حکومت اور شہباز شریف
یہ نیک شگون ہے کہ حکومت وقت پر نظر رکھنے کے لیے تگڑی اپوزیشن موجود ہے۔
الیکشن ختم ہوا اور اس کے ساتھ کئی لیڈر بھی ختم ہو گئے۔ ہمارے ہاں لیڈری کا معیار اصول ونظریات نہیں جو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں بلکہ عوام میں مقبولیت ہے، اس لیے جس لیڈر کو ووٹ نہ ملیں وہ گویا لیڈری سے محروم ہو گیا ۔ ان ناکام لیڈروں پر سکتے کی جو کیفیت طاری ہو گئی تھی وہ رفتہ رفتہ اب اس سے نکل رہے ہیں، ان کے ہوش بحال ہو رہے ہیں اور ہوش بحال ہوتے ہی انھوں نے بے ہوشوں والی باتیں شروع کر دی ہیں۔
پہلے پہل تو اپوزیشن کا ایک متفقہ اتحاد وجود میں آگیا جو الیکشن میں دھاندلی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق تھا،اس اتحاد کے پلیٹ فارم پر ان بڑے ناکام لیڈروں نے اپنی اپنی لیڈری چمکانے کی ناکام کوشش کی ۔ ان میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں جو ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں جن میں سر فہرست ہمارے مولانا فضل الرحمٰن ہیں جوکئی سالوں کے بعد سرکاری بنگلے سے رخصت ہوئے ہیں، ان کی بزرگی کودیکھتے ہوئے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ '' بڑے آبرو ہو کرترے کوچے سے ہم نکلے'' لیکن مولانا کو اپنے ارمانوں کو دل میں چھپائے ہوئے رخصت ہونا ہی پڑ گیا کیونکہ ایک مدت کے بعد وہ کوئی نشست جیت نہیں پائے ۔
پاکستان میں ووٹوں کے ذریعے ہی حکومتیں وجود میں آتی ہیں ماسوائے مارشل لاء کی حکومتوں کے جو ووٹ کی طاقت سے نہیں بلکہ سیاستدانوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے نافذ ہو جاتا ہے۔ سیاستدان جو عوام کے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں آتے ہیں لیکن اقتدار کے بعد وہ عوام کی طاقت کو بھلا کر اپنی طاقت کے رعب داب سے حکومت چلاتے ہیں یعنی وہ عوام کے ووٹ کی قدر نہیں کر پاتے تو ایسی حکومتیں زیادہ دیر چل نہیں پاتیں کیونکہ اقتدار میں وہ عوام سے دور ہو جاتی ہیں لیکن جب مشکل وقت آتا ہے اور عوام کی ضرورت پڑتی ہے تو عوام ان سے دور ہو چکے ہوتے ہیں جس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کو آج کل ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ تیسری دفعہ وزیر اعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف اقتدار سے سیدھے جیل پہنچ چکے ہیں، ان کی حکومت عوام کی مشکلات دور کرنے میں ناکام رہی اور عوام میں غیر مقبول ہوگئی چنانچہ جب ان کو عوام کی ضرورت پڑی تو عوام کہیں اورکا رخ کر چکے تھے۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آج تک پاکستان میں قائم ہونے والی جمہوری حکومتیں بے گناہی میں ماری گئیں، ہر حکمران کو پورا موقع ملا کہ وہ حکمرانی کے مزے لوٹے لیکن سب ہی ایسے بے لگام ہو گئے اور اس طرح کی غلطیاں بلکہ حماقتیں کیں جو اپوزیشن کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے تھیں اور اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے اقتدار گنوا بیٹھے۔
ایک بار پھر ایک نئی جمہوری حکومت اقتدار سنبھالنے کی تیاری کر رہی ہے۔ عوام نے جوش و جذبے کے ساتھ الیکشن میں ووٹ دیے اور ایک نئی سیاسی جماعت کو پاکستان کا اقتدار سونپ دیا۔ نئی سیاسی جماعت کا نعرہ نیا پاکستان بنانے کا ہے، مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ نئی حکومت کا نیا پاکستان کیسا ہو گا لیکن ایک بات جو مجھے ڈرا رہی ہے کہ عوام نے اپنی امیدوں کا مرکز عمران خان کو بنا لیا اور اپنا مستقبل ان کی حکومت سے وابستہ کر لیا ہے ۔ نیا پاکستان کیسا ہو گا اس کا فیصلہ بھی عوام ہی کریں گے لیکن نئی حکومت اگر اپنے منشور پر عمل کرے گی تو پاکستان کی روائتی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور ایک ایسی حکومت دیکھنے کو ملے گی جس کا پاکستانی عوام کو ایک مدت سے انتظار تھا ۔
عوام ایک ایسی حکومت کی امید اور انتظارمیں ہیں جو ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور یہ آسانیاں ملک کی معاشی حالت مضبوط بنا کراور اداروں کی بہتری سے ہی پیدا کی جا سکتی ہیں ۔ جوش وجذبہ بہت زیادہ ہے، عمران خان کی شکل میں ایک نیا سیاستدان پاکستان پر حکومت کا آغاز کرنے جا رہا ہے، ان کے کریڈٹ پر پہلے ہی بہت مثبت کام موجودہیں جنھیں وہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے کامیابی پایہ تکمیل تک پہنچا چکے ہیں ۔ان کے ارادے نیک اور سمت درست نظر آرہی ہے اور جب نیتیں ٹھیک ہوں تو بگڑے کام بھی سنور جاتے ہیں اور ہماری حالت تو یہ ہے کہ یہاں توآوے کا آوا ہی بگڑا ہو اہے، اس کو ٹھیک کرنے میں وقت لگے جس کے لیے عوام کو صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
نئی حکومت کی اپوزیشن بھی جاندار اپوزیشن ہے جس میں ملک کے صف اول کے سیاستدان شامل ہیں، شہباز شریف اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کریں گے ان کے کریڈٹ پر بھی فلاحی کاموں کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے جس کا حکومت کو مقابلہ کرنا ہے، نئی حکومت کو دوستانہ اپوزیشن نہیںملے گی جیسی ان کی پیش رو حکومتوں کو ملتی رہی کیونکہ دونوں بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اپنے اپنے اقتدار میں ایک دوسرے کے لیے دوستانہ اپوزیشن کا کردار خوب نبھایا لیکن اب ان دونوں جماعتوں کی مخالف سیاسی جماعت تحریک انصاف اقتدار میں ہے، اس لیے دونوں جماعتیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ بھر پور اپوزیشن کے موڈ میں دکھائی دیتی ہیں۔
یہ نیک شگون ہے کہ حکومت وقت پر نظر رکھنے کے لیے تگڑی اپوزیشن موجود ہے، اپوزیشن کواپنا تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا اور حکومت کو اپوزیشن کا مقابلہ اپنے تعمیری کاموں سے کرنا پڑے گا ۔ الیکشن کے بعد اب جا کر صورتحال واضح ہوئی ہے کہ اقتدار کن لوگوں کے حوالے کیا جارہا ہے لیکن تادم تحریر پنجاب کی پگ کس کے سر رکھی جارہی ہے، اس کا فیصلہ تحریک انصاف کے لیے لگتا ہے کہ درد سر بنا ہوا ہے، اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ پنجاب میں شہباز شریف کا مقابلہ کرنا ہے جنہوں نے عوامی خدمت کی کئی مثالیں قائم کی ہیں ۔
پہلے پہل تو اپوزیشن کا ایک متفقہ اتحاد وجود میں آگیا جو الیکشن میں دھاندلی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق تھا،اس اتحاد کے پلیٹ فارم پر ان بڑے ناکام لیڈروں نے اپنی اپنی لیڈری چمکانے کی ناکام کوشش کی ۔ ان میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں جو ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں جن میں سر فہرست ہمارے مولانا فضل الرحمٰن ہیں جوکئی سالوں کے بعد سرکاری بنگلے سے رخصت ہوئے ہیں، ان کی بزرگی کودیکھتے ہوئے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ '' بڑے آبرو ہو کرترے کوچے سے ہم نکلے'' لیکن مولانا کو اپنے ارمانوں کو دل میں چھپائے ہوئے رخصت ہونا ہی پڑ گیا کیونکہ ایک مدت کے بعد وہ کوئی نشست جیت نہیں پائے ۔
پاکستان میں ووٹوں کے ذریعے ہی حکومتیں وجود میں آتی ہیں ماسوائے مارشل لاء کی حکومتوں کے جو ووٹ کی طاقت سے نہیں بلکہ سیاستدانوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے نافذ ہو جاتا ہے۔ سیاستدان جو عوام کے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں آتے ہیں لیکن اقتدار کے بعد وہ عوام کی طاقت کو بھلا کر اپنی طاقت کے رعب داب سے حکومت چلاتے ہیں یعنی وہ عوام کے ووٹ کی قدر نہیں کر پاتے تو ایسی حکومتیں زیادہ دیر چل نہیں پاتیں کیونکہ اقتدار میں وہ عوام سے دور ہو جاتی ہیں لیکن جب مشکل وقت آتا ہے اور عوام کی ضرورت پڑتی ہے تو عوام ان سے دور ہو چکے ہوتے ہیں جس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کو آج کل ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ تیسری دفعہ وزیر اعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف اقتدار سے سیدھے جیل پہنچ چکے ہیں، ان کی حکومت عوام کی مشکلات دور کرنے میں ناکام رہی اور عوام میں غیر مقبول ہوگئی چنانچہ جب ان کو عوام کی ضرورت پڑی تو عوام کہیں اورکا رخ کر چکے تھے۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آج تک پاکستان میں قائم ہونے والی جمہوری حکومتیں بے گناہی میں ماری گئیں، ہر حکمران کو پورا موقع ملا کہ وہ حکمرانی کے مزے لوٹے لیکن سب ہی ایسے بے لگام ہو گئے اور اس طرح کی غلطیاں بلکہ حماقتیں کیں جو اپوزیشن کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے تھیں اور اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے اقتدار گنوا بیٹھے۔
ایک بار پھر ایک نئی جمہوری حکومت اقتدار سنبھالنے کی تیاری کر رہی ہے۔ عوام نے جوش و جذبے کے ساتھ الیکشن میں ووٹ دیے اور ایک نئی سیاسی جماعت کو پاکستان کا اقتدار سونپ دیا۔ نئی سیاسی جماعت کا نعرہ نیا پاکستان بنانے کا ہے، مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ نئی حکومت کا نیا پاکستان کیسا ہو گا لیکن ایک بات جو مجھے ڈرا رہی ہے کہ عوام نے اپنی امیدوں کا مرکز عمران خان کو بنا لیا اور اپنا مستقبل ان کی حکومت سے وابستہ کر لیا ہے ۔ نیا پاکستان کیسا ہو گا اس کا فیصلہ بھی عوام ہی کریں گے لیکن نئی حکومت اگر اپنے منشور پر عمل کرے گی تو پاکستان کی روائتی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور ایک ایسی حکومت دیکھنے کو ملے گی جس کا پاکستانی عوام کو ایک مدت سے انتظار تھا ۔
عوام ایک ایسی حکومت کی امید اور انتظارمیں ہیں جو ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور یہ آسانیاں ملک کی معاشی حالت مضبوط بنا کراور اداروں کی بہتری سے ہی پیدا کی جا سکتی ہیں ۔ جوش وجذبہ بہت زیادہ ہے، عمران خان کی شکل میں ایک نیا سیاستدان پاکستان پر حکومت کا آغاز کرنے جا رہا ہے، ان کے کریڈٹ پر پہلے ہی بہت مثبت کام موجودہیں جنھیں وہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے کامیابی پایہ تکمیل تک پہنچا چکے ہیں ۔ان کے ارادے نیک اور سمت درست نظر آرہی ہے اور جب نیتیں ٹھیک ہوں تو بگڑے کام بھی سنور جاتے ہیں اور ہماری حالت تو یہ ہے کہ یہاں توآوے کا آوا ہی بگڑا ہو اہے، اس کو ٹھیک کرنے میں وقت لگے جس کے لیے عوام کو صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
نئی حکومت کی اپوزیشن بھی جاندار اپوزیشن ہے جس میں ملک کے صف اول کے سیاستدان شامل ہیں، شہباز شریف اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کریں گے ان کے کریڈٹ پر بھی فلاحی کاموں کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے جس کا حکومت کو مقابلہ کرنا ہے، نئی حکومت کو دوستانہ اپوزیشن نہیںملے گی جیسی ان کی پیش رو حکومتوں کو ملتی رہی کیونکہ دونوں بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اپنے اپنے اقتدار میں ایک دوسرے کے لیے دوستانہ اپوزیشن کا کردار خوب نبھایا لیکن اب ان دونوں جماعتوں کی مخالف سیاسی جماعت تحریک انصاف اقتدار میں ہے، اس لیے دونوں جماعتیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ بھر پور اپوزیشن کے موڈ میں دکھائی دیتی ہیں۔
یہ نیک شگون ہے کہ حکومت وقت پر نظر رکھنے کے لیے تگڑی اپوزیشن موجود ہے، اپوزیشن کواپنا تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا اور حکومت کو اپوزیشن کا مقابلہ اپنے تعمیری کاموں سے کرنا پڑے گا ۔ الیکشن کے بعد اب جا کر صورتحال واضح ہوئی ہے کہ اقتدار کن لوگوں کے حوالے کیا جارہا ہے لیکن تادم تحریر پنجاب کی پگ کس کے سر رکھی جارہی ہے، اس کا فیصلہ تحریک انصاف کے لیے لگتا ہے کہ درد سر بنا ہوا ہے، اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ پنجاب میں شہباز شریف کا مقابلہ کرنا ہے جنہوں نے عوامی خدمت کی کئی مثالیں قائم کی ہیں ۔