
یوں لگتا ہے جیسے آج کا کراچی عروس البلاد سے بدل کر ''عروس الغلاظ'' بن چکا ہے۔
شہر کےموجودہ حالات کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے؟ یہ تو ایک الگ ہی بحث ہے، لیکن یہاں اگر کسی بھی منتخب نمائندے یا انتظامیہ کے ذمہ دار سے بات کی جائے تو وہ اس شہر کی حالت کا سارا ملبہ کسی اور پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے لگتا ہے۔ اگر موجودہ انتظامیہ سے اس حوالے سے دریافت کیا جائے تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ پی پی کی حکومت ہی شہر کی اس حالت کی ذمہ دار ہے جو پچھلے دس برس سے چلی آرہی تھی اور اب آنے والے وقت میں بھی اسی کی حکومت ہوگی جبکہ پیپلز پارٹی کے جیالے اس کا قصوروار شہری حکومت کو قرار دیتے رہے ہیں جو اکثر و بیشتر ایم کیو ایم کی ہی رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے منتخب نمائندے اور لوکل گورنمنٹ کے افسران بالا صرف ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی ہی تنخواہ لیتے ہیں، باقی شہر کی صفائی اور ترقیاتی کاموں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ شہر کی موجودہ حالت دیکھ کر یقیناً ہر کسی کا دل خون کے آنسو رو رہا ہوگا لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ شہر کراچی کو اس نہج پر پہچانے میں ہم سب کا بھی تھوڑا بہت ہاتھ ضرور ہے۔
ہم میں سے اکثر شہری ایسے دیکھے گئے ہیں جو اپنے گھر، دکان، فیکٹری اور کمپنی کی صفائی رکھنا تو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں لیکن اپنی گلی، سڑک اور شہر کی صفائی کو خاطر میں نہیں لاتے۔
ہم سب کی اپنے شہر کیلئے ایسی سوچ دراصل کراچی کے عروس الغلاظ بننے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ ایسے بھی ہیں جو مختلف علاقوں میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوڑے کرکٹ کیلئے رکھے ہوئے ڈبوں کے باوجود کوڑا کرکٹ اور کچرا سڑک پر پھینک کر اپنی ذمہ داری پوری کردیتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے گھر، دکان کے سامنے ٹوٹے ہوئے گٹر سے پانی ابلتے اور پورے علاقے میں گندگی پھیلتے ہوئے تو دیکھتے رہتے ہیں اور اس گندگی میں خود بھی گزارا کرلیتے ہیں لیکن اس گٹر کو ٹھیک یا صاف کرانے کیلئے تھوڑی بھی کوشش کرنا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔
یوں تو ہم میں سے ہر ایک بڑی بڑی باتیں کرتا اور ملک کیلئے نعرے لگاتا نظر آتا ہے۔ 14 اگست سمیت بڑے بڑے ایونٹس پر ملک کے ساتھ کھڑے رہنے اور ملک کیلئے قربانی کی باتیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے لیکن عملی طور پر ہم لوگ اپنے ملک، قوم اور شہر کے ساتھ کتنے سچے ہیں؟ اس کا اندازہ کراچی شہر کی موجودہ صورتحال دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے۔
اپنے شہر سے، اپنے وطن سے جب انسان کا رویہ ایسا لاتعلقی والا ہوجائے تو قوموں کا اور شہروں کا حال وہی ہوتا ہے جیسا آج شہرِ کراچی اور وطنِ عزیز کا ہورہا ہے۔
ہر آنے والی حکومت بھی دعوے، اعلانات اور کاغذات میں اندراج کی حد تک تو کام کرتی ہے لیکن عملی طور پر کسی حکومت نے کوئی اقدام نہیں اٹھائے۔
کیا شہر کی صفائی کیلئے ایمرجنسی نہیں لگائی جاسکتی؟ کیا کوڑا کرکٹ یا سرعام کچرا پھینکنے والے کی گرفتاری اور جرمانے جیسی سزائیں نہیں ہوسکتیں؟ تو پھر کیوں کسی حکومت نے ایسے اقدامات نہیں کیے؟
کراچی شہر کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہماری آنے والی حکومت اور موجودہ ضلعی انتظامیہ سے التجا ہے کہ شہر کی رونقیں بحال کرنے اور اسے عروس البلاد کا لقب، بجا طور پر، واپس دلوانے کیلئے انقلابی اقدام اٹھائے جائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