غازی بریگیڈیئر ر محمد یوسف مرحوم کے نام

ان کی تردید سے متعلق جو کچھ انھوں نے کہا، اس کا خلاصہ بیان کرنا ضروری ہے

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

بہت سال پہلے یہ اگست کی ایک تیکھی اور چمکیلی صبح تھی۔ میںاسلام آباد ائرپورٹ اترا۔ وہاں سے ایک گاڑی لی اور اب میرا رخ واہ کینٹ کی طرف تھا، جہاں مجھے روس کے خلاف افغانستان میں لڑی جانے والی دنیا کی خوفناک ترین گوریلا جنگ کے ایک گمنام ہیرو بریگیڈئر محمد یوسف سے ملنا تھا۔ میں اس گوریلا جنگ پر تحقیقی رپورٹ تیار کر رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ بریگیڈئر محمد یوسف، جو 1983ء سے 1987ء تک آئی ایس آئی کے افغان سیل کے سربراہ رہے، ان دنوں واہ کینٹ میں گوشہ نشین ہیں اور بہت کم کسی سے ملتے ہیں۔بہرحال میں نے بھی ایک ذریعہ ڈھونڈ لیا اور ان سے جہاد افغانستان پر تفصیلی گفتگو کے لیے وقت لینے میں کام یاب ہو گیا۔اس وقت تک اس موضوع پر ان کی دو کتابیںThe Silent Soldier اورThe Bear Trap منظر عام پر آچکی تھیں۔

واہ کینٹ کے اوپرآسمان پر بادل چھا رہے تھے اور ایسی تیز ہوا چل رہی تھی کہ حبس کا احساس جاتا رہا تھا۔ سیٹیلائٹ ٹاون میں داخل ہوا تو میرا خیال تھا کہ بریگیڈئر محمد یوسف کسی محل نما مکان میں مقیم ہوں گے۔ سن رکھا تھا کہ دوران جنگ افغان تنظیموں کو کروڑوں ڈالر کااسلحہ اور ایمونیشن انھی کے ہاتھوں تقسیم ہوتا تھا، جس میں معمولی سا ہیر پھیر بھی ان کے وارے نیارے کرنے کے لیے کافی تھا۔ لیکن جب میں ان کے لکھوائے ہوئے ایڈریس پر پہنچا تو مجھے سخت دھچکا لگا۔ یہ دس مرلہ یا اس سے کچھ زیادہ کا عام سا مکان تھا۔ میں نے بیل دی تو اندر سے انتہائی سادہ لباس میں ایک صاحب برآمد ہوئے، جی میں ہی بریگیڈئر محمد یوسف ہوں۔

اندر ڈرائننگ روم میں داخل ہوا تو وہ بھی سادگی کا نمونہ پیش کر رہا تھا۔ پہلی نظر میں یہ کسی سفید پوش زمیندار کا گھر معلوم ہوتا تھا۔ مکان کا بیرونی حصہ پلستر ہو چکا تھا، مگر پینٹ اندرونی حصہ میں ہی ہوا تھا۔ میری حیرانی بھانپ کر ہنستے ہوئے کہنے لگے، گھر بنانا آسان تھوڑا ہے ، ابھی لگے ہوئے ہیں۔ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ ان کی تاریخ پیدائش 1937ء کی ہے۔ 1961ء میں انفنٹری آفیسر کی حیثیت سے فرنٹیر فورس رجمنٹ میں کمیشن ملا، اس کے بعد کئی جگہ پر ڈیوٹی کی، مگر آئی ایس آئی میں ذمے داری ملنے کا انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔

اس کی وجہ کیا تھی اور پھر یہ سب کیسے ہوا؟ میں نے حیرت سے پوچھا

''میری انٹیلی جنس کی ٹریننگ نہیں تھی'' بریگیڈئر محمد یوسف مسکرائے اور اس مسکراہٹ میں بڑی طمانیت تھی۔ ''میں اس وقت کوئٹہ میں ایک بریگیڈ کمانڈ کر رہا تھا، جب مجھے فون کال آئی کہ میرا تبادلہ آئی ایس آئی میں کر دیا گیا ہے اور اگلے 72 گھنٹوں میں مجھے اسلام آباد رپورٹ کرنا ہے۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ میں نے سمجھا، ضرور کسی کو غلطی لگی ہے۔ لیکن اگر واقعی ایسا ہے، جیسا میں نے سنا ہے تو اس کا مطلب ہے ، میرا فوجی کیرئر ختم ہوا۔ میں میدان جنگ کا آدمی ہوں، جب کہ انٹیلی جنس کی دنیا ہی اور ہے۔ ان دنوں 30 کے لگ بھگ جن بریگیڈئروں کے تبادلے ہوئے، ان میں آئی ایس آئی میں تعینات ہونے والا میں واحد بریگیڈئر تھا۔ میں اسی شش وپنج میں مبتلا تھاکہ دوسرے روز مجھے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اختر عبدالرحمن آیا ۔ میں نے موقع غنیمت جانا اوران کو صاف کہہ دیا کہ میرا انٹیلی جنس کا کوئی تجربہ نہیں اور نہ رجحان ہے۔


آپ نے شاید غلط آدمی کاانتخاب کر لیا ہے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کہنے لگے، میں نے آپ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ یہ ذمے داری آپ احسن طریقہ سے نبھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آپ کے فوجی کریئر میں بہت بڑا بریک تھرو ہو گااور آپ ہمیشہ اس پر ناز کریں گے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میری ذمے داری ان کی نگرانی میںافغانستان میں افغان مزاحمت کاروں کے لیے جنگی حکمت عملی وضع کرنا اوران کو اسلحہ اور ایمیونیشن کی منصفانہ تقسیم یقینی بنانا تھا۔ یہ دونوں کام میری جنگی تربیت اور مزاج کے عین مطابق تھے۔بریگیڈئر محمد یوسف سے ملاقات میں ، جو کئی گھنٹوں پر محیط تھی،انھوںنے سوویت یونین کے خلاف افغان جدوجہد میں کے بارے میں محیرالعقول واقعات سنائے، یہ تفصیلات تو کسی ضخیم کتاب میں ہی سما سکتی ہیں، لیکن اس جنگ میں پاکستان کے کردار کے بارے میں وہ منفی تصورات جو مغربی مصنفین کی تصانیف کے پیداکردہ ہیں۔

ان کی تردید سے متعلق جو کچھ انھوں نے کہا، اس کا خلاصہ بیان کرنا ضروری ہے۔مثلاً ؛ان کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت کے بارے میں مغربی مصنفین کی بیشتر کتابیں اخباری معلومات پر مبنی ہیں، جن میں صداقت کا عنصر بہت کم ہے۔ یہ کتابیں جن مصنفین نے لکھی، ان کا تمام تر انحصاران افغان کمانڈروں کی مہیا کردہ معلومات پر تھا، جو افغانستان میں ان کے میزبان بنتے تھے۔ بقول بریگیڈئر یوسف کے،اس کے بعد جنرل اختر عبدالرحمن کی وضع کردہ پالیسی سے انحراف کیا گیا اور پاکستان براہ راست اس جنگ میں کود پڑا، جس کے نتیجہ میں جلال آباد تو فتح نہ ہوا، الٹا سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی واضح جیت دھندلا کے رہ گئی اور افغان مزاحمت کار آپس میں ہی جنگ آزما ہو گئے۔

ایک جیتی ہوئی بازی پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ساون کی گھٹا نے شام کا سماں پیدا کردیا تھا، جب میںواہ کینٹ سے نکلا۔ اب میں واپس اسلام آباد ایئرپورٹ کی طرف رواں دو اں تھا۔اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ یہ میری اس غازی سے پہلی اور آخری ملاقات ہے۔اس کے بعد ایک دو بار فون پر ان سے بات ہو سکی۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں اور نازاں و فرحاں اپنے رب کے حضور حاضر ہو چکے۔ لیکن اب بھی اگست کے مہینے میں جب میں کوئی تیکھی اور چمکیلی صبح دیکھتا ہوں، مرطوب ہوا چلتی ہے اور تیز ہوتی جاتی ہے، اور حبس کا احساس جاتا رہتا ہے تو یاد کے کسی گوشہ میں واہ کینٹ کے اس مکان کا در وا ہو تا ہے اور ایک مرددرویش، ایک غازی بڑی انکساری سے آکے کہتا ہے، جی میں ہی بریگیڈئر محمد یوسف ہوں، تشریف لائیں۔

شاعر نے کہا تھا،

وہ ملا تھا راہ میں اک شام کو

پھر اسے میں نے یہاں ڈھونڈا بہت
Load Next Story