جمہوریت پر شب خوں
سنبھلنا اُنہی کو ہوگا آگے بھی، پیچھے بھی،جیسے حالیہ دنوں میں ایک نیاکیس آصف زرداری اوراُن کی ہمشیرہ کے خلاف کھولاگیا
ISLAMABAD:
لیکن پہلی مرتبہ نہیں مارا گیا، متعدد بار یہی ہوا،لہٰذا اس میں کوئی نئی بات بہرحال نہیں تھی۔ غالبًا پچھلے 50 برسوں میں با رہا اِس عمل کو دُہرایا گیا، دہرایا جاتا رہا، نتیجہ برآمد نہیں ہُوا جو شاید اس مرتبہ بھی نہ ہو لیکن اُن کی تسلی درکار ہے،اللہ کرکے ہوجائے ۔ قارئینِ کرام میں آپ کو یہ بتاکر بور نہیں کروں گا کہ دھاندلی کس طرح ہوئی کہاں کہاں ہوئی؟
اس پر ہزاروں کلپس آپ دیکھ چکے ہوں گے۔ ہزارہا ثبوت موجود ، طریقہ کار واضح۔ میں توآیندہ کے لائحہ عمل پرکچھ کہنا یا شاید جاننا چاہتا ہوں کیونکہ صاف دکھائی دے رہا ہے عمران خان بہت سی مشکلات کا شکار ہوتے صاف صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ انھیں ایک بہت بڑی اپوزیشن کا سامنا ہے ایسی اپوزیشن کا جس میں بلاشبہ کہنہ مشق سیاستدان،گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے بلکہ یہ کہا جائے کہ اُس پانی کے سارے کنویں ہی اُن کے کھودے ہوئے ہیں تو بھی غلط نہ ہوگا اور یہ وہی سیاستدان ہیں جو ایک فارسی کہاوت کے مطابق '' گُرگِ باراں دیدہ'' ہیں ۔
دیکھنا ہوگا کہ خانصاحب اشرافیہ کی جو زبان اپنے جلسوں، جلوسوں میں استعمال کرتے رہے اب اُس کا سامنا کس قدر اورکس طرح کریں گے؟ خندہ پیشانی سے یا تُو بہ تُو ہوکر ۔ اور یہ لہر جومُلک میں نئی اُٹھی ہے جس کا مظاہرہ ملک کے طول و عرض میں ہورہا ہے اُس کا سدباب کیسے ہوگا۔
قارئینِ کرام! اگرآپ کو یاد ہو اور میرے کالمزکے کچھ بھی قاری ہوں تو انھیں یاد ہوگا کہ میں نے اِنہی خُدشات کا اظہار اپنی گزشتہ تمام تحریروں میں کیا تھا کہ آپ جس کھیل کی انتہا کر رہے ہیں،کیونکہ ابتدا تو بہت پہلے کرچکے تھے وہ اب مزید ممکن نہیں آگے جاکر یہ ایک خوفناک شکل اختیارکرلے گا اور پھرکسی طور ممکن نہ ہوگا کہ کوئی اس کا علاج ڈھونڈسکے،لیکن ایک گمنام لکھاری کی صدا کسی کی سماعت تک پہنچنے سے محروم رہی اور وہی سب کچھ دہرایا گیا بلکہ اس بار بڑی دیدہ دلیری سے،دنیا شور مچاتی رہ گئی ،ارے یہ جنوبی پنجاب کے الکٹیبلزکہاں بھاگے جارہے ہیں، کون اِنہیں مجبورکررہا ہے،الیکشن سے ذرا ہی پہلے نواز شریف اور ان کی دخترکو سزا دینا کیوں ضروری ہے؟ ایک ہی جماعت سے سارے نا اہل کیوں برآمد ہو رہے ہیں؟ فیصلوں کی سمت مخصوص کیوں ہے؟
کوئی آواز نہ سنی گئی،اُدھر والوں نے جو طے کیا تھا اُس پر من وعن عمل کیا اور آخر الیکشن کے دو دن بعد یہ کہہ کر نتائج سے آگاہ کردیا کہ بھائیو، سوری مشینیں کام چھوڑگئی تھیں، لیکن ہوجاتا ہے ،کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں، پولنگ ایجنٹ سات بجے کیوں نکال دیے؟ فارم 45 کیوں نا دیا؟ اجی خود ہی نہ لیا جو ہار رہے تھے فارم چھوڑ چھوڑکر بھاگ گئے ۔ لو جی سوال بھی ہوگئے جواب بھی، اب کس بات کی چنتا ۔شور مچانے والے اب تک شورمچا رہے ہیں لیکن مرغا حلال ہوا ہے ٹھنڈا ہونے میں کچھ وقت تو لے گا ۔
