سب اچھا ہے گاڈ سیو دی کنگ
کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی سائیکلیں اچھی خاصی چل رہی تھیں لیکن اب وہ تقریباً بند ہونے کو ہیں
چونکہ ہم مملکت اُلٹ پلٹ میں رہتے ہیں اس لیے یہاں سب کچھ اُلٹا پلٹا رہتا ہے۔ غنڈوں، بدمعاشوں اور گینگسٹروں کو یہاں لیڈر اور رہنما کہا جاتا ہے اور معصوم پچاسی فیصد عوام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قید با مشقت اور حبس دوام کی سزا مل چکی ہے۔ جو کچھ نہیں کرتے وہ سب کچھ ہڑپتے اور جو سب کچھ کماتے ہیں ان کو مرگ مفاجات اور بھوک ننگ کی سزا دی جاتی ہے ۔ اس لیے یہ آج کل جو سب سے زیادہ زیر بحث موضوع ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے اور اندازہ ہے کہ مزید بڑھے گی ۔
اسے بھی الٹے سرے الٹا پکڑا گیا ہے ۔ ڈالر کی قیمت ذرہ بھی نہیں بڑہی ہے، وہ پیڑ کی طرح اپنے مقام پر ویسے ہی کھڑا ہے جیسے آزادی ملنے (؟)کے بعد اس کی قیمت تین سے پانچ روپے تک تھی ۔ بلکہ ہمارا یہ روپیہ مسلسل پھسل رہا ہے اور وہ بھی حکمرانوں نے ڈھلوان پر کھڑا کرکے زور کا دھکا لگایا ہوا ہے بلکہ اب بھی لگا رہے ہیں او ر اس کے پھسلتے قدموں پر مزید پانی چھڑک رہے ہیں ۔
ایوب خان کے زمانے میں جب آٹا بیس روپے من ہوگیا تھا، وہ بھی چالیس پکے سیروں کا من جو آج کے پچاس کلو کے برابر ہے تو ہمیں یاد ہے حبیب جالب نے پشاور کے چوک یاد گار میں جب فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان صدارتی مقابلہ تھا تو اس نے ایک شعر پڑھا تھا جس کا مفہوم خود شعر کے اندر موجود ہے کہ
بیس روپئے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
چینی جب آٹھ آنے سے دس آنے سیر او رگوشت بارہ آنے سیر سے ایک روپیہ ہو گیا تو پورے ملک میں اودھم مچ گیا اور وزیر خوراک نوابزادہ غفور ہوتی کو استعفا دینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
ایک بھینس ہم نے خود تیرہ سو روپے میں خریدی تھی جیسے دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے کیونکہ بھینسوں کی عام قیمت آٹھ نو سو روپے ہوتی تھی۔ چائے کی پتی چھ روپے پکا سیر اور وناپستی گھی 3روپے جب کہ دیسی گھی دس روپے سیر تھا۔ میں جب ملازم ہوا تو ماہانہ تنخوا 32روپے تھی، روزانہ مزدوری آٹھ آنے ہوا کرتی تھی ۔
یہ ہم محض قصہ کہانی کا شوق پورا کرنے کے لیے نہیں بتا رہے ہیں بلکہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو اکثر ایک زرعی ملک کہا جاتا ہے لیکن زراعت اس حال میں ہے کہ لوگ زمینیں بیچ بیچ کر شہروں کی طرف بھاگ رہے ہیں اور ان زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائیاٹیاں اور ٹاؤن یعنی لوہے اور سیمنٹ کے جنگل ابھر رہے ۔ زرعی اجناس اتنی مہنگی ہیں تو پھر کساں بھاگ کیوں رہا ہے، اس لیے کہ درمیان میں یعنی پیدا کنندہ اور صارف کے درمیان اشرافیہ گھس کر دونوں کو لوٹتی ہے۔ آخر یہ ہمارا روپیہ مسلسل گر کیوں رہا ہے، ذرا پڑوس میں نظر ڈال لیجیے۔ ابتدا میں پاکستان اور بھارت کا روپیہ تقریباً برابر تھا ۔آج ہمارا روپیہ آدھے سے کم رہ گیا ہے، ان کے سو روپے خریدنے کے لیے ہمیں دو سو دینا پڑتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی سائیکلیں اچھی خاصی چل رہی تھیں لیکن اب وہ تقریباً بند ہونے کو ہیں کہ چائنا کی سائیکلیں بے تحاشاہ آرہی ہیں۔ بیٹری سیل الہ دین، تھری اسٹار اور کچھ دوسرے عام بنتے تھے اور خوب چلتے تھے لیکن اب ان کا نام ونشان نہیں ہے ۔گاڑیاں اس ملک میں اتنی زیادہ ہیں کہ سڑکیں کم پڑ گئی ہیں لیکن ان میں ایک بھی گاڑی پاکستان کی بنی ہوئی نہیں ہوتی۔ اور اشرافیہ کی لاڈلی خواتین کے لیے جو چیز یں مخصوص ہیں، وہ امپورٹ کا سب سے بڑا آئیٹم ہے۔ گھڑی ایک بھی نہیں بنائی جا سکی ، سوائی اور دھاگہ دونوں باہر سے آتے ہیں، سٹیشنری کا سامان تقریباً سارا غیر ملکی ہے ۔
کوئی کہاں تک گنائے کیونکہ پاکستان میں ابھی تک کوئی '' حکومت '' آئی ہی نہیں جب کہ کام صرف حکومتیں کرتی ہیں غنڈوں کے گینگ صرف لوٹتے ہیں۔
وہ پرانے زمانے کی چالیس چوروں والی کہانی کو اگر ہم یاد کریں اور یاد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ تو سامنے چل رہی ہے، چور بھی سامنے ہیں اور چوروں کا غار بھی۔ سوئزر لینڈ اور انگلینڈ امریکا میں واقع ہے بلکہ اب تو ان غاروں کی شاخیں دبئی اور مشرق بعید میں کھل چکی ہیں لیکن افسوس کہ ابھی '' علی بابا '' اور مرجینا پیدا نہیں ہوئے ہیں ۔
اب یہ جو نئے نویلوں کی فوج ظفر موج آئی ہے، دیکھیے پاتے ہیں ''عشاق '' بتوں سے کیا فیض۔ ایک ''برھمن''نے تو کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے لیکن یہ محض لوری ہے کہ نئے نویلوں کی فوج میں وہی پرانے پاپی شامل ہیں اور چالیس چوروں کی کچھ ٹولیاں بھی ۔وہی ہوگا جو ایک پرانی کہانی میں ہوا تھا کہ عوام بادشاہ سے تنگ آگئے۔ مقتولوں کے جنازے لے کر شاہی محل کے سامنے بین کرنے لگے۔ شاہی محل سے حکم آیا کہ تم اپنا ایک لیڈر میرے پاس بھیجو جو تمہارے مطالبات پیش کرے۔ لوگوں نے اپنا نہایت ہی پاپولر بڑ بولا اور تیز و طرار لیڈر بھیجا ۔ محل کی پہلی منزل پر اس سے کہا گیا کہ تمہیں اپنی زبان یہاں چھوڑنے پڑے گی اور شاہی سرکاری زبان لگوانی پڑے گی۔
یوں ہر منزل پر اس کی آنکھیں کان اور زبان بدل کر شاہی کر دی گئی۔ اور حیرت انگیز طور پر جب اس نے کھڑکی سے جھانکا تو لاشوں اور جنازوں کی جگہ ڈولیاں نظر آئیں اور روتی پٹتی جنتا ناچنے گاتے دکھائی دی۔ اتنے میں وہ تیسری منزل جہاں بادشاہ بیٹھا ہو ا تھا ، پہنچ گیا ۔ بادشاہ نے پوچھا ،کیا بات ہے۔بڑبولے لیڈر نے ایک مرتبہ پھر کھڑکی سے دیکھ کر عوام کونا چتے گاتے دیکھا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا ۔ اور یوں گویا ہوا، حضور رعایا خوش ہے ،کوئی غم نہیں، ہر طرف خوشیوں کے شادیانے بچ رہے ہیں، بادشاہ زندہ باد، گاڈی سیو دی کنگ ۔
اسے بھی الٹے سرے الٹا پکڑا گیا ہے ۔ ڈالر کی قیمت ذرہ بھی نہیں بڑہی ہے، وہ پیڑ کی طرح اپنے مقام پر ویسے ہی کھڑا ہے جیسے آزادی ملنے (؟)کے بعد اس کی قیمت تین سے پانچ روپے تک تھی ۔ بلکہ ہمارا یہ روپیہ مسلسل پھسل رہا ہے اور وہ بھی حکمرانوں نے ڈھلوان پر کھڑا کرکے زور کا دھکا لگایا ہوا ہے بلکہ اب بھی لگا رہے ہیں او ر اس کے پھسلتے قدموں پر مزید پانی چھڑک رہے ہیں ۔
ایوب خان کے زمانے میں جب آٹا بیس روپے من ہوگیا تھا، وہ بھی چالیس پکے سیروں کا من جو آج کے پچاس کلو کے برابر ہے تو ہمیں یاد ہے حبیب جالب نے پشاور کے چوک یاد گار میں جب فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان صدارتی مقابلہ تھا تو اس نے ایک شعر پڑھا تھا جس کا مفہوم خود شعر کے اندر موجود ہے کہ
بیس روپئے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
چینی جب آٹھ آنے سے دس آنے سیر او رگوشت بارہ آنے سیر سے ایک روپیہ ہو گیا تو پورے ملک میں اودھم مچ گیا اور وزیر خوراک نوابزادہ غفور ہوتی کو استعفا دینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
ایک بھینس ہم نے خود تیرہ سو روپے میں خریدی تھی جیسے دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے کیونکہ بھینسوں کی عام قیمت آٹھ نو سو روپے ہوتی تھی۔ چائے کی پتی چھ روپے پکا سیر اور وناپستی گھی 3روپے جب کہ دیسی گھی دس روپے سیر تھا۔ میں جب ملازم ہوا تو ماہانہ تنخوا 32روپے تھی، روزانہ مزدوری آٹھ آنے ہوا کرتی تھی ۔
یہ ہم محض قصہ کہانی کا شوق پورا کرنے کے لیے نہیں بتا رہے ہیں بلکہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو اکثر ایک زرعی ملک کہا جاتا ہے لیکن زراعت اس حال میں ہے کہ لوگ زمینیں بیچ بیچ کر شہروں کی طرف بھاگ رہے ہیں اور ان زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائیاٹیاں اور ٹاؤن یعنی لوہے اور سیمنٹ کے جنگل ابھر رہے ۔ زرعی اجناس اتنی مہنگی ہیں تو پھر کساں بھاگ کیوں رہا ہے، اس لیے کہ درمیان میں یعنی پیدا کنندہ اور صارف کے درمیان اشرافیہ گھس کر دونوں کو لوٹتی ہے۔ آخر یہ ہمارا روپیہ مسلسل گر کیوں رہا ہے، ذرا پڑوس میں نظر ڈال لیجیے۔ ابتدا میں پاکستان اور بھارت کا روپیہ تقریباً برابر تھا ۔آج ہمارا روپیہ آدھے سے کم رہ گیا ہے، ان کے سو روپے خریدنے کے لیے ہمیں دو سو دینا پڑتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی سائیکلیں اچھی خاصی چل رہی تھیں لیکن اب وہ تقریباً بند ہونے کو ہیں کہ چائنا کی سائیکلیں بے تحاشاہ آرہی ہیں۔ بیٹری سیل الہ دین، تھری اسٹار اور کچھ دوسرے عام بنتے تھے اور خوب چلتے تھے لیکن اب ان کا نام ونشان نہیں ہے ۔گاڑیاں اس ملک میں اتنی زیادہ ہیں کہ سڑکیں کم پڑ گئی ہیں لیکن ان میں ایک بھی گاڑی پاکستان کی بنی ہوئی نہیں ہوتی۔ اور اشرافیہ کی لاڈلی خواتین کے لیے جو چیز یں مخصوص ہیں، وہ امپورٹ کا سب سے بڑا آئیٹم ہے۔ گھڑی ایک بھی نہیں بنائی جا سکی ، سوائی اور دھاگہ دونوں باہر سے آتے ہیں، سٹیشنری کا سامان تقریباً سارا غیر ملکی ہے ۔
کوئی کہاں تک گنائے کیونکہ پاکستان میں ابھی تک کوئی '' حکومت '' آئی ہی نہیں جب کہ کام صرف حکومتیں کرتی ہیں غنڈوں کے گینگ صرف لوٹتے ہیں۔
وہ پرانے زمانے کی چالیس چوروں والی کہانی کو اگر ہم یاد کریں اور یاد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ تو سامنے چل رہی ہے، چور بھی سامنے ہیں اور چوروں کا غار بھی۔ سوئزر لینڈ اور انگلینڈ امریکا میں واقع ہے بلکہ اب تو ان غاروں کی شاخیں دبئی اور مشرق بعید میں کھل چکی ہیں لیکن افسوس کہ ابھی '' علی بابا '' اور مرجینا پیدا نہیں ہوئے ہیں ۔
اب یہ جو نئے نویلوں کی فوج ظفر موج آئی ہے، دیکھیے پاتے ہیں ''عشاق '' بتوں سے کیا فیض۔ ایک ''برھمن''نے تو کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے لیکن یہ محض لوری ہے کہ نئے نویلوں کی فوج میں وہی پرانے پاپی شامل ہیں اور چالیس چوروں کی کچھ ٹولیاں بھی ۔وہی ہوگا جو ایک پرانی کہانی میں ہوا تھا کہ عوام بادشاہ سے تنگ آگئے۔ مقتولوں کے جنازے لے کر شاہی محل کے سامنے بین کرنے لگے۔ شاہی محل سے حکم آیا کہ تم اپنا ایک لیڈر میرے پاس بھیجو جو تمہارے مطالبات پیش کرے۔ لوگوں نے اپنا نہایت ہی پاپولر بڑ بولا اور تیز و طرار لیڈر بھیجا ۔ محل کی پہلی منزل پر اس سے کہا گیا کہ تمہیں اپنی زبان یہاں چھوڑنے پڑے گی اور شاہی سرکاری زبان لگوانی پڑے گی۔
یوں ہر منزل پر اس کی آنکھیں کان اور زبان بدل کر شاہی کر دی گئی۔ اور حیرت انگیز طور پر جب اس نے کھڑکی سے جھانکا تو لاشوں اور جنازوں کی جگہ ڈولیاں نظر آئیں اور روتی پٹتی جنتا ناچنے گاتے دکھائی دی۔ اتنے میں وہ تیسری منزل جہاں بادشاہ بیٹھا ہو ا تھا ، پہنچ گیا ۔ بادشاہ نے پوچھا ،کیا بات ہے۔بڑبولے لیڈر نے ایک مرتبہ پھر کھڑکی سے دیکھ کر عوام کونا چتے گاتے دیکھا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا ۔ اور یوں گویا ہوا، حضور رعایا خوش ہے ،کوئی غم نہیں، ہر طرف خوشیوں کے شادیانے بچ رہے ہیں، بادشاہ زندہ باد، گاڈی سیو دی کنگ ۔