جشن آزادی اور نئے ولولوں کی ضرورت

تلخ حقائق سے نو واردان سیاست و حکومت کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے


Editorial August 15, 2018
تلخ حقائق سے نو واردان سیاست و حکومت کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو:رائٹرز)

پاکستان کا 71 واں یوم آزادی منگل 14 اگست کو قومی جذبے اور ملی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ، اس کا آغاز ملک و قوم کی سلامتی خوشحالی، یکجہتی و استحکام اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعاؤں سے ہوا۔ آج بلاشبہ وقت کی رفتار اہل وطن کے تصور سے کہیں تیز تر ہے، دنیا گلوبل ولیج سے سے سمٹ کر انسانی انگلیوں کے اشاروں پر رقص کر رہی ہے، اطلاعات کے سیل رواں میں پاکستان کو جزیرہ جاتی سوچ سے بالاتر رہتے ہوئے نئے مقام اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کی نئی جستجو کرنی ہوگی، حکمران ''صورت گر کچھ خوابوں کے'' بن کر دکھائیں، ایسی اعصاب شکن سیاسی اور عالمی صورتحال سے جڑے مادر وطن کے مستقبل کے لیے اہل سیاست میں نئے عزم، نئی سوچ اور نئے ولولوں کی ضرورت ہے، نئے میثاق اور عمرانی معاہدے کے لیے پرانے اور نئے اسٹیک ہولڈر وطن کی مٹی کو گواہ بناکر عہد کریں کہ جمہوریت کی بقا اور ملکی سالمیت سے بڑھ کر ان کے پیش نظر اور کوئی نصب العین نہیں ہو گا، ملک کے کروڑوں عوام حکمرانوں سے توقعات کا گلشن سجائے ہوئے ہیں۔

ان کو انتظار ہے کہ نئی حکومت ان کے درد کا درماں کریگی، روزگار مہیا ہو گا، میرٹ کی توقیر ہو گی، مساوات اور مواخات کا ماحول ہو گا، سیاسی رواداری اور جمہوری رویوں کی بنیاد پارلیمانی نفاست و شائستہ طرز تکلم پر ہو گی، سیاست کا نیا کلچر جنم لے گا، چنانچہ ان توقعات کے ساتھ اللہ تبارک تعالیٰ سے یہی دعا کی جانی چاہیے کہ یوم آزادی تجدید و تعمیر وطن کی آرزووں کو دو چند کرنے کی قوم کو توفیق عطا فرمائے، سیاست کی جدلیات سماجی انصاف پر مبنی ہو، پرانے گلے شکوے دور اور نئے جمہوری سفر کو اس حلف نامہ سے مشروط کیا جائے جو ارکان اسمبلی نے نئے پاکستان کی تعمیر کے وعدہ کے ساتھ اٹھایا ہے۔ کہتے ہیں کہ حلف ضمیر کی عدالت میں کہا ہوا وہ سچ ہے جسے زمانہ کی توثیق اور شخصی کردار کی گواہی کی اس وقت ضرورت پڑتی ہے جب وطن کو کوئی آزمائش درپیش ہو، اس میں کیا شبہ ہے کہ وطن کو ایک نہیں کثیر جہتی چیلنجوں کا سامنا ہے، دشمن طاقتیں واحد ایٹمی اسلامی ملک کو دنیا کے نقشہ پر دیکھنے کو تیار نہیں،خطے میں وہ قوتیں سرگرم ہیں جو پاکستان کے معاشی، سیاسی، ثقافتی، تزویراتی، جوہری اور نفسیاتی محاصرے پر کمربستہ ہیں۔

نت نئے ناموں اور روپ میں پاکستان کے جمہوری اور ملی تشخص کو سوالیہ نشان بنانے کی دیوانگی میں مبتلا ہیں، ان تلخ حقائق سے نو واردان سیاست و حکومت کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے، سیاست مکمل مہم جوئی اور مکمل معذرت خواہی کا نام نہیں، جمہوریت بہترین انتقام ہے مگر یہ انتقام قوم کی تقدیر نہ بنے، بلکہ بد انتظامی، قانونی سقوم اور سیاسی لغزشوں سے پیدا شدہ تضادات سے لیا جائے تاکہ ملکی سیاست میں شفافیت کے خواب شرمندہ تعبیر ہوں۔ تاریخ کا 71 واں جشن آزادی ہم سے یہی سوال کرتا ہے کہ کیا ملکی سیاست آیندہ کے سفر میں شرم ناک الزامات، دکھ بھری شکایات، مذموم کردار کشی،بے جواز کشیدگی، اداروں میں تصادم کے بے بنیاد اندیشوں اور خدشات سے نجات پا سکے گی؟ کیا ہم حالیہ انتخابات کی عدم شفافیت اور مبینہ دھاندلی کے الزامات کا کوئی شایان شان جمہوری حل تلاش کر سکیں گے، اور وہ بھی پارلیمنٹ کے اندر۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہر سیاستدان پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات تو کرتا ہے مگر مسائل، معاملات، ایشوز اور اقدامات سارے پارلیمنٹ سے باہر ہوتے رہے ہیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کو خطرہ پارلیمنٹ سے باہر کی چارہ گری سے لاحق ہوا، اندر سے نہیں، اس کا ثبوت پیر کو قومی اسمبلی کی وسیع المشرب حلف برداری سے لگایا جا سکتا ہے۔

