نئے پاکستان کا پرانا یوم آزادی

آج اس قدر شورِِ خوش امیدی برپا ہے کہ سوچتا ہوں خوش امیدی کے ماتھے پر کالا ٹیکہ لگا دوں۔


Wasat Ullah Khan August 14, 2018

سب سے پہلے والے چودہ اگست سے ہر نئی امید باندھی گئی تھی۔ مثلاً یہ ملک چونکہ ایک ستائی ہوئی اقلیت نے بنایا ہے اس لیے اس ملک میں کسی کو کسی کے ہاتھوں ستایا جانا برداشت نہیں ہو گا۔ یہ ملک ایک وکیل نے قانونی لڑائی جیت کر حاصل کیا لہذا یہاں قانون شکنی یا قانون کو باندی کی طرح استعمال کرنے کی ریت کی پرورش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ملک برِصغیر کے کسی ایک خطے کی کسی مخصوص آبادی یا گروہ یا ادارے نے نہیں بلکہ ہر خطے کے لوگوں کی کوششوں سے وجود میں آیا ہے۔

پہلے چودہ اگست پر نئے ملک کے نت نئے شہریوں کو یقین تھا کہ یہ مملکت کسی سیٹھ کی ذاتی لمیٹڈ کمپنی نہیں بلکہ اس ملک کی اجتماعی روح پاکستان ٹرسٹ کے طوطے میں بند ہے۔ اس ٹرسٹ میں ہر ایک کے شیئرز ہیں۔ ان شیئرز کا بھاؤ گرا تو نقصان برابر کا اور بھاؤ چڑھا تو منافع برابر کا۔ کسی ایک گروہ یا ادارے یا شخص کو اجازت نہ ہو گی کہ وہ پاکستان ٹرسٹ کے اکیاون فیصد حصص خرید لے اور پھر من مانی سے مرضی کا بورڈ آف ٹرسٹیز مسلط کر دے یا کسی غیر ملکی کو دیگر ٹرسٹیوں کی مرضی پوچھے بنا شیئرز فروخت کرے یا علاقائی و بین الاقوامی بازار میں منافع کے سبز باغ میں آ کر یا دکھا کر پورا ٹرسٹ سٹے پر لگا دے۔

مگر اگلے چھبیس برس وہ سب ہوا جو ہرگز ہرگز برداشت نہیں ہونا تھا۔ چودہ اگست انیس سو تہتر کو پھر ایک نیا پاکستان ٹرسٹ نئے ضوابط مرتب کر کے باقی ماندہ حصص یافتگان کو اعتماد میں لے کر تشکیل دیا گیا۔ کم و بیش وہی امیدیں ، ویسی ہی قسمیں جیسی سب سے پہلے والے چودہ اگست کو کھائی گئی تھیں۔ نئے ٹرسٹ کے شیئرز کی من مانی تجارت روکنے کے لیے چارٹر میں کچھ نئی پابندیوں کا اضافہ کیا گیا۔ پھر بھی وہی سب ہوا جو ہرگز ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔

آج پھر ویسا ہی چودہ اگست بتایا جا رہا ہے جیسا بہتر یا پینتالیس برس پہلے کے چودہ اگست کو بتایا جا رہا تھا۔ہم یہ کر دیں گے، وہ کردیں گے، ہم یہ ضررو کریں گے مگر وہ ہرگز ہرگز نہیں کریں گے۔ اس بار بھی بورڈ آف ٹرسٹیز کے نئے چیئرمین کے بارے میں ویسا ہی کچھ کہا جا رہا ہے جو پچھلوں کے بارے میں ان کے منہ پر کہا جاتا رہا۔

یعنی مخلص ہے، جواں حوصلہ ہے، نئے آئیڈیاز اور منطقی خوابوں سے مالامال ہے، قوم پرست ہے، ایمانداری کوٹ کوٹ کے بھری ہے، کسی کی ناجائز نہیں سنتا، فیصلے ذات کے لیے نہیں اجتماعی فائدے کے لیے کرے گا، خوشامد و نا اہلی کا دشمن اور میرٹ نواز ہے، اوپر سے نیچے تک اپنے پرائے کے بلا امتیاز احتساب پر یقین رکھتا ہے، مالی اعتبار سے بے داغ ہے، وعدے کا پکا، ایک بار کمٹمنٹ کر لے تو پھر اپنی بھی نہیں سنتا، انسان کا درد کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے، جب ٹرسٹ کا چیئرمین نہیں تھا تب بھی فلاحی منصوبوں کی تکمیل سے منہ نہیں موڑا۔

بس اب تک جو ہوا سو ہوا۔ ماضی کو پیٹنے سے کیا فائدہ، اب سے رونا گانا بند، ٹرسٹ کے چیئرمین اور نئے بورڈ آف ٹرسٹیز کا بھرپور ساتھ دیجیے۔آپ چند ماہ میں دیکھئے گا کہ آپ کے شیئرز کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچتی ہیں۔ جب یہ منزل آئے تو بہتر برس پہلے والے چودہ اگست کو ضرور یاد کیجیے گا جہاں سے آپ نے اوپر کی جانب سفر شروع کرنے کا ارادہ باندھا تھا۔

آج اس قدر شورِِ خوش امیدی برپا ہے کہ سوچتا ہوں خوش امیدی کے ماتھے پر کالا ٹیکہ لگا دوں، بازو پر امام ضامن باندھ دوں اور لال مرچیں جلا کر اس کے کاندھوں پر سے وار دوں۔ ویسے بھی ہمارے پاس اب خوش امیدی کے سوا بچا کیا ہے؟

آج سوائے اس کے کون سی دعا یاد رکھی جائے کہ اے پروردگار جنہوں نے آج تک اس ٹرسٹ کے کسی منتخب چیئر پرسن کو مدت پوری نہیں کرنے دی اور اسے مسلسل کمپنیز ایکٹ کے پیچیدہ شق وار جنگل اور اسمال پرنٹ میں الجھائے رکھا۔اس بار انھیں باز رہنے اور اپنے اصل کام سے کام رکھنے کی توفیق عطا فرما۔

وہ ہر قدم پر بورڈ آف ٹرسٹیز کو یہ نہ کہتے پھریں کہ بچ کے، سنبھل کے، یہاں قدم مت رکھو، دائیں مت مڑو، اس بل میں ہاتھ نہ ڈالو کہیں سانپ نہ نکل آئے، ارے رکو بنا بتائے کدھر کو چل پڑے، ذرا ہم سے مشورہ تو کر لو، اتنے تیز کیوں چل رہے ہو، بارش ہونے والی ہے، یہ لو چھتری،ارے دھیان سے آگے کیچڑ ہے، ہاتھ پاؤں گندے ہو جائیں گے، یہ لو صابن اور فوراً نہا لو، اچھا صابن ہے ننائوے فیصد جراثیم مار دیتا ہے تم نے اشتہار تو دیکھا ہوگا، تھک گئے ہو تو ذرا دم لے لو، یہ مشروب پی لو، تھوڑی نیند آجائے گی اور تھکاوٹ بھی اتر جائے گی، بن داس سو جاؤ، میں ہوں نا نگرانی کے لیے۔

خدا کے لیے اب ٹرسٹیوں کو بچہ سمجھنا بند کرو،کھلی فضا میں سانس لینے دو، ہٹا لو اپنی چھتری، بارش میں نہانے دو، بخار ہونے دو، خود ٹھیک ہو جائیں گے جب جسم کا مدافعتی نظام ڈویلپ ہونے کی اجازت دو گے اور ہر چھینک پر اینٹی بائیوٹک نہیں ٹھنسواؤ گے۔کیچڑ میں نہانے دو، تم نے مڈ باتھ سنا تو ہوگا، مٹی میں نہانے سے چہرہ تازہ ہو جاتا ہے۔ ہمیں کھل کے قہقہہ لگائے مدتیں بیت گئیں، تم آگے پیچھے منڈلاتے رہو گے، ہماری آیا، انا، اتالیق بنے رہو گے تو ہم کیسے کھل کے ہنسیں گے۔

بہت تمیز سکھا لی اتنے برس۔ اب ہمیں کچھ بدتمیزی کرنے دو، ہم روبوٹ کی طرح دکھائی ضرور دے رہے ہیں پر ہیں نہیں۔ یار تمہیں بھی تو ڈیوٹی دیتے دیتے بہت برس بیت گئے۔ اب کچھ وقت اپنے ساتھ بھی تو گذارو، کب تک ہماری اتالیقی جاری رکھو گے، اس چکر میں تم اپنا وجود، اپنا کار اور اپنا مقام بھی بھول جاؤ گے۔

تم ہم پر یقین رکھو گے تو یقین جانو ہم تمہاری دل سے عزت کریں گے بالکل ویسے جیسے بہت پہلے کرتے تھے۔ یہ تب کا قصہ ہے جب کسی نے عزت کرنے کا فرمان جاری نہیں کیا تھا، تب کسی نے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ احترام کس چڑیا کا نام ہے۔ بس خود سے ہی دل چاہتا تھا اور تمہارے لیے عزت و احترام امڈ آتا تھا۔

پر اگر تم یہی چاہتے ہو کہ عزت و احترام کرانے کے لیے بے ساختگی اور فطری ماحول کے بجائے آرڈر، نوٹیفکیشن، چہرے کی سختی اور لہجے کی کرختگی ہی ضروری ہے تو یونہی سہی۔ ہم بھی ماہر ہو گئے ہیں عزت و احترام دینے کی اداکاری کے۔ مگر یہ کوئی زندگی تو نہیں۔ نہ تمہاری نہ ہماری۔

پھر بھی تم چاہتے ہو کہ اس چودہ اگست سے وہی جذبہ پھوٹے جیسا پہلے چودہ اگست سے پھوٹا تھا تو پلیز ایک طرف ہو جاؤ۔ ہمیں مٹی کے گھروندے بنانے دو، توڑنے دو، دوڑنے دو، بازو کھول کے اڑنے دو، خودبخود ہنسنے اور مرضی سے رونے دو، جھگڑنے دو، پیار کرنے دو۔

ورنہ منالو اپنا چودہ اگست اسی طرح جیسے پچھلے سال، اس سے پچھلے سال، اس سے پچھلے سال مناتے اور منواتے آئے ہو۔ بس ہمیں مسلسل بتاتے رہنا کب خوش ہونا ہے کب نہیں ہونا، کب رکنا ہے کب چلنا ہے، کب بیٹھنا ہے،کب لیٹنا ہے،کب کب کب...

اب میں رکا رہوں یا پھر جاؤں...

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں