مسلم لیگ ن کی قیادت اور اُس کے فیصلے

اُن کا نظریہ اورنکتہ نظر شروع ہی سے میاں صاحب کے بیانیے سے مختلف رہا ہے

mnoorani08@gmail.com

میاں شہباز شریف بلاشبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طورپر ایک اچھے ایڈمنسٹر ضرور ثابت ہوئے لیکن پارٹی کے سربراہ یا صدرکی حیثیت میں وہ ابھی تک کوئی متاثرکن کارکردگی نہیں دکھا پائے۔ اُنہوں نے پنجاب کے سول سرونٹ اور بیوروکریسی کو بڑی حد تک کنٹرول میں رکھا مگر مسلم لیگ (ن) کے قائد اور لیڈرکی حیثیت سے وہ ابھی تک کوئی جوہر نہیں دکھا سکے بلکہ اگر یہ کہا جائے توشاید غلط نہیں ہوگا کہ اُن کی لیڈر شپ میں پارٹی نے ابھی تک مسلسل نقصان ہی اُٹھایا ہے۔گزشتہ تقریباً ایک سال میں جب سے وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ بنے ہیں جب جب پارٹی کو انتہائی مشکل اورکٹھن حالات کاسامنا رہا ہے اور قیادت کی جانب سے دانش مندانہ بصیرت افروز فیصلوں کی ضرورت رہی ہے،دیکھا یہ گیا ہے کہ پارٹی کی قیادت لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

اُس نے وہ فیصلے کیے ہی نہیں یااُن کے کرنے میں اتنی سستی اور کاہلی دکھائی کہ اُن فیصلوں کی اہمیت ضایع ہوکر رہ گئی۔ جہاں جہاں اور جس جس موقعے پر پارٹی کی قیادت کی موجودگی انتہائی اہم اور ضروری تصورکی جاتی تھی وہ وہاں بروقت پہنچنے میں قاصر رہی۔الیکشن سے قبل جب پارٹی کے سابق سربراہ نے احتساب عدالت کے فیصلہ سنائے جانے کے بعد اپنی صاحبزادی کے ہمراہ وطن واپسی کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا توخیال کیاجاتا تھا کہ میاں شہباز شریف اِس موقعے کو ایک سنہری موقعہ جانتے ہوئے اپنی ساری توانائی خرچ کردیں گے اور منظم طور پر عوام کے احساسات اور رائے عامہ کو متحرک کرکے اچھی طرح کیش کروالیں گے، لیکن وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔

فلائٹ کے دو تین گھنٹے لیٹ ہو جانے کے باوجود وہ مقررہ وقت پر جلوس کی قیادت کرتے ہوئے ائیرپورٹ پہنچنے میں ناکام رہے۔اُنہوں نے یہ تاخیر حفظ ماتقدم کے طور پرخود اپنی طے شدہ حکمت عملی کے تحت اپنائی تھی یا پھر مصلحتاً کسی انجانے خوف یاکسی مجبوری کے تحت ایسا کیا تھا۔ وہ شاید مقتدرحلقوں کو اپنے بارے میں کوئی اچھا اور بہتر تاثر پہنچانا چاہتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ میاں صاحب کے لیے بھی اُمید وآس کا ایک درکھلا رکھنا چاہتے تھے۔

اُن کا نظریہ اورنکتہ نظر شروع ہی سے میاں صاحب کے بیانیے سے مختلف رہا ہے۔ وہ اداروں سے کسی بھی قسم کی محاذآرائی سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ خلائی مخلوق کے بارے میں بھی اُن کی رائے بڑے میاں سے بہت مختلف رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ 13 جولائی کو لاہور شہر میں میاں صاحب کی زبردست حمایت کے باوجوداُن کے استقبال کے لیے آنے والوں کو اُنہوں نے ایک غصیلے اور اشتعال انگیز مجمعے میں بدلنے سے روکے رکھا۔وہ جب سے پارٹی کے سربراہ بنے ہیں مقتدر حلقوں سے وہ مسلسل مفاہمانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔اُن کی کسی تقریر، بیان اور زبان سے ابھی تک ایک بھی لفظ اِن حلقوں کی مبینہ زیادیتوں کے خلاف نہیں نکلا۔وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اِس طرح وہ اپنے بڑے بھائی کی کچھ مدد کرسکتے ہیں۔