ارکان اسمبلی کے حلف سے نہ صرف جمہوری سفر شروع ہوا بلکہ پیکر عجز عمران خان سے آصف زرداری، بلاول بھٹو اور شہباز شریف سمیت ماضی کے کٹر مخالف سیاسی قائدین کے مصافحے خوش آیند تھے، اسی لیے کہتے ہیں کہ سیاست میں نہ مستقل دوستیاں اور نہ دائمی دشمنیاں ہوتی ہیں، سیاست دوستی، امن کی سفارت کاری، بین الاقومیت اور قومی کردار کی شناخت کا پیمانہ ہے۔ سیاستدان کی داخلیت سے مدبر لیڈر کی اٹھان ہوتی ہے، لیڈر آسمان سے زمیں پر نہیں آتا، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، انھی مدبر سیاست دانوں کی نمود کا اقبالی اعلان ہے۔ ہر قوم اپنی سیاسی تہذیب سے پہچانی جاتی ہے، لہٰذا دعا کی جانی چاہیے کہ نئے حکمرانوں کواللہ تعالی ایسے خواب دیکھنے اور قوم کو دکھانے کی توفیق عطا فرمائے جو زمینی حقائق سے جڑے ہوئے ہوں، قوم کافی ڈراؤنے خواب دیکھ چکی۔

صدرممنون حسین نے یوم آزادی کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ مادر وطن کو ترقی کی معراج تک پہنچانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے اور درپیش چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے قومی مقاصد کے بارے میں مکمل یکسوئی اور باہمی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کے یوم آزادی پر صدر ممنون حسین کو مبارکباد کا پیغام بھیجا، نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک نے یوم آزادی کے پرمسرت موقع پر پوری قوم اور بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو مبارکباد دی، ملک گیر تقاریب میں رہنماؤں نے کہا کہ آج ہر طرف آزادی کی خوشبو مہک رہی ہے، عوام آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں جس کے لیے ہمارے قائدین اور اکابرین نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں ۔

ادھر ملک کی پارلیمانی تاریخ کی15 ویں قومی اسمبلی کے نومنتخب ارکان نے گزشتہ روز حلف اٹھا لیا۔ حلف برداری کے بعد نومنتخب جمہوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ اگلے مرحلے میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور قائد ایوان کا انتخاب شامل ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے نومنتخب ارکان نے بھی گزشتہ روز حلف اٹھا لیا۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ تاریخ کا سب سے متنازعہ الیکشن ہوا ہے جس پر ایوان کے اندر بھرپور آواز اٹھائیں گے، گزشتہ روز یہاں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا دھاندلی کا کھوج لگانے اور پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کریں گے۔

نومنتخب اراکین قومی اسمبلی نے حلف اٹھانے کے بعد کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نے مزید ایک قدم آگے بڑھایا ہے، پارلیمان کے وقار پر کسی صورت آنچ نہیں آنے دیںگے جب کہ تحریک انصاف نے کہا ہے کہ حلف اٹھانے کے موقع پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے سیاسی میچورٹی کا ثبوت دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا نئی پارلیمنٹ میں نوجوان اور غریب طبقے کا نمایندہ ہوں، نئی حکومت سے امید کرتا ہوں کہ وہ قوم کی توقعات پر پورا اتریگی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے کہا پاکستان میں جمہوریت نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے کہا ملک میں بہت سے مسائل ہیں جو ایک روز میں حل نہیں ہو سکتے، مسائل کے حل کے لیے سب کو ملکر کام کرنا ہو گا۔

جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری کی زیر صدارت پارلیمانی اراکین کا اجلاس ہوا جس میں انتخابات کو فراڈ اور جانبدارانہ قراردیتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن ایک حقیقت موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں نمایاں ہوئی ہے جو جمہوریت کے تسلسل سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کریں گی۔اس نیک شگون کو سیاسی اور جمہوری رویوں کی بنیاد بنانے کا سفر بھی آج سے شروع ہو جانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں