ملائشیا کا چین کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے منسوخ کرنے کا اعلان
سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی حکومت نے چین کے ساتھ تجارتی معاہدوں میں ملائشیاسے زیادہ چین کے مفادات کاتحفظ کیا،مہاتیرمحمد
ملائشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے منسوخ کر دیں گے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ملائشیا کے 93 سالہ وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ سابق حکومت کے دور میں طے پانے والے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے منسوخ کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے تجارتی معاہدوں کی منسوخی کے طریقہ کار کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔
وزیراعظم مہاتیر محمد نے اپنے پہلے دورہ چین سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ چین کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں، تاہم سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی حکومت نے چین کے ساتھ تجارتی معاہدوں میں ملائشیا سے زیادہ چین کے مفادات کا تحفظ کیا اس لیے اب فقط ایسے تجارتی معاہدے کیے جائیں گے جو ملائشیا کے مفاد میں ہوں گے اور جس سے ملائشیا کے عوام کو فائدہ پہنچے۔
واضح رہے کہ چین نے ملائشیا کی سابق وزیراعظم نجیب رزاق کے دورِ حکومت میں انفرااسٹرکچر کے شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ نومنتخب وزیراعظم مہاتیر محمد کی جانب سے معاہدوں کی منسوخی کے اعلان پر چین کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ملائشیا کے 93 سالہ وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ سابق حکومت کے دور میں طے پانے والے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے منسوخ کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے تجارتی معاہدوں کی منسوخی کے طریقہ کار کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔
وزیراعظم مہاتیر محمد نے اپنے پہلے دورہ چین سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ چین کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں، تاہم سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی حکومت نے چین کے ساتھ تجارتی معاہدوں میں ملائشیا سے زیادہ چین کے مفادات کا تحفظ کیا اس لیے اب فقط ایسے تجارتی معاہدے کیے جائیں گے جو ملائشیا کے مفاد میں ہوں گے اور جس سے ملائشیا کے عوام کو فائدہ پہنچے۔
واضح رہے کہ چین نے ملائشیا کی سابق وزیراعظم نجیب رزاق کے دورِ حکومت میں انفرااسٹرکچر کے شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ نومنتخب وزیراعظم مہاتیر محمد کی جانب سے معاہدوں کی منسوخی کے اعلان پر چین کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