’’میری شناخت پاکستان‘‘ سیمینار
وزیر اعظم نے کہا کہ تقسیم پاکستان کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت...
ISLAMABAD:
ایکسپریس میڈیا گروپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جہاں عوام تک ٹھیک خبر بروقت پہنچانے کا وعدہ پورا کرنے کی تگ و دو میں رہتا ہے وہاں اس کی جانب سے اہم مواقعے اور ایشوز پر بحث مباحثوں اور سیمینارز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے ایکسپریس میڈیا گروپ اور دی یونیورسٹی آف لاہور کے زیر اہتمام ''میری شناخت پاکستان'' سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے یہ بات بالکل درست کہی ہے کہ ملک کے کسی بھی مسئلہ کا حل جمہوریت کے بغیر نہیں ہو سکتا، سیکڑوں سال کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ وہی نظام حکومت چلتا ہے جو عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق ہوتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ تقسیم پاکستان کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کوئی ایسی وفاقی جماعت نہیں تھی جس کا اثر ملک کے دونوں حصوں میں ہوتا اور جس کی جڑیں پورے وفاق میں ہوتیں' کوئی ٹیکنوکریٹ یا کوئی بیوروکریٹ ملک نہیں چلا سکتا، ہم اس کے تجربات کر چکے ہیں' کسی بھی ملک کو جوڑ کر رکھنے والی قوتیں سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی سو فیصد صائب ہے کہ میڈیا معاشرے کا سب سے مضبوط جزو ہے، اسے سچ بولنا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی ٹھیک کہا ہے کہ پاکستان اتنا برا نہیں جتنا ہم نے اسے بنا کر پیش کر دیا ہے۔
بلاشبہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال اور زرخیز زرعی زمینوں سے مزین ایک خوبصورت ملک ہے لیکن اس کے سابق حکمرانوں نے اپنی غلط پالیسیوں سے اس کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا نہایت امید افزاء ہے کہ کوئی قوم کسی دشمن سے زیر نہیں ہوتی، قومیں صرف اس وقت مرتی ہیں جب ان کے اندر امید ختم کر دی جاتی ہے یا ختم ہو جاتی ہے۔ انھوں نے کہا' ہمیں انھیں دیکھنا چاہیے جن کی کوئی شناخت اور پہچان نہیں ہے، ہمیں اپنی سمت ٹھیک کرنی ہے، سیاستدانوں میں بھی کوتاہیاں ہیں لیکن میڈیا والوں کو ہمیشہ امید کا چراغ روشن رکھنا ہے اور ملک کے بارے میں مثبت امیج کو ابھارنا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پارلیمنٹ تمام قومیتوں پر مشتمل ہے، خیبر پختونخوا کو اس کا نام دیا گیا، سندھ بلوچستان اور پنجاب کو سیاسی و صوبائی خودمختاری دی گئی، صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ میں ان کا حق دینا پاکستان کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے، اگرچہ آغاز حقوق بلوچستان پوری طرح سے نتائج حاصل نہیں کر سکا لیکن آج ہم بیٹھ کر بلوچستان پر بات کر رہے ہیں، صوبوں کو وسائل دینے سے ملک تگڑا ہوا ہے۔
دی یونیورسٹی آف لاہور اسلام آباد کیمپس کے صدر بریگیڈیئر (ر) محمد عجائب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام تر مسائل کے باوجود پاکستانی قوم اپنے قومی تشخص پر یقین رکھتی ہے اور جو قومیں اپنے قومی تشخص پر یقین رکھتی ہیں دنیا کی کوئی طاقت انھیں سرنگوں نہیں کر سکتی۔ 8سالہ مائیکروسافٹ سرٹیفائڈ ایکسپرٹ شافع تھوبانی نے کہا کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں' یہاں بچوں پر مشتمل ایک فورس ہونی چاہیے جو ملک کے مستقبل کو تابناک بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ہمیں اپنا نصاب تعلیم بدلنا ہو گا، پرائمری و مڈل اسکولوں اور مدرسوں میں یکساں نصاب تعلیم ہونا چاہیے، ٹیچرز کی ٹریننگ ہونی چاہیے اور ٹیچرز کا سماجی معیار اور اس کی حیثیت کو بہتر بنانا ہو گا۔ نامور ادیب و شاعر امجد اسلام امجد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو قائم ہوئے 65 سال ہو گئے ہیں اور آج بھی ہم اسی سوال پر کھڑے ہیں کہ ہماری پہچان کیا ہے جب کہ ہمیں اس سوال سے بہت آگے ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ اس ملک و قوم کی ترقی کے لیے تین نکات اہم اور ضروری ہیں جن میں بہتر نظام تعلیم، میرٹ اور انصاف کی بالادستی شامل ہیں۔ معروف گلوکار عارف لوہار نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان قائم دائم ہے اور مشکلات آتی رہتی ہیں، ہم بھاگنے والے نہیں، تمام مشکلات پر مل کر قابو پائیں گے۔ سربراہ حکومت اور مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کی حامل شخصیات نے ''میری شناخت پاکستان'' سیمینار میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس میں اگرچہ اس مملکت خداداد پاکستان کے گزرے پینسٹھ برسوں میں مناسب رفتار سے ترقی نہ کرنے' بار بار آمریتوں کے آنے' ترقی کی منزل کی طرف لے جانے والی طویل المیعاد ٹھوس پالیسیوں کے بجائے وقتی اور ڈنگ ٹپائو پالیسیاں اختیار کرنے کے نتائج پر افسوس اور حیرت کا اظہار ملتا ہے تاہم سبھی مقررین نے امید اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے حوالے سے اس یقین کا اظہار بھی کیا ہے کہ 'ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی'۔ سرنگ کے آخری کونے میں موجود یہی وہ روشنی ہے' امید کی یہی وہ کرن ہے جسے ایک روز ایک نئی صبح کا سورج بن کر طلوع ہونا ہے۔
اب جب کہ عنان حکومت راجہ پرویز اشرف کے ہاتھ میں ہے تو ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس ملک کو کم از کم اپنے خوابوں کی تعبیر بنانے کی ضرور ٹھوس کوشش کریں گے تا کہ تاخیر سے ہی سہی ترقی کی اس منزل کی جانب عملی طور پر سفر شروع کیا جا سکے جس کی نشاندہی خود انھوں نے اپنے خطاب میں کی ہے۔ جہاں تک میڈیا کے کردار کا تعلق ہے تو ترقی وطن میں یہ پہلے بھی کردار ادا کرتا رہا اور آیندہ بھی کرے گا کیونکہ بلاشبہ پاکستان ہی ہماری شناخت ہے اور اس کی ترقی میں ہی ہماری خوشحالی کا راز مضمر ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جہاں عوام تک ٹھیک خبر بروقت پہنچانے کا وعدہ پورا کرنے کی تگ و دو میں رہتا ہے وہاں اس کی جانب سے اہم مواقعے اور ایشوز پر بحث مباحثوں اور سیمینارز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے ایکسپریس میڈیا گروپ اور دی یونیورسٹی آف لاہور کے زیر اہتمام ''میری شناخت پاکستان'' سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے یہ بات بالکل درست کہی ہے کہ ملک کے کسی بھی مسئلہ کا حل جمہوریت کے بغیر نہیں ہو سکتا، سیکڑوں سال کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ وہی نظام حکومت چلتا ہے جو عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق ہوتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ تقسیم پاکستان کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کوئی ایسی وفاقی جماعت نہیں تھی جس کا اثر ملک کے دونوں حصوں میں ہوتا اور جس کی جڑیں پورے وفاق میں ہوتیں' کوئی ٹیکنوکریٹ یا کوئی بیوروکریٹ ملک نہیں چلا سکتا، ہم اس کے تجربات کر چکے ہیں' کسی بھی ملک کو جوڑ کر رکھنے والی قوتیں سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی سو فیصد صائب ہے کہ میڈیا معاشرے کا سب سے مضبوط جزو ہے، اسے سچ بولنا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی ٹھیک کہا ہے کہ پاکستان اتنا برا نہیں جتنا ہم نے اسے بنا کر پیش کر دیا ہے۔
بلاشبہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال اور زرخیز زرعی زمینوں سے مزین ایک خوبصورت ملک ہے لیکن اس کے سابق حکمرانوں نے اپنی غلط پالیسیوں سے اس کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا نہایت امید افزاء ہے کہ کوئی قوم کسی دشمن سے زیر نہیں ہوتی، قومیں صرف اس وقت مرتی ہیں جب ان کے اندر امید ختم کر دی جاتی ہے یا ختم ہو جاتی ہے۔ انھوں نے کہا' ہمیں انھیں دیکھنا چاہیے جن کی کوئی شناخت اور پہچان نہیں ہے، ہمیں اپنی سمت ٹھیک کرنی ہے، سیاستدانوں میں بھی کوتاہیاں ہیں لیکن میڈیا والوں کو ہمیشہ امید کا چراغ روشن رکھنا ہے اور ملک کے بارے میں مثبت امیج کو ابھارنا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پارلیمنٹ تمام قومیتوں پر مشتمل ہے، خیبر پختونخوا کو اس کا نام دیا گیا، سندھ بلوچستان اور پنجاب کو سیاسی و صوبائی خودمختاری دی گئی، صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ میں ان کا حق دینا پاکستان کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے، اگرچہ آغاز حقوق بلوچستان پوری طرح سے نتائج حاصل نہیں کر سکا لیکن آج ہم بیٹھ کر بلوچستان پر بات کر رہے ہیں، صوبوں کو وسائل دینے سے ملک تگڑا ہوا ہے۔
دی یونیورسٹی آف لاہور اسلام آباد کیمپس کے صدر بریگیڈیئر (ر) محمد عجائب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام تر مسائل کے باوجود پاکستانی قوم اپنے قومی تشخص پر یقین رکھتی ہے اور جو قومیں اپنے قومی تشخص پر یقین رکھتی ہیں دنیا کی کوئی طاقت انھیں سرنگوں نہیں کر سکتی۔ 8سالہ مائیکروسافٹ سرٹیفائڈ ایکسپرٹ شافع تھوبانی نے کہا کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں' یہاں بچوں پر مشتمل ایک فورس ہونی چاہیے جو ملک کے مستقبل کو تابناک بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ہمیں اپنا نصاب تعلیم بدلنا ہو گا، پرائمری و مڈل اسکولوں اور مدرسوں میں یکساں نصاب تعلیم ہونا چاہیے، ٹیچرز کی ٹریننگ ہونی چاہیے اور ٹیچرز کا سماجی معیار اور اس کی حیثیت کو بہتر بنانا ہو گا۔ نامور ادیب و شاعر امجد اسلام امجد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو قائم ہوئے 65 سال ہو گئے ہیں اور آج بھی ہم اسی سوال پر کھڑے ہیں کہ ہماری پہچان کیا ہے جب کہ ہمیں اس سوال سے بہت آگے ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ اس ملک و قوم کی ترقی کے لیے تین نکات اہم اور ضروری ہیں جن میں بہتر نظام تعلیم، میرٹ اور انصاف کی بالادستی شامل ہیں۔ معروف گلوکار عارف لوہار نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان قائم دائم ہے اور مشکلات آتی رہتی ہیں، ہم بھاگنے والے نہیں، تمام مشکلات پر مل کر قابو پائیں گے۔ سربراہ حکومت اور مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کی حامل شخصیات نے ''میری شناخت پاکستان'' سیمینار میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس میں اگرچہ اس مملکت خداداد پاکستان کے گزرے پینسٹھ برسوں میں مناسب رفتار سے ترقی نہ کرنے' بار بار آمریتوں کے آنے' ترقی کی منزل کی طرف لے جانے والی طویل المیعاد ٹھوس پالیسیوں کے بجائے وقتی اور ڈنگ ٹپائو پالیسیاں اختیار کرنے کے نتائج پر افسوس اور حیرت کا اظہار ملتا ہے تاہم سبھی مقررین نے امید اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے حوالے سے اس یقین کا اظہار بھی کیا ہے کہ 'ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی'۔ سرنگ کے آخری کونے میں موجود یہی وہ روشنی ہے' امید کی یہی وہ کرن ہے جسے ایک روز ایک نئی صبح کا سورج بن کر طلوع ہونا ہے۔
اب جب کہ عنان حکومت راجہ پرویز اشرف کے ہاتھ میں ہے تو ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس ملک کو کم از کم اپنے خوابوں کی تعبیر بنانے کی ضرور ٹھوس کوشش کریں گے تا کہ تاخیر سے ہی سہی ترقی کی اس منزل کی جانب عملی طور پر سفر شروع کیا جا سکے جس کی نشاندہی خود انھوں نے اپنے خطاب میں کی ہے۔ جہاں تک میڈیا کے کردار کا تعلق ہے تو ترقی وطن میں یہ پہلے بھی کردار ادا کرتا رہا اور آیندہ بھی کرے گا کیونکہ بلاشبہ پاکستان ہی ہماری شناخت ہے اور اس کی ترقی میں ہی ہماری خوشحالی کا راز مضمر ہے۔