میری سمجھ میں آج تک یہ فلاسفی نہیں آئی کہ یہ کیسا شوق ہے، پہلے آپ انھیں لاتے ہیں، سر چڑھاتے ہیں، مال کھلاتے ہیں، موٹا تازہ کرتے ہیں پھر اُن کا شکارکرتے ہیںاوروہ شکار ہونے والے بھی خوب سج دھج کے ساتھ شکار ہوتے ہیں۔
اب یہ کہنا یا سوچنا کہ دنیا کے متمدن معاشرے ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں، اہلِ جمہور میں ہماری پوزیشن کیا ہے، حماقت ہے،کوئی کچھ بھی کہتا رہے پاکستان ہزار سال پیچھے چلاجائے، قوم برباد ہوجائے، شخصی اکائیاں ٹوٹ جائیں،کیا فرق پڑتا ہے ملک تو ابھی موجود ہے نا،اب لوگ پاگل ہیں جو اپنے ہی محافظوںکو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں، حد ہوگئی کہ دہشت گردی کی وجہ قرار دے رہے ہیں، لوگ تو پاگل ہیں ۔ اُدھر اِنصاف کا ترازو ... اُف اُف اُف، پلڑا جھکا ہوا نہیں بلکہ پلڑا ہی ایک ہے، دوسرا ہے ہی نہیں ۔ بقولِ شاعر ۔
یہ روزکی خوں ریزی،یہ روز کے ہنگامے
عادت ہی بنالی ہے،گلشن کے نگہباں نے
ریاست کے اندر ریاست نہیں، ریاست کے اُوپر ریاست ہے،اب پارلمنٹ قانون ساز ادارہ نہیں بلکہ کوئی اور ہے، '' اگر قانون بر روئے زمیں است ۔۔تمہی است و تمہی است و تمہی است ۔ قوم تبدیلی کی بارشوں کی منتظراک ذرا بھیگ لیں لیکن لگتا نہیں، بالکل نہیں لگتا ،سینیٹ کی صورتحال بھی بدل گئی ،شاید صدرِ پاکستان بھی اپوزیشن سے ہوں، پنجاب آدھوں آدھ پر کھڑا ہے، بلوچستان کی اپنی وہی منطق ، سندھ پی پی پی کی راجدھانی ہے۔
مرکز ، مرکزی نہیں، تو عوام کی تبدیلی کی تو بس ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ جو بھائی لوگ اس تبدیلی کے داعی ہیں وہی اِسے بچائیں بھی،اس کی حفاظت بھی کریں اور بھگائیں لکّڑ بھگّوں کو،کھول دیں نئی فائلیں،جیل جیل کھیلیں ہاں تب ممکن ہے کہ بہتیرے صاحبان قدر دان اپنی عارضی مدت کو دائمی کرسکیں یہی کوئی بیس، پچیس سال ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکیں۔
سنبھلنا اُنہی کو ہوگا آگے بھی ، پیچھے بھی ،جیسے حالیہ دنوں میں ایک نیا کیس آصف علی زرداری اوراُن کی ہمشیرہ کے خلاف کھولاگیا ،جس میں انھیں ایک سیدھا سادھا سا راستہ دکھانے کی کوشش بھی کی ہے،اللہ کرے دونوں بہن بھائی بات کو سمجھ جائیں اور ابھی تو ابتدا ہے آگے جاکر تو جوآج الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کر رہے ہیں، اُن کے ساتھ بہت کچھ ہونا ہے بڑی لاٹھیاں پڑیں گی، بچنے کی بھی صورت ہے۔
حکومت کا ساتھ دیں ،اُس کے ہاتھ مضبوط کریں جیسے مغل بادشاہ اکبرکے زمانے میں آزادی اظہارکی مکمل اجازت تھی لیکن شرط بس اتنی سی تھی کہ وہ بادشاہ کی حمایت میں ہو۔ اس نظام کو اگرکوئی سمجھا ہے تو اپنے شیخ رشید،بھئی غضب کی دانش مندی پائی ہے موصوف نے۔
عمران خان جنہوں نے کرک میں اپنے ایک حالیہ خطاب میں آزاد اراکین کے بارے میں فرمایا کہ یہ اس ملک کے سب سے بڑے بلیک میلر ہیں یہ الیکشن لڑتے ہی اپنی قیمت لگوانے کے لیے ہیں،مزید کہا کہ اگر ایسے لوگ الیکشن میں جیت بھی جائیں تو براہِ کرم میرے پاس ناآئیں یا ایم کیو ایم کے لیے ان کے فرمودات ،اب کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں وہ تو ایک پوری انڈسٹری ہیں اور اب تو روحانیت بھی اُن کے ہمراہ ہے گویا کب کس آسمان پر ہیں کسے خبر ؟تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ قوم کی امیدیں تب ہی پوری ہوسکتی ہیں جب بہت اُوپر والے جو موجودہ صورتحال کے خالق ہیں۔ پی ٹی آئی کے اس نوخیز،کمسن، نووارد ،حکومت کو سنبھالا دیں اور آخرکیوں نہ دیں گے ۔مفت ہوئے بدنام کسی کو ہائے، دل سے لگا کے...
کل ہی کی بات ہے ،سعد رفیق کے جس حلقے کا نتیجہ لاہور ہائی کورٹ نے روک کر دوبارہ گنتی کا حکم دیا تھا ،عمران خان جن کی شہرہ آفاق تقریر میں کہا گیا تھا اپوزیشن جس حلقے کوکھلوانا چاہے ہم تیار ہیں لیکن وہ تو وہ ہیں بھول گئے اور اسی بھول میں ان کے پاس جا پہنچے، فی الفور حکم نامہ منسوخ ہوا ۔مجھے یہ ایک گھرکی کہانی لگتی ہے جہاں پورا گھرانہ ایک دوسرے سے جڑا ہے اور بہت مخلص دکھائی دیتا ہے اپنے اہلِ خانہ کے لیے۔ تو پھرکیسی اپوزیشن،کیسی جماعتیں ،کہاں کی جمہوریت ،ایک ڈکٹیٹر شپ ہے ،بد ترین ڈکٹیٹر شپ ۔ جو شاید پاکستان کا مقدر ہے یا شاید یہی پاکستان ہے اور یہ کبھی بدلے گا،ایسی کوئی امیدکم ازکم مجھے تو اب نہیں رہی ۔
ممکن ہے ہم بھی کوئی جمہوری قوم نہ ہوں، ہماری ضرورت بھی یہی ہو، تبھی تو ہم بولتے نہیں آواز نہیں اٹھاتے، ایک قوم کی صورت نہیں ڈھلتے ۔ہوسکتا ہے ہم ایک ایسی قوم ہوں جسے مرغے لڑانے کا شوق ہے، جیسے اس بار بھی لڑائے ۔یعنی جو مسلم لیگ ن کے ووٹر تھے انھیں نہیں پتہ تھا کہ وہ کس بنیاد پر مسلم لیگ کو سپورٹ کررہے ہیں اسی طرح پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے چاہنے والے،عوام کے سر پر جو دھن سوار تھی وہ بس اتنی کہ ان کا امیدوار جیت جائے ان کی جماعت کامیاب ہو یا ان کے مرغے فتح یاب ہوں اور جس کے مرغے ہارگئے وہ مارے افسوس کئی دن گھر سے نہ نکلے۔ہمیں خبر ہی نہیں کہ ملک کس طرح بنتے ہیں، قومیں کس طرح بنتی سنورتی ہیں ؟ ہم شاید قوم تو درکنارکوئی گروہ بھی نہیں جو اپنے خانوادے کے لیے لڑتا ہے۔
بہرحال ان سب سے قطع نظر جو لاتے ہیں، لائے ہیں ان کا شکریہ کہ چہرہ بدل کر لائے ہیں، وہی چہرے دیکھ دیکھ کر طبیعت اکتا سی گئی تھی۔گویا حالات بدلیں نہ بدلیں چہرہ تو بدلا۔ لہٰذا عمران خان ہم آپ کے ساتھ ہیں، تبدیلی کے ساتھ ہیں وہ کیا کہتے ہیں'' تبدیلی آ نہیں رہی ، تبدیلی آگئی ہے۔''
لیکن پہلی مرتبہ نہیں مارا گیا، متعدد بار یہی ہوا،لہٰذا اس میں کوئی نئی بات بہرحال نہیں تھی۔ غالبًا پچھلے 50 برسوں میں با رہا اِس عمل کو دُہرایا گیا، دہرایا جاتا رہا، نتیجہ برآمد نہیں ہُوا جو شاید اس مرتبہ بھی نہ ہو لیکن اُن کی تسلی درکار ہے،اللہ کرکے ہوجائے ۔ قارئینِ کرام میں آپ کو یہ بتاکر بور نہیں کروں گا کہ دھاندلی کس طرح ہوئی کہاں کہاں ہوئی؟
اس پر ہزاروں کلپس آپ دیکھ چکے ہوں گے۔ ہزارہا ثبوت موجود ، طریقہ کار واضح۔ میں توآیندہ کے لائحہ عمل پرکچھ کہنا یا شاید جاننا چاہتا ہوں کیونکہ صاف دکھائی دے رہا ہے عمران خان بہت سی مشکلات کا شکار ہوتے صاف صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ انھیں ایک بہت بڑی اپوزیشن کا سامنا ہے ایسی اپوزیشن کا جس میں بلاشبہ کہنہ مشق سیاستدان،گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے بلکہ یہ کہا جائے کہ اُس پانی کے سارے کنویں ہی اُن کے کھودے ہوئے ہیں تو بھی غلط نہ ہوگا اور یہ وہی سیاستدان ہیں جو ایک فارسی کہاوت کے مطابق '' گُرگِ باراں دیدہ'' ہیں ۔
دیکھنا ہوگا کہ خانصاحب اشرافیہ کی جو زبان اپنے جلسوں، جلوسوں میں استعمال کرتے رہے اب اُس کا سامنا کس قدر اورکس طرح کریں گے؟ خندہ پیشانی سے یا تُو بہ تُو ہوکر ۔ اور یہ لہر جومُلک میں نئی اُٹھی ہے جس کا مظاہرہ ملک کے طول و عرض میں ہورہا ہے اُس کا سدباب کیسے ہوگا۔
قارئینِ کرام! اگرآپ کو یاد ہو اور میرے کالمزکے کچھ بھی قاری ہوں تو انھیں یاد ہوگا کہ میں نے اِنہی خُدشات کا اظہار اپنی گزشتہ تمام تحریروں میں کیا تھا کہ آپ جس کھیل کی انتہا کر رہے ہیں،کیونکہ ابتدا تو بہت پہلے کرچکے تھے وہ اب مزید ممکن نہیں آگے جاکر یہ ایک خوفناک شکل اختیارکرلے گا اور پھرکسی طور ممکن نہ ہوگا کہ کوئی اس کا علاج ڈھونڈسکے،لیکن ایک گمنام لکھاری کی صدا کسی کی سماعت تک پہنچنے سے محروم رہی اور وہی سب کچھ دہرایا گیا بلکہ اس بار بڑی دیدہ دلیری سے،دنیا شور مچاتی رہ گئی ،ارے یہ جنوبی پنجاب کے الکٹیبلزکہاں بھاگے جارہے ہیں، کون اِنہیں مجبورکررہا ہے،الیکشن سے ذرا ہی پہلے نواز شریف اور ان کی دخترکو سزا دینا کیوں ضروری ہے؟ ایک ہی جماعت سے سارے نا اہل کیوں برآمد ہو رہے ہیں؟ فیصلوں کی سمت مخصوص کیوں ہے؟
کوئی آواز نہ سنی گئی،اُدھر والوں نے جو طے کیا تھا اُس پر من وعن عمل کیا اور آخر الیکشن کے دو دن بعد یہ کہہ کر نتائج سے آگاہ کردیا کہ بھائیو، سوری مشینیں کام چھوڑگئی تھیں، لیکن ہوجاتا ہے ،کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں، پولنگ ایجنٹ سات بجے کیوں نکال دیے؟ فارم 45 کیوں نا دیا؟ اجی خود ہی نہ لیا جو ہار رہے تھے فارم چھوڑ چھوڑکر بھاگ گئے ۔ لو جی سوال بھی ہوگئے جواب بھی، اب کس بات کی چنتا ۔شور مچانے والے اب تک شورمچا رہے ہیں لیکن مرغا حلال ہوا ہے ٹھنڈا ہونے میں کچھ وقت تو لے گا ۔
میری سمجھ میں آج تک یہ فلاسفی نہیں آئی کہ یہ کیسا شوق ہے، پہلے آپ انھیں لاتے ہیں، سر چڑھاتے ہیں، مال کھلاتے ہیں، موٹا تازہ کرتے ہیں پھر اُن کا شکارکرتے ہیںاوروہ شکار ہونے والے بھی خوب سج دھج کے ساتھ شکار ہوتے ہیں۔
اب یہ کہنا یا سوچنا کہ دنیا کے متمدن معاشرے ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں، اہلِ جمہور میں ہماری پوزیشن کیا ہے، حماقت ہے،کوئی کچھ بھی کہتا رہے پاکستان ہزار سال پیچھے چلاجائے، قوم برباد ہوجائے، شخصی اکائیاں ٹوٹ جائیں،کیا فرق پڑتا ہے ملک تو ابھی موجود ہے نا،اب لوگ پاگل ہیں جو اپنے ہی محافظوںکو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں، حد ہوگئی کہ دہشت گردی کی وجہ قرار دے رہے ہیں، لوگ تو پاگل ہیں ۔ اُدھر اِنصاف کا ترازو ... اُف اُف اُف، پلڑا جھکا ہوا نہیں بلکہ پلڑا ہی ایک ہے، دوسرا ہے ہی نہیں ۔ بقولِ شاعر ۔
یہ روزکی خوں ریزی،یہ روز کے ہنگامے
عادت ہی بنالی ہے،گلشن کے نگہباں نے
ریاست کے اندر ریاست نہیں، ریاست کے اُوپر ریاست ہے،اب پارلمنٹ قانون ساز ادارہ نہیں بلکہ کوئی اور ہے، '' اگر قانون بر روئے زمیں است ۔۔تمہی است و تمہی است و تمہی است ۔ قوم تبدیلی کی بارشوں کی منتظراک ذرا بھیگ لیں لیکن لگتا نہیں، بالکل نہیں لگتا ،سینیٹ کی صورتحال بھی بدل گئی ،شاید صدرِ پاکستان بھی اپوزیشن سے ہوں، پنجاب آدھوں آدھ پر کھڑا ہے، بلوچستان کی اپنی وہی منطق ، سندھ پی پی پی کی راجدھانی ہے۔
مرکز ، مرکزی نہیں، تو عوام کی تبدیلی کی تو بس ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ جو بھائی لوگ اس تبدیلی کے داعی ہیں وہی اِسے بچائیں بھی،اس کی حفاظت بھی کریں اور بھگائیں لکّڑ بھگّوں کو،کھول دیں نئی فائلیں،جیل جیل کھیلیں ہاں تب ممکن ہے کہ بہتیرے صاحبان قدر دان اپنی عارضی مدت کو دائمی کرسکیں یہی کوئی بیس، پچیس سال ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکیں۔
سنبھلنا اُنہی کو ہوگا آگے بھی ، پیچھے بھی ،جیسے حالیہ دنوں میں ایک نیا کیس آصف علی زرداری اوراُن کی ہمشیرہ کے خلاف کھولاگیا ،جس میں انھیں ایک سیدھا سادھا سا راستہ دکھانے کی کوشش بھی کی ہے،اللہ کرے دونوں بہن بھائی بات کو سمجھ جائیں اور ابھی تو ابتدا ہے آگے جاکر تو جوآج الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کر رہے ہیں، اُن کے ساتھ بہت کچھ ہونا ہے بڑی لاٹھیاں پڑیں گی، بچنے کی بھی صورت ہے۔
حکومت کا ساتھ دیں ،اُس کے ہاتھ مضبوط کریں جیسے مغل بادشاہ اکبرکے زمانے میں آزادی اظہارکی مکمل اجازت تھی لیکن شرط بس اتنی سی تھی کہ وہ بادشاہ کی حمایت میں ہو۔ اس نظام کو اگرکوئی سمجھا ہے تو اپنے شیخ رشید،بھئی غضب کی دانش مندی پائی ہے موصوف نے۔
عمران خان جنہوں نے کرک میں اپنے ایک حالیہ خطاب میں آزاد اراکین کے بارے میں فرمایا کہ یہ اس ملک کے سب سے بڑے بلیک میلر ہیں یہ الیکشن لڑتے ہی اپنی قیمت لگوانے کے لیے ہیں،مزید کہا کہ اگر ایسے لوگ الیکشن میں جیت بھی جائیں تو براہِ کرم میرے پاس ناآئیں یا ایم کیو ایم کے لیے ان کے فرمودات ،اب کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں وہ تو ایک پوری انڈسٹری ہیں اور اب تو روحانیت بھی اُن کے ہمراہ ہے گویا کب کس آسمان پر ہیں کسے خبر ؟تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ قوم کی امیدیں تب ہی پوری ہوسکتی ہیں جب بہت اُوپر والے جو موجودہ صورتحال کے خالق ہیں۔ پی ٹی آئی کے اس نوخیز،کمسن، نووارد ،حکومت کو سنبھالا دیں اور آخرکیوں نہ دیں گے ۔مفت ہوئے بدنام کسی کو ہائے، دل سے لگا کے...
کل ہی کی بات ہے ،سعد رفیق کے جس حلقے کا نتیجہ لاہور ہائی کورٹ نے روک کر دوبارہ گنتی کا حکم دیا تھا ،عمران خان جن کی شہرہ آفاق تقریر میں کہا گیا تھا اپوزیشن جس حلقے کوکھلوانا چاہے ہم تیار ہیں لیکن وہ تو وہ ہیں بھول گئے اور اسی بھول میں ان کے پاس جا پہنچے، فی الفور حکم نامہ منسوخ ہوا ۔مجھے یہ ایک گھرکی کہانی لگتی ہے جہاں پورا گھرانہ ایک دوسرے سے جڑا ہے اور بہت مخلص دکھائی دیتا ہے اپنے اہلِ خانہ کے لیے۔ تو پھرکیسی اپوزیشن،کیسی جماعتیں ،کہاں کی جمہوریت ،ایک ڈکٹیٹر شپ ہے ،بد ترین ڈکٹیٹر شپ ۔ جو شاید پاکستان کا مقدر ہے یا شاید یہی پاکستان ہے اور یہ کبھی بدلے گا،ایسی کوئی امیدکم ازکم مجھے تو اب نہیں رہی ۔
ممکن ہے ہم بھی کوئی جمہوری قوم نہ ہوں، ہماری ضرورت بھی یہی ہو، تبھی تو ہم بولتے نہیں آواز نہیں اٹھاتے، ایک قوم کی صورت نہیں ڈھلتے ۔ہوسکتا ہے ہم ایک ایسی قوم ہوں جسے مرغے لڑانے کا شوق ہے، جیسے اس بار بھی لڑائے ۔یعنی جو مسلم لیگ ن کے ووٹر تھے انھیں نہیں پتہ تھا کہ وہ کس بنیاد پر مسلم لیگ کو سپورٹ کررہے ہیں اسی طرح پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے چاہنے والے،عوام کے سر پر جو دھن سوار تھی وہ بس اتنی کہ ان کا امیدوار جیت جائے ان کی جماعت کامیاب ہو یا ان کے مرغے فتح یاب ہوں اور جس کے مرغے ہارگئے وہ مارے افسوس کئی دن گھر سے نہ نکلے۔ہمیں خبر ہی نہیں کہ ملک کس طرح بنتے ہیں، قومیں کس طرح بنتی سنورتی ہیں ؟ ہم شاید قوم تو درکنارکوئی گروہ بھی نہیں جو اپنے خانوادے کے لیے لڑتا ہے۔
بہرحال ان سب سے قطع نظر جو لاتے ہیں، لائے ہیں ان کا شکریہ کہ چہرہ بدل کر لائے ہیں، وہی چہرے دیکھ دیکھ کر طبیعت اکتا سی گئی تھی۔گویا حالات بدلیں نہ بدلیں چہرہ تو بدلا۔ لہٰذا عمران خان ہم آپ کے ساتھ ہیں، تبدیلی کے ساتھ ہیں وہ کیا کہتے ہیں'' تبدیلی آ نہیں رہی ، تبدیلی آگئی ہے۔''