کوئٹہ کان کنوں کی دردناک موت

کانوں میں ہنگامی صورت میں حفاظتی انتظامات خواب بنے ہوئے ہیں


Editorial August 15, 2018
کانوں میں ہنگامی صورت میں حفاظتی انتظامات خواب بنے ہوئے ہیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: بلوچستان میں ایک اور افسوس ناک سانحہ رونما ہوا ہے، کوئٹہ کے نواحی علاقے سنجدی میں کوئلے کی کان میں حادثے میں جاں بحق ہونے والے10 کان کنوں کی لاشیں نکال لی گئیں جن میں سے دس وہ بدقسمت کان کن ہیں جو حادثے کے شکار ہونے والے ساتھیوں کی لاشیں نکالنے کے لیے کان میں اترے تھے، کان کن 3500 میٹر گہرائی میں کام کررہے تھے۔ ملک میں بالخصوص بلوچستان کوئلہ کان کنوں کی حالت زار کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ان کی جانوں کے تحفظ کے لیے کسی بھی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں ۔ ہم ایک ایٹمی ملک ہیں لیکن ہم اپنے کان کنوں کو بچانے کے لیے کسی بھی حکمت عملی، جدید مشنری اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے گریزاں ہیں، جب کہ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ہے، وہ اپنے ہر شہری کی جان کی حفاظت کرتے ہیں ۔ پہلی مثال ملک چلی کی ہے ۔

چلی کی ایک کان میں 33 کان کن سطح زمین سے سات سو میٹرگہرائی میں پھنس گئے تو حکومت نے ایک ریسکیو شافٹ کارکنوں کو غذا اور ادویات بھیجنے کے لیے بنائی، انسٹھ دن بعد ریسکیو ٹنل کے لیے ڈرل کی گئی شافٹ کان کنوں تک پہنچ گئی اور سب کو زندہ بچا لیا گیا تھا۔ چلی کے صدر سباسشین پنیرا نے، جوکان کنوں کو نکالنے کی پوری کارروائی کے دوران موقعے پر موجود رہے اور ہرکان کن سے ملے اور اسے گلے لگایا تھا،اس کارروائی پر تقریباً دوکروڑ ڈالر صرف ہوئے تھے۔ دوسری حالیہ مثال تھائی لینڈ کی ہے ، معروف غاروں کے سلسلے میں بچوں کی فٹبال ٹیم کوچ کے ہمراہ سیرکے لیے گئی تھی ۔ مون سون بارشوں کے باعث بچوں کی پوری ٹیم غار میں پھنس گئی تھی، تاہم ریسکیو اداروں کی جانب سے ان کی کھوج لگائے جانے کے بعد بچوں کو باحفاظت نکالنے کئی دن آپریشن جاری رہا، ان کی جانیں بچا لیں گئیں ۔

کوئلے کے باریک ذرات ، منہ اور نتھنوں سے گزرکر محنت کش کے اندر بھی ایک قسم کی کان بنا دیتے ہیں ۔ پھیپھڑے ، گردے ، دل بتدریج کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ قانون کی رو سے کام ختم کرنے کے بعد کوئلے کے مزدورکوگرم پانی سے غسل کرنا چاہیے، مالکان اس کا بندوبست نہیں کرتے۔ ان مزدوروں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں ہے،ان کے لیے سوشل سیکیورٹی اور اولڈ ایج بینی فٹ جیسی سہولیات تو سرے سے دستیاب نہیں ہیں۔

تاحال کانوں میں ہنگامی صورت میں حفاظتی انتظامات خواب بنے ہوئے ہیں ۔ رہائش ، صحت اور پینے کے پانی اور بچوں کے لیے تعلیم جیسی بنیادی سہولیات بھی ناپید ہیں ۔ ان کو مزدوروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح تنگ و تاریک کمروں میں ٹھونس دیا جاتا ہے، جب کہ قانون کے مطابق انھیں صاف ہوا دار کمروں میں رکھا جانا چاہیے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بندہ مزدور کی زندگی کو تلخ بنانے والے ان واقعات کے تدارک کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر عمل درآمد کے اقدامات بھی کیے جانے چاہیے، ان کان کنوں کو جان کنی کے عالم سے نکالنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں