شام باغیوں کا گڑھ گھیرے میں آگیا بمباری سے 22 ہلاک

علاقہ اسٹریٹجک لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے، دمشق اور سمندر کے درمیان واقعے ہے، دمشق کار بم دھماکے میں 3 افراد ہلاک.


News Agencies/AFP May 20, 2013
حکومت کو قصیر میں دوبارہ قبضہ ملنے سے ساحلی علاقے اور دمشق کے راستوں پر کنٹرول مل سکتا ہے، ذرائع کا دعویٰ. فوٹو: اے ایف پی

شامی فوج نے اتوار کو باغیوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شہر قصیر کی اہم چوک اور میونسپلٹی کی عمارت پر قبضہ کرلیا۔

ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ شامی فوج کا قصیر کے ایک اہم چوک اور اس کی ارد گرد کی عمارت پر قبضہ ہے جس میں میونسپلٹی کی عمارت بھی شامل ہے۔ سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ ان کے فوجیوں نے شہر میں سکیورٹی اور استحکام کو بحال کردیا ہے جبکہ باغیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ علاقہ سٹریٹجک لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ دارالحکومت دمشق اور سمندر کے درمیان واقعے ہے۔ حالیہ دنوں میں فوج کی مدد لبنانی تنظیم حزب اللہ بھی کررہی ہے جو اسد کی کٹر حامی ہے۔ شام میں باغیوں کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز کے فضائی حملوں میں اب تک کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔



بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ لبنان سے تعلق رکھنے والے سنْی شدت پسند لڑائی میں باغیوں کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ حزب مخالف کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز کے ساتھ لڑائی میں لبنان کی شدت پسند تنظیم حزب اللہ کے جنگجو بھی شامل ہیں۔ بیروت میں بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ قصیر کے علاقے میں حکومت اور باغیوں دونوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حکومت کو قصیر میں دوبارہ قبضہ ملنے سیساحلی علاقے اور دارالحکومت دمشق کے راستوں پر کنٹرول مل سکتا ہے۔ ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے حکومتی فورسز کی جانب سے قصیر کے علاقے میں پمفلٹ کی تقسیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پمفلیٹ میں باغیوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ ہتھیار نہ ڈالنے پر وہ حملے کی زد میں آ سکتے ہیں۔ قصیر کے علاقے میں حکومت اور باغیوں دونوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے حکومت کو قصیر میں دوبارہ قبضہ ملنے سے ساحلی علاقے اور دارالحکومت دمشق کے راستوں پر کنٹرول مل سکتا ہے۔ ادھر دمشق کے شمالی علاقہ میں ایک کار بم دھماکے میں کم ازکم تین افراد ہلا ک اور پانچ زخمی ہو گئے، سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق یہ بم رکن ایدن کے نواحی علاقے میں ایک کار میں رکھا ہوا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں