علاج
ڈاکٹر صاحب بسترِ علالت پر لیٹے ہوئے تکلیف سے کراہ رہے تھے ، اُن کے ایک دوست عیادت کے لیے حاضر ہوئے...
ڈاکٹر صاحب بسترِ علالت پر لیٹے ہوئے تکلیف سے کراہ رہے تھے ، اُن کے ایک دوست عیادت کے لیے حاضر ہوئے اور حیرت سے بولے '' ڈاکٹر صاحب آپ تو خود ڈاکٹر ہیں،اپنا علاج خودکیوں نہیں کرلیتے ؟'' ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا '' بھائی میں اپنا علاج خودکیسے کر سکتا ہوں ؟ میری تو فیس بہت زیادہ ہے ، جو میں افورڈ نہیں کر سکتا ۔'' یہ تو ایک بہت پُرانا اور گھسا پٹا لطیفہ تھا ۔ لیکن کچھ پیشے ایسے ضرور ہیں جن کے ماہرین اپنا ہُنرخود پر نہیں آزما سکتے ۔ مثلاً ایک ہیرڈریسر اپنے بال خود نہیں تراش سکتا ۔مگر جمہوریت ایک ایسا خوبصورت نظامِ حکومت ہے ، جسے اپنی خرابیوں کو دُرست کرنے کے لیے نہ کسی دوسرے نظام کی مدد درکار ہوتی ہے ، نہ کسی ادارے کی اور نہ ہی کسی فرد کی ۔
یہ اپنا علاج خودکرتی ہے اور اپنے اندر موجود خرابیوں کا حل تلاش کر کے خود اُنہیں دور کرسکتی ہے اور آیندہ کے لیے روک تھام بھی کرسکتی ہے ۔ شرط صرف ایک ہی ہے کہ اِس نظام کا تسلسل برقرار رہے ۔ 11 مئی کے انتخابات کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے اور جس طرح سڑکوں پر دھرنوںاور مظاہروںکا سلسلہ جاری ہے اِن سب کواب ختم ہوجانا چاہیے تیسری دُنیا کے ملکوں میں جہاں جمہوری نظام ابھی ابتدائی مراحل میں ہی ہے ،وہاں اِس قسم کے واقعات معمول کا حصہ ہیں ۔ ایک 85 سالہ الیکشن کمشنر جس کی نیک نامی پر کسی قسم کے شک و شُبہ کا اظہار بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اِس سے زیادہ شفاف الیکشن کروا بھی نہیں سکتا تھا ۔ یہ بہرحال اِن کا فرض ہے کہ جہاں بھی دھاندلی ہوئی اور اِس کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں ، اُن پولنگ اسٹیشنز پر وہ قانون کے مطابق عمل کرتے ہوئے اِن شکایات کا ازالہ کریں ۔ لیکن بحیثیت مجموعی تمام شکست خوردہ جماعتوں اور افراد کو خوش دِلی کے ساتھ اِن نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے آگے کی طرف بڑھنا چاہیے ۔
تاکہ نئی حکومت اقتدار سنبھال کر عوام کے مفاد میں کاروبارِ حکومت چلا سکے اور قانون سازی کر سکے ۔ رہی دھاندلی اور انتخابی عمل میں مختلف جماعتوں کی طرف سے منفی حربے استعمال کر کے اپنے اُمیدواروں کے لیے جیت کا میدان ہموار کرنے کی بات تو یہ ہمارے جمہوری نظام کی وہ خرابیاں یا کمزور پہلو ہیں ، جن کا علاج کرنے کی ضرورت ہے اور یہ علاج جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ، خود جمہوریت ہی کرے گی کوئی اورنہیں ۔ اِن تمام بیماریوں کے علاج کا اصل اسپتال صرف پارلیمنٹ ہے ۔ ہارنے والے اپوزیشن میں بیٹھ کر اِن خرابیوں کا علاج پارلیمنٹ میں پیش کریں حکومت مجبور ہوگی کہ اِن خرابیوں کو دور کرنے کے لیے قانون سازی کرے اگر نہیں کرے گی تو آزاد میڈیا کے ذریعے خود ایکسپوز ہوجائے گی ۔
میری ناقص رائے میں تو اِن تمام خرابیوں کا حل صرف یہ ہے کہ ہر پولنگ اسٹیشن میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کردیے جائیں اور ہر ضلع یا ڈسٹرکٹ میں الیکشن کمیشن ایک کنٹرول روم قائم کر کے اِن کی مسلسل مانیٹرنگ کرتا رہے اور جہاں بھی کیمرے کی آنکھ کوئی گڑ بڑ دکھائے ، وہاں فوری طور پر پولنگ روک کر دھاندلی کا تدراک کیا جائے ۔ کیونکہ جن پولنگ اسٹیشنز سے بھی دھاندلی کے ثبوت سامنے آئے ہیں وہ کیمرے کی آنکھ نے ہی فلمبند کیے ہیں ۔ جب سی سی ٹی وی کیمرے بینکوں ، شاہراؤں اور حساس عمارتوں کی مانیٹرنگ کے لیے نصب کیے جاسکتے ہیں تو پھر اِس جدید ٹیکنالوجی کو الیکشن کمیشن کیوں استعمال نہیں کرسکتا ؟ لیکن یہ تمام عمل اُسی وقت ممکن ہوگا جب جمہوری نظام آگے بڑھتا رہے ۔ یہ بھی تو سوچیں کہ اِسی نظام کے تسلسل کے لیے عوام نے پچھلی حکومت کے ایسے پانچ برس برداشت کیے ، جنہوں نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ۔ میڈیا سب کچھ دکھاتا رہا ۔
وہ جو کل اپوزیشن میں تھے اورآج اقتدار میں ہیں ، پانچ برس تک یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں کہ اُنہیں عوام کے لیے اب کیا کچھ کرنا ہوگا ؟ اور اگر نہیں کریں گے تو عوام اُن کا کیا کریں گے ؟ عوام تسلّی رکھیں ، پچھلے پانچ سالوں میں اُن کے ساتھ جتنا بُرا ہوچکا ہے ، اُس کے بعد اب صرف اچھا ہی ہوگا ۔ مزید بُرا ہو ہی نہیں سکتا ۔ مسلم لیگ ن ، متحدہ قومی موومنٹ ، پی پی پی اور پی ٹی آئی کو جہاں جہاں بھی مینڈیٹ ملا ہے اور جیسے بھی ملا ہے اُسے تسلیم کر کے ، ہمیں جمہوری نظام کو آگے کی طرف بڑھانا چاہیے ۔ اور انتخابات میں جو خرابیاں سامنے آئی ہیں ۔ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اور بحث مباحثہ کرنے کے بعد آیندہ کے لیے اِنہیں دور کرنے کے لیے قانون سازی کرنا چاہیے ۔ پچھلی جمہوری حکومت کی لاکھ خرابیوں کے باوجود ، اِسی جمہوری نطام کے طفیل ہم موجودہ الیکشن کمیشن اور نگراں سیٹ اپ تک پہنچے ہیں جو یقینا 2008 کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر تھا ۔
اب یہی نظام اِسے مزید بہتر بنا سکتا ہے ۔ عمران خان کو کے پی کے میں حکومت بنانے کا موقع مل چکا ہے ۔ وہ اکثر بھارت کے صوبے بہار کی مثال دیا کرتے ہیں ، جہاں کے وزیرِ اعلیٰ نے کرپشن پر قابو پا کر صوبے کے ریونیو میں زبردست اضافہ کیا اور قانون کی بالادستی قائم کردی ۔ اب خدا نے اُنہیں یہ موقع دیا ہے وہ کے پی کے میں یہ سب کر کے دکھائیں اگر وہ اِس میں کامیاب ہوگئے تو پھر مستقبل پی ٹی آئی کا ہوگا ۔ عمران خان یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ سرکاری ملازمتوں کی بھرتی سیاسی بنیادوں پر نہیں ہونی چاہیے ۔ اُن کا یہ موقف بالکل دُرست ہے ۔ سرکاری ملازمین کی بھرتی کا اختیار وزیروں سے واپس لے کر متعلقہ ادارے کے سربراہ کو دیا جانا چاہیے ، جو خود غیر سیاسی ہو اور نیک شُہرت رکھتا ہو ۔ کیونکہ ہماری بیوروکریسی بھی پچھلے کئی عشروں سے سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہوچکی ہے ۔
11 مئی کے انتخابات میں جو دھاندلی ہوئی اُس کی بنیادی وجہ یہی سیاسی بھرتیاں تھیں ۔ سیاسی جماعتوں کے بھرتی کردہ سرکاری ملازمین جو کہ پریزائیڈنگ آفیسر ،اسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر اور پولنگ آفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے ، اِن سیاسی جماعتوں کے ممنون احسان تھے، جن کے کارکنوں نے ٹھپّے لگائے ، پولنگ کا عملہ صرف اِس لیے خاموش رہا کہ وہ اِنہی سیاسی جماعتوں کی سفارش پر سرکاری نوکری حاصل کر سکا تھا ۔ اگر یہ بھرتیاں میرٹ پر ، شفاف طریقہ کار کے تحت اور غیر سیاسی بنیادوں پر کی جاتیں تو یہ عملہ خاموش نہ رہتا ۔ عمران خان اور دیگر جماعتیں جنھیں سرکاری بھرتیوں کے اِس طریقہ کار پر اعتراض ہے اور ہر کسی کو ہونا بھی چاہیے ۔
اِس مسئلے کو اسمبلی میں پیش کریں اگر حکومت مخالفت کرے گی تو میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آجائے گی ۔ لیکن یہ سب کچھ پارلیمنٹ میں ہی ہونا چاہیے ۔ دھرنوں کی صورت میں نہیں اور نہ ہی اُن کا فیصلہ سڑکوں پر کرنے کی ضرورت ہے ۔ میاں نواز شریف کو عوام کا مینڈیٹ مبارک ہو۔ اُمید ہے کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے کام کریں گے اور ہمارے نظام میں جو خرابیاں نظر آئی ہیں بالخصوص انتخابی عمل میں ، اُنہیں دور کرنے کی کوشش ضرور کریں گے ۔ جمہوریت کا تُسلسل سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ خرابیاں یہ خود دور کر لے گی۔ لیکن اگر جمہوریت خود ہی موجود نہ رہی تو پھر کیا ہوگا ؟ اِس پر سب کو سوچنے کی ضرورت ہے ۔