مذہبی جماعتیں اور متحدہ محاذ
یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ملک میں پہلی بار ایک مخلص مڈل کلاس کا نمایندہ برسر اقتدار آرہا ہے۔
متحدہ مجلس عمل مڈل کلاس کے کارکنوں اور رہنماؤں پر مشتمل ہے۔ رہنماؤں کی شہرت بھی اچھی ہے ان پر کرپشن وغیرہ کے الزامات بھی نہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں نسبتاً مذہبی جماعتیں نیک نام ہی رہی ہیں۔ اس کے باوجود سوائے 2002 کے الیکشن کے مذہبی جماعتیں کسی الیکشن میں اتنی کامیابی حاصل نہ کرسکیں کہ مرکز یا صوبوں میں حکومت بناسکیں البتہ پختونخوا میں تحریک انصاف کے ساتھ اقتدار میں شامل رہیں اور ضیا الحق کے غیر جمہوری آمرانہ دور میں ضیا الحق حکومت کا حصہ بنی رہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی اچھی شہرت رکھنے والی متحدہ مجلس عمل سے عوام اس قدردورکیوں ہیں ، اصولاً مذہبی جماعتوں کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غورکرکے اس بات کا پتا لگانا چاہیے کہ عوام مذہبی جماعتوں سے اس قدر دورکیوں ہیں جب کہ جماعت اسلامی سمیت تمام مذہبی جماعتوں کے منشور کا ابتدائیہ ہی پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ ہماری ناقص رائے میں اصل حقیقت یہ نظر آتی ہے کہ پاکستان کے مسلمان اپنے دینی فرائض ادا کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں اور حسب توفیق دینی فرائض بھی ادا کرتے ہیں۔
دنیا میں لگ بھگ 57 مسلم ممالک ہیں اور سوائے سعودی عرب کے کسی مسلم ملک میں اسلامی نظام نافذ نہیں وہاں بھی زیادہ تر تعزیری قوانین نافذ ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کے عوام کا اصل مسئلہ اقتصادی پسماندگی کا ہے۔ ملک کے بائیس کروڑ عوام دو وقت کی روٹی کے لیے دن بھر محنت کرتے ہیں اور ایک چھوٹی سی کلاس عوام کی محنت کی کمائی قومی دولت کے 80 فیصد حصے پر قابض ہے جو اسلامی اخلاقیات اور اقتصادیات کے برعکس ہے، مذہبی جماعتیں عوام کی پسماندگی غربت اور مفلوک الحالی پر بہت کم توجہ دیتی ہیں جس کی وجہ سے عوام کی مذہبی جماعتوں سے لاتعلقی فطری بات ہے۔
ہمارا ملک طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہے ایک طرف 80 فیصد سے زیادہ وہ عوام ہیں جو 70 سالوں سے غربت ناداری اور بے کاری کی چکی میں پس رہے ہیں اور دوسری طرف صرف دو فیصد وہ طبقہ امرا ہے جو عوام کی محنت کی کمائی یعنی قومی دولت کے 80 فیصد حصے پر قابض ہے اور دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہا ہے۔ عوام اس ظلم کو بھی دیکھتے ہیں اور اس ظلم کے خلاف کون بڑھ چڑھ کر آواز اٹھا رہا ہے اس کو بھی دیکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے دینی جماعتیں اس طبقاتی استحصال کے خلاف بہت کم بولتی ہیں۔ ہمارا ملک ستر برس سے سخت طبقاتی استحصال کا شکار ہے۔
مڈل کلاس کی جماعتیں ہونے کی وجہ دینی جماعتوں کی یہ اولین ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو اس طبقاتی استحصال سے بچانے کو اپنی پہلی ذمے داری سمجھیں اور طبقاتی استحصال کے خلاف ایک منظم تحریک چلائیں۔ اس حوالے سے مذہبی جماعتوں کے پاس ایک بہترین جواز یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم نہ سرمایہ دار تھے نہ جاگیردار، اور ہم 71 سال سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ سنت رسول پر چلنے کا اس سے بہتر طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف عوام میں طبقاتی شعور پیدا کریں اگر دینی جماعتیں آواز اٹھائیں تو یقینا عوام ان کی طرف متوجہ ہوں گے۔
کرپشن ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، ملک کا سابق وزیراعظم جیل میں بند ہے دونوں صاحبزادوں پر بھی بھاری کرپشن کے الزامات ہیں۔ کیا مذہبی جماعتوں نے کرپشن کے خلاف کوئی تحریک چلائی، یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ملک میں پہلی بار ایک مخلص مڈل کلاس کا نمایندہ برسر اقتدار آرہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتیں احتساب کو انتقام کا نام دے کر کرپٹ اشرافیہ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
عمران خان ان کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے، بعض مولوی حضرات عمران خان سے بوجوہ الرجک ہیں اور ہر حال میں عمران کو اقتدار میں آنے سے روکنا چاہتے ہیں ۔ اس حوالے سے بہانہ یہ بنایا گیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور اس مبینہ دھاندلی کے خلاف ایک بڑا متحدہ محاذ بنایا گیا ہے جس کے روح رواں ایک ایسی مذہبی شخصیت ہے جو عمران خان کے خلاف برسوں سے برسر پیکار ہے۔
پاکستان پر اشرافیہ کا قبضہ ہے اور سابق وزیر اعظم اور ان کا خاندان احتساب کی زد میں ہے۔ ابھی ابھی بننے والا اپوزیشن کا اتحاد عمران خان کو اقتدار میں آتا نہیں دیکھنا چاہتا جب کہ عمران خان پر کرپشن کے کوئی الزامات نہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں متحدہ محاذ عمران خان کے خلاف تحریک چلا کر کس کی حمایت کر رہا ہے اور کس کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے؟ اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کے اس اتحاد کی روح رواں مذہبی جماعتیں ہیں۔
روایت کے مطابق 2013 کے الیکشن میں دھاندلیوں کے ریکارڈ توڑے گئے جس کے خلاف عمران خان اکیلا لڑتا رہا۔ کیا دھاندلیوں کے خلاف آج متحدہ محاذ بناکر عمران خان کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی کوشش کرنے والوں کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ 2013 میں بھی دھاندلیوں کے خلاف متحدہ محاذ بناتے یا عمران خان کے ساتھ جڑ جاتے ، ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ عمران خان ارب پتی یا کھرب پتی نہیں ہے، ایک مڈل کلاس آدمی ہے اور ملک سے ان طاقتوں کا صفایا کرنا چاہتا ہے جو 70 سال سے ملک کو لوٹ رہی ہیں۔