپیش ہیں ان میں معیشت کی بحالی بلاشبہ سرفہرست ہے اس کے لیے جہاں بیرونی قرضے ضروری ہیں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ رکی ہوئی اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار کی جائے جس کے لیے اولین شرط امن وامان کی بحالی ہے اور امن وامان کی بحالی کے لیی ملک کے ہر حصے میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس کے لیے نواز شریف کو دو ٹوک فیصلہ کرنا پڑے گا۔
اب اس حوالے سے نہ کوئی مبہم پالیسی چل سکتی ہے نہ دوغلی سیاست، اس حوالے سے آرمی چیف کے دو ٹوک موقف پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر کچھ گروہ ہتھیار بند ہوکر ریاست سے بغاوت پر اتر آئین اور اپنے نظریات طاقت کے زور پر مسلط کرنا چاہیں تو ان کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہتا جب کہ ہمارے محترم سیاستدان ان طاقتوں سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہمارے یہ محترم سیاستدان مذاکرات کے ایجنڈے سے عوام کو واقف کرائیں گے' کچھ سیاست کار اس دہشت گردی کو امریکا کی جنگ کہہ کر عوام کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ ملک کا آرمی چیف واضح طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ ''یہ ہماری جنگ ہے'' اس نظریاتی انتشار سے نکلے بغیر نہ امن وامان بحال ہوسکتا ہے نہ ملک میں سرمایہ کاری ہوسکتی ہے جس کے بغیر معیشت کی بحالی صرف ایک خواب ہے۔
2014 میں امریکا افغانستان سے جارہا ہے اسے اس کے لیے محفوظ راستہ چاہیے غالباً اس مسئلے پر بات چیت کے لیے اور افغانستان کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری پاکستان آنے کے لیے بے تاب ہیں اس حوالے سے ہمارا موقف حقیقت پسندانہ اور قومی مفادات کے مطابق ہونا چاہیے۔ نواز شریف نے بھارت سے اچھے تعلقات کی بات کی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑے مسئلہ کشمیر ہے اگرچہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا موقف جارحانہ ہے لیکن 65 سال میں یہ مسئلہ انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے اس کے حل کے لیے کسی مرحلہ وار پروگرام پر بھارت سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے جو اس مسئلے کے تینوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ افغانستان کے حوالے سے نامناسب پالیسی پر چلتی رہی ہے ہماری توجہ صرف اس بات پر ہونی چاہیے کہ 2014 کے بعد کا افغانستان ہمارے لیے مزید مسائل کا باعث نہ ہو۔
گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے شریف برادران تین سال کا وقت مانگ رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ عوام کے لیے عذاب اور ہماری صنعتوں کے لیے تباہی کا باعث بنا ہوا ہے جس کے حل کے لیے مختصر مدتی اور طویل مدتی پروگرام کے تحت اس کا فوری حل نکالنا ضروری ہے۔ مہنگائی نے عوام کی زندگی کو جہنم بنادیا ہے اس کے حقیقی اور مصنوعی عوامل کا جائزہ لے کر کم سے کم مدت میں اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ بھارت سے بڑے پیمانے پر تجارت کے نتیجے میں مہنگائی سے بڑی حد تک بچا جاسکتا ہے اس مسئلے پر جذباتی موقف رکھنے والوں کو پیچھے دھکیلنا ہوگا۔ اگر یہ چند اقدامات سنجیدگی سے کیے جائیں تو حالات کی سنگینی پر قابو پانے کی صورت نکل سکتی ہے۔
نواز شریف اپنی برطرفی کے بعد ہمیشہ یہ شکوہ کرتے رہے کہ اگر انھیں اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیتے ۔ اس قسم کے دعوے تو سیاستدان کرتا ہے لیکن زمینی حقیقتیں کچھ اور ہوتی ہیں۔ نواز شریف کو دو بار وزیراعظم بننے کا موقع ملا لیکن اس دو دور حکومت میں ان کے پاس سوائے موٹروے کے کارکردگی کا کوئی دوسرا سرٹیفکیٹ نہ تھا۔ 11مئی 2013 کو عوام نے ایک بار پھر انھیں ووٹ دیا۔ 1999 میں ان کی حکومت سے برطرفی کے بعد ان کے پاس عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے صرف دو سال کا وقت تھا اب ان کے ساتھ کوئی انہونی نہ ہوئی تو پورے پانچ سال کا وقت ہے اور اس ملک کے عوام اپنی تقدیر بدلنے کے منتظر ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ترمیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ عوام کی تقدیر کس طرح بدلتے ہیں۔
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر جن خیالات کا اظہار کر رہے ہیں وہ مثبت بھی ہیں اور دانشمندانہ بھی مثلاً قومی مسائل کے حوالے سے وہ اپنی پہلی ترجیح معیشت کی بحالی بتا رہے ہیں جو بغیر بھاری امداد یا قرضوں کے ممکن ہی نہیں۔ آئی ایم ایف کو اس کے قرضے کی ایک قسط ایک ارب ڈالر کی فوری ادائیگی ناگزیر ہے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 2008 کے مقابلے میں نصف رہ گئے ہیں۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز جیسے کئی ادارے بری حالت میں ہیں۔ بجلی، گیس کی قلت کا عالم یہ ہے کہ ہماری صنعت کا نصف سے زیادہ حصہ بند پڑا ہے۔
مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ہماری معاشی زبوں حالی کو دیکھ کر کوئی عالمی مالیاتی ادارہ بغیر ضمانت اور کڑی شرائط کے قرض دینے کے لیے تیار نہیں، ہمارے ملک میں امن وامان کا عالم یہ ہے کہ کوئی شہری گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر۔ اس صورت حال کی وجہ سے ہمارے صنعت کار دوسرے محفوظ ملکوں میں اپنا سرمایہ اور اپنی صنعتیں منتقل کر رہے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری مکمل طور پر رکی ہوئی ہے۔ بلوچستان اور کراچی شدید انتشار اور دہشت گردی کا شکار ہیں۔ خیبر پختونخوا دہشت گردی کا اڈہ بنا ہوا ہے آسمان کو چھوتی مہنگائی سے عوام نیم جان ہوگئے ہیں۔ انتخابی دھاندلی کے نام پر چاروں صوبوں میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔اس انتہائی مایوس کن منظر نامے میں معیشت کی بحالی اور پاکستان کو ایشیاء کا معاشی ٹائیگر بنانے کے دعوے کرنے کے لیے ٹائیگر کا دل چاہیے۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے نواز شریف کے بیانات مثبت ہیں۔ بھارت اور دوسرے پڑوسی ملکوں سے دوستی مسلم ملکوں سے تعلقات میں پیش رفت افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز رہنا۔ امریکا کو ڈرون حملوں سے روکنے کی کوشش کرنا یقینا مثبت اشارے ہیں لیکن ہمارا معاشرہ مذہبی شدت پسندی کے جس راستے پر چل نکلا ہے اور اس کلچر کی حامی قوتوں کو جس طرح مستحکم کردیا گیا اس کے پس منظر میں کیا بھارت سے دوستی بھارت سے تجارتی تعلقات کا فروغ مسئلہ کشمیر کو زمینی حقائق کی روشنی میں حل کرنا اور امریکا سے تعلقات کا فروغ آسان کام ہیں؟
نواز شریف نے معیشت کی بحالی کو اپنی اولین ترجیح بتایا ہے اور جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے معیشت کی بحالی کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ وہ کشکول توڑنے کے دعوے بھی کرتے رہے ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ انھیں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کشکول اٹھانا پڑے گا۔ سیاستدان عوام سے داد تحسین حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے لیکن عملاً ناممکن وعدے تو کرتے ہیں لیکن جب ان وعدوں کا اونٹ عمل کے پہاڑوں کے نیچے آتا ہے تو سیاستدانوں کو لگ پتا جاتا ہے۔ آج سرمایہ دارانہ معیشت کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ کئی مغربی ملکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بیل اوٹ کی بیساکھیاں فراہم کی جارہی ہیں۔ خود دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت امریکا قرضوں میں سر سے پیر تک ڈوبا ہوا ہے۔
اس بھیانک منظرنامے میں کسی پسماندہ ملک کے لیے اقتصادی استحکام حاصل نا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کو آج جو اہم ترین مسائل درپیش ہیں ان میں معیشت کی بحالی بلاشبہ سرفہرست ہے اس کے لیے جہاں بیرونی قرضے ضروری ہیں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ رکی ہوئی اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار کی جائے جس کے لیے اولین شرط امن وامان کی بحالی ہے اور امن وامان کی بحالی کے لیی ملک کے ہر حصے میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس کے لیے نواز شریف کو دو ٹوک فیصلہ کرنا پڑے گا۔
اب اس حوالے سے نہ کوئی مبہم پالیسی چل سکتی ہے نہ دوغلی سیاست، اس حوالے سے آرمی چیف کے دو ٹوک موقف پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر کچھ گروہ ہتھیار بند ہوکر ریاست سے بغاوت پر اتر آئین اور اپنے نظریات طاقت کے زور پر مسلط کرنا چاہیں تو ان کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہتا جب کہ ہمارے محترم سیاستدان ان طاقتوں سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہمارے یہ محترم سیاستدان مذاکرات کے ایجنڈے سے عوام کو واقف کرائیں گے' کچھ سیاست کار اس دہشت گردی کو امریکا کی جنگ کہہ کر عوام کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ ملک کا آرمی چیف واضح طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ ''یہ ہماری جنگ ہے'' اس نظریاتی انتشار سے نکلے بغیر نہ امن وامان بحال ہوسکتا ہے نہ ملک میں سرمایہ کاری ہوسکتی ہے جس کے بغیر معیشت کی بحالی صرف ایک خواب ہے۔
2014 میں امریکا افغانستان سے جارہا ہے اسے اس کے لیے محفوظ راستہ چاہیے غالباً اس مسئلے پر بات چیت کے لیے اور افغانستان کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری پاکستان آنے کے لیے بے تاب ہیں اس حوالے سے ہمارا موقف حقیقت پسندانہ اور قومی مفادات کے مطابق ہونا چاہیے۔ نواز شریف نے بھارت سے اچھے تعلقات کی بات کی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑے مسئلہ کشمیر ہے اگرچہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا موقف جارحانہ ہے لیکن 65 سال میں یہ مسئلہ انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے اس کے حل کے لیے کسی مرحلہ وار پروگرام پر بھارت سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے جو اس مسئلے کے تینوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ افغانستان کے حوالے سے نامناسب پالیسی پر چلتی رہی ہے ہماری توجہ صرف اس بات پر ہونی چاہیے کہ 2014 کے بعد کا افغانستان ہمارے لیے مزید مسائل کا باعث نہ ہو۔
گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے شریف برادران تین سال کا وقت مانگ رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ عوام کے لیے عذاب اور ہماری صنعتوں کے لیے تباہی کا باعث بنا ہوا ہے جس کے حل کے لیے مختصر مدتی اور طویل مدتی پروگرام کے تحت اس کا فوری حل نکالنا ضروری ہے۔ مہنگائی نے عوام کی زندگی کو جہنم بنادیا ہے اس کے حقیقی اور مصنوعی عوامل کا جائزہ لے کر کم سے کم مدت میں اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ بھارت سے بڑے پیمانے پر تجارت کے نتیجے میں مہنگائی سے بڑی حد تک بچا جاسکتا ہے اس مسئلے پر جذباتی موقف رکھنے والوں کو پیچھے دھکیلنا ہوگا۔ اگر یہ چند اقدامات سنجیدگی سے کیے جائیں تو حالات کی سنگینی پر قابو پانے کی صورت نکل سکتی ہے۔