بس ایک موقعہ اور
سندھ میں پی پی کو آخری اور ملک میں پی ٹی آئی کو پہلا موقعہ ملا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ موقعہ پہلی بار آیا اور ملک بھر میں یہ دیکھا گیا کہ انتخابی مہم کے دوران ووٹروں نے امیدواروں کی کلاس لینی شروع کی اور ووٹ مانگنے والوں سے پوچھا کہ وہ پانچ سال کہاں تھے۔ آپ نے علاقے کے لوگوں کے لیے کیا کیا اور ان کے کون سے مسائل حل کرائے اور کچھ نہ کرنے پر اب آپ ہم سے کس منہ سے ووٹ مانگنے آئے ہیں؟
انتخابی مہم کے دوران ملک بھر سے اور خصوصاً سندھ اور پنجاب سے متعلق میڈیا یہ سب کچھ دکھاتا رہا جس میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی، اپوزیشن کے سابقہ لیڈر خورشید شاہ، سابق وفاقی وزیر سید نوید قمر، پنجاب کے سابق وفاقی وزیر سردار اویس لغاری سمیت مسلم لیگ، پیپلز پارٹی کے امیدواروں سمیت دیگر امیدوار بھی شامل تھے۔ جنھیں انتخابی مہم کے دوران اپنے ووٹروں کے کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
سید ہونے کی وجہ سے سید خورشید شاہ اور سید نوید قمر تو جیت گئے اور آغا سراج درانی بھی اپنی آبائی نشست اس صورت میں بچا پائے کہ ان کے مقابلے میں جی ڈی اے کا کوئی مضبوط امیدوار نہیں تھا۔ پی ٹی آئی نے اندرون سندھ کوئی توجہ نہ دی اور نہ انھیں کوئی مضبوط امیدوار ملا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے متعدد رہنما کامیابی حاصل کرسکے اور انھوں نے اپنے ووٹروں کے آگے ہاتھ جوڑے کہ بس آخری موقعہ اور دے دو آیندہ انھیں ایسی شکایت نہیں ملے گی۔
پنجاب میں ایک مثال ڈی جی خان کے سردار اویس لغاری کی ہے جنھوں نے ووٹرکوکہا کہ تمہاری یہ طاقت کہ اپنے سردار سے سوال پوچھ رہے ہو میں تمہارا سردار ہوں تم ایک ووٹ نہیں دو گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور فرق یہ پڑا کہ نوجوان سردار اپنے باپ کی آبائی نشست بھی نہ جیت سکا اور (ن) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن ہارگیا۔
سندھ اور پنجاب میں دس سال تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مضبوط حکومتیں رہیں۔ مسلم لیگ (ن) تو پانچ سال وفاقی حکومت میں بھی رہی مگر (ن) لیگ کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی مری کی اپنی آبائی اور اسلام آباد کی نشستوں پر ہار گئے۔ (ن) لیگ کے اہم رہنما پنجاب میں الیکشن ہار گئے جب کہ فیصل آباد میں کام کرانے والے مسلم لیگی اہم سابق وزیر رانا ثنا اللہ اپنی صوبائی نشست ہار گئے اور قومی اسمبلی کے لیے ضرور منتخب ہوگئے اور عوام نے انھیں ووٹ دیے۔
راولپنڈی ضلع کے تین قومی اسمبلی کے حلقوں سے مسلم لیگ (ن) کے سابق وفاقی وزیر داخلہ کو وفاق نے سب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز دیے تھے اور تین حلقوں میں انھوں نے سب سے زیادہ کام کرائے مگر قومی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہ کرسکے اور صرف پنجاب اسمبلی کی نشست جیت سکے۔ چوہدری نثار اہم وفاقی وزیر تھے جنھوں نے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام بھی سب سے زیادہ کرائے ، لیکن ان کی شکست کی ایک وجہ ان کا رویہ یا پھرعوام سے دور رہنا ہوسکتا ہے ، انھوں نے اپنی پارٹی سے ٹکٹ لینا بھی گوارا نہ کیا اور ان کی مقبولیت کا پول کھل گیا۔
ضلع مظفرگڑھ کی سیاست میں دس سال قبل عام آدمی کی حیثیت میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جمشید دستی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور پی پی کی وفاقی حکومت میں انھوں نے اپنے حلقے میں کام بھی بہت کرائے مگر تعلیمی ڈگری کے باعث انھوں نے مستعفی ہوکر دوبارہ انتخاب لڑا تھا اور کامیابی حاصل کی تھی۔ انھیں وفاقی حکومت نے عوام کے لیے بسیں بھی دی تھیں جو مظفر گڑھ اور شاہ جمال کے درمیان ووٹروں کو مفت سفرکراتی تھیں۔
جمشید دستی واحد عوامی منتخب نمایندے تھے جو لوگوں کو نہ صرف ہر وقت دستیاب ہوتے تھے ان کے فوری کام آتے تھے اور اپنا زیادہ وقت اپنے حلقے میں عوام کے ساتھ گزارتے تھے وہ ملک کے واحد غریب رکن قومی اسمبلی اور واقعی عوام کے حقیقی نمایندے تھے جو 2013 میں آزاد حیثیت میں دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور مسلم لیگ (ن) کی مخالفت اور عمران خان کی مخالفت کرتے رہے اور پانچ سال اپنے حلقوں میں کوئی خاص کام نہ کراسکے اور ووٹروں کو کہتے رہے کہ میں اپوزیشن میں ہوں حکومت فنڈز نہیں دے رہی۔
2018 میں جمشید دستی نے قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے الیکشن لڑا اور تینوں حلقوں میں شکست سے دوچار ہوئے۔ جمشید دستی کی شکست سے پتا چلا کہ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اپوزیشن یا حکومت سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں۔ چوہدری نثار سب سے زیادہ کام کرا کر ناکام رہے اور جمشید دستی کا اپوزیشن میں رہنے کے باعث کام نہ کروانے کا جواز عوام نے تسلیم نہیں کیا اور دس سال میں تین بار انھیں منتخب کرنے کے بعد تینوں حلقوں سے انھیں مسترد کردیا۔
چوہدری نثار جیسے بڑے نام اور جمشید دستی جیسے عام آدمی کی شکستوں سے عوام کے مزاج کا پتا چلتا ہے کہ وہ صرف ترقیاتی کاموں پر ہی ووٹ نہیں دیتے بلکہ اپنا نمایندہ بھی اپنے درمیان موجود چاہتے ہیں ۔ جمشید دستی 10 سال اپنے ووٹروں کے درمیان رہا اور 5 سال کوئی کام نہ کراسکا تو عوام نے انھیں مسترد کردیا۔ 2018 کے انتخابات میں پی پی اور (ن) لیگی رہنماؤں کو شکست ہوئی، کے پی کے ،کے مقابلے میں پنجاب میں بہترین ترقیاتی کام ہوئے جنھیں دنیا میں تسلیم کیا گیا مگر پی ٹی آئی اچھا کام نہ کرکے بھی کے پی کے میں دو تہائی اکثریت لے گئی اور مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اچھا کام کرکے بھی سادہ اکثریت نہ لے سکی۔
سندھ میں دس سال دعوے زیادہ کام کم اور کرپشن زیادہ ہوئی جس پر جی ڈی اے واویلا کرتی رہی مگر پھر بھی عوام نے اندرون سندھ پی پی کو اور کراچی میں تحریک انصاف کو زیادہ ووٹ دے کر کامیاب کرایا۔ سندھ میں پی پی کو آخری اور ملک میں پی ٹی آئی کو پہلا موقعہ ملا ہے اور دونوں کی کارکردگی کا فیصلہ آیندہ انتخابات میں عوام ہی کریں گے دیکھیں اب کون ڈلیورکرتا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ملک بھر سے اور خصوصاً سندھ اور پنجاب سے متعلق میڈیا یہ سب کچھ دکھاتا رہا جس میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی، اپوزیشن کے سابقہ لیڈر خورشید شاہ، سابق وفاقی وزیر سید نوید قمر، پنجاب کے سابق وفاقی وزیر سردار اویس لغاری سمیت مسلم لیگ، پیپلز پارٹی کے امیدواروں سمیت دیگر امیدوار بھی شامل تھے۔ جنھیں انتخابی مہم کے دوران اپنے ووٹروں کے کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
سید ہونے کی وجہ سے سید خورشید شاہ اور سید نوید قمر تو جیت گئے اور آغا سراج درانی بھی اپنی آبائی نشست اس صورت میں بچا پائے کہ ان کے مقابلے میں جی ڈی اے کا کوئی مضبوط امیدوار نہیں تھا۔ پی ٹی آئی نے اندرون سندھ کوئی توجہ نہ دی اور نہ انھیں کوئی مضبوط امیدوار ملا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے متعدد رہنما کامیابی حاصل کرسکے اور انھوں نے اپنے ووٹروں کے آگے ہاتھ جوڑے کہ بس آخری موقعہ اور دے دو آیندہ انھیں ایسی شکایت نہیں ملے گی۔
پنجاب میں ایک مثال ڈی جی خان کے سردار اویس لغاری کی ہے جنھوں نے ووٹرکوکہا کہ تمہاری یہ طاقت کہ اپنے سردار سے سوال پوچھ رہے ہو میں تمہارا سردار ہوں تم ایک ووٹ نہیں دو گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور فرق یہ پڑا کہ نوجوان سردار اپنے باپ کی آبائی نشست بھی نہ جیت سکا اور (ن) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن ہارگیا۔
سندھ اور پنجاب میں دس سال تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مضبوط حکومتیں رہیں۔ مسلم لیگ (ن) تو پانچ سال وفاقی حکومت میں بھی رہی مگر (ن) لیگ کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی مری کی اپنی آبائی اور اسلام آباد کی نشستوں پر ہار گئے۔ (ن) لیگ کے اہم رہنما پنجاب میں الیکشن ہار گئے جب کہ فیصل آباد میں کام کرانے والے مسلم لیگی اہم سابق وزیر رانا ثنا اللہ اپنی صوبائی نشست ہار گئے اور قومی اسمبلی کے لیے ضرور منتخب ہوگئے اور عوام نے انھیں ووٹ دیے۔
راولپنڈی ضلع کے تین قومی اسمبلی کے حلقوں سے مسلم لیگ (ن) کے سابق وفاقی وزیر داخلہ کو وفاق نے سب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز دیے تھے اور تین حلقوں میں انھوں نے سب سے زیادہ کام کرائے مگر قومی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہ کرسکے اور صرف پنجاب اسمبلی کی نشست جیت سکے۔ چوہدری نثار اہم وفاقی وزیر تھے جنھوں نے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام بھی سب سے زیادہ کرائے ، لیکن ان کی شکست کی ایک وجہ ان کا رویہ یا پھرعوام سے دور رہنا ہوسکتا ہے ، انھوں نے اپنی پارٹی سے ٹکٹ لینا بھی گوارا نہ کیا اور ان کی مقبولیت کا پول کھل گیا۔
ضلع مظفرگڑھ کی سیاست میں دس سال قبل عام آدمی کی حیثیت میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جمشید دستی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور پی پی کی وفاقی حکومت میں انھوں نے اپنے حلقے میں کام بھی بہت کرائے مگر تعلیمی ڈگری کے باعث انھوں نے مستعفی ہوکر دوبارہ انتخاب لڑا تھا اور کامیابی حاصل کی تھی۔ انھیں وفاقی حکومت نے عوام کے لیے بسیں بھی دی تھیں جو مظفر گڑھ اور شاہ جمال کے درمیان ووٹروں کو مفت سفرکراتی تھیں۔
جمشید دستی واحد عوامی منتخب نمایندے تھے جو لوگوں کو نہ صرف ہر وقت دستیاب ہوتے تھے ان کے فوری کام آتے تھے اور اپنا زیادہ وقت اپنے حلقے میں عوام کے ساتھ گزارتے تھے وہ ملک کے واحد غریب رکن قومی اسمبلی اور واقعی عوام کے حقیقی نمایندے تھے جو 2013 میں آزاد حیثیت میں دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور مسلم لیگ (ن) کی مخالفت اور عمران خان کی مخالفت کرتے رہے اور پانچ سال اپنے حلقوں میں کوئی خاص کام نہ کراسکے اور ووٹروں کو کہتے رہے کہ میں اپوزیشن میں ہوں حکومت فنڈز نہیں دے رہی۔
2018 میں جمشید دستی نے قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے الیکشن لڑا اور تینوں حلقوں میں شکست سے دوچار ہوئے۔ جمشید دستی کی شکست سے پتا چلا کہ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اپوزیشن یا حکومت سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں۔ چوہدری نثار سب سے زیادہ کام کرا کر ناکام رہے اور جمشید دستی کا اپوزیشن میں رہنے کے باعث کام نہ کروانے کا جواز عوام نے تسلیم نہیں کیا اور دس سال میں تین بار انھیں منتخب کرنے کے بعد تینوں حلقوں سے انھیں مسترد کردیا۔
چوہدری نثار جیسے بڑے نام اور جمشید دستی جیسے عام آدمی کی شکستوں سے عوام کے مزاج کا پتا چلتا ہے کہ وہ صرف ترقیاتی کاموں پر ہی ووٹ نہیں دیتے بلکہ اپنا نمایندہ بھی اپنے درمیان موجود چاہتے ہیں ۔ جمشید دستی 10 سال اپنے ووٹروں کے درمیان رہا اور 5 سال کوئی کام نہ کراسکا تو عوام نے انھیں مسترد کردیا۔ 2018 کے انتخابات میں پی پی اور (ن) لیگی رہنماؤں کو شکست ہوئی، کے پی کے ،کے مقابلے میں پنجاب میں بہترین ترقیاتی کام ہوئے جنھیں دنیا میں تسلیم کیا گیا مگر پی ٹی آئی اچھا کام نہ کرکے بھی کے پی کے میں دو تہائی اکثریت لے گئی اور مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اچھا کام کرکے بھی سادہ اکثریت نہ لے سکی۔
سندھ میں دس سال دعوے زیادہ کام کم اور کرپشن زیادہ ہوئی جس پر جی ڈی اے واویلا کرتی رہی مگر پھر بھی عوام نے اندرون سندھ پی پی کو اور کراچی میں تحریک انصاف کو زیادہ ووٹ دے کر کامیاب کرایا۔ سندھ میں پی پی کو آخری اور ملک میں پی ٹی آئی کو پہلا موقعہ ملا ہے اور دونوں کی کارکردگی کا فیصلہ آیندہ انتخابات میں عوام ہی کریں گے دیکھیں اب کون ڈلیورکرتا ہے۔