حالانکہ اُن کے اِس مفاہمانہ رویے کے باوجود دوسری سمت سے ابھی تک کوئی مثبت ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔بلکہ شہباز شریف کے اِس طرزعمل سے پارٹی کا اپنا مسلسل نقصان ہورہا ہے۔ سابقہ قیادت قید وبندکی صعوبتیں بھگت رہی ہے اوراُنہیں ابھی تک کوئی ریلیف بھی نہیں ملا۔دوسری جانب عوام میں بھی اب وہ جوش وخروش اور ولولہ ٹھنڈا پڑتا جا رہا ہے جو میاں صاحب کے جلسے اور جلوسوں میں کچھ دن پہلے تک دیکھا جاتا تھا۔پارٹی نے اگر تمام مشکلات اور پابندیوں کے باوجود اچھی خاصی تعداد میں حالیہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے تو وہ بھی میاں نواز شریف کے بیانیہ اور مخالف قوتوں کے خلاف ڈٹ جانے کی وجہ سے حاصل کی ہے۔ شہباز شریف کی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں۔میاں نواز شریف کو گرفتار ہوئے تقریباً ایک ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اُن کی اپیل کی ایک بھی سماعت نہیں ہوپائی ہے اور نہ کسی عدالت سے اُن کی ضمانت پر رہائی بھی ممکن ہوپائی ہے۔کبھی کوئی جج چھٹی پر چلا جاتا ہے اورکبھی کوئی جج سماعت کرنے یا کیس سننے سے معذرت کرجاتا ہے یا پھر کسی جج کو جانبداری کے خدشات کے تحت کیس کے مقررہ بینچ سے ہی علیحدہ کردیا جاتا ہے۔

پہلے سمجھا گیا کہ الیکشن کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن اب تو الیکشن کو ہوئے بھی 20 روز ہوچکے ہیں مگر شنوائی میں مسلسل لیت ولعل سے کام لیا جارہا ہے۔ جو تیزی اور پھرتی فیصلہ سنانے میں دکھائی گئی تھی وہ اب اُس کے خلاف اپیل کی سماعت میں کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ میاں شہباز شریف کے بجائے آج اگر پارٹی کی قیادت کسی اور شخص کے ہاتھ میں ہوتی تو وہ شاید اِسی معاملے کو لے کر اتنا شور مچا چکا ہوتا کہ پس پردہ کارفرما تمام معزز اور باعزت حضرات کو اپنی رہی سہی ساکھ بچانے کی فکر لاحق ہوتی۔

میاں شہباز شریف نے دوسری اہم پسپائی 9 اگست کو دکھائی جب الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ساری اپوزیشن نے ملکر الیکشن کمیشن اسلام آباد کے دفتر کے سامنے بھر پور احتجاج کا پروگرام بنایا اور وہ اِس موقعے پر بھی فلائٹ نہ ملنے کا بہانہ کر کے منظر نامے سے غائب رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے ہمیںاِس لیے گلہ نہیں کہ اُن کی پارٹی پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ ابھی سے سڑکوں پر آنا نہیں چاہتی۔ فی الحال وہ پارلیمنٹ کے اندر ہی رہتے ہوئے احتجاج کے حامی ہیں۔ویسے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو اِس الیکشن میں توقعات سے کچھ زیادہ ہی کامیابیاں ملی ہیں لہذا وہ احتجاج کریں تو کیونکر کریں۔فکر تو وہ لوگ کریں جو سمجھتے ہیں کہ اُن کا مینڈیٹ مبینہ طور پر چھینا گیا ہے یاچوری کیاگیا ہے۔میاں شہباز شریف کی سیاسی بصیرت اور قابلیت کااندازہ بھی اُن کی حالیہ کارکردگی سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے جب اُنہوں نے صوبہ پنجاب میں عددی برتری حاصل ہوجانے کے باوجود وہاں اپنی حکومت بنانے کے لیے معمولی سے بھی کوشش نہیں کی اور اپنے مخالفوں کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا۔یہی حال مرکز میں بھی دیکھا گیا۔

سیاست کے کھیل میں رہتے ہوئے جیت جانے کی کوشش نہ کرنا یا اُس سے اجتناب کرنا کسی بھی پارٹی کی اعلیٰ لیڈر شپ کے شایان شان نہیں ہے۔مجبوریاں اور مصلحتیں اپنی جگہ لیکن دشمنوں کے سامنے یوں ہتھیار ڈال دینا اُنہیں کسی طور زیب نہیں دیتا تھا۔اُن کے ہمت ہار جانے کے ایسے ہی رویوں سے مسلم لیگ (ن) کے دیرینہ کارکنوں میں بھی مایوسی اور بدگمانی پھیلی ہے۔پارٹی اگر ابھی تک قائم و دائم ہے تووہ صرف میاں نوازشریف کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت قائم ہے۔ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتے ہوئے بھی اپنے دشمنوں کے لیے خوف اور خطرے کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی ضمانت پر رہائی میں مختلف طریقوںسے روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے اُنہیں سیاست سے آؤٹ کرنے کی اگر کوششیں نہیں کی جاتیں تو2018ء کا الیکشن جیت جانے سے اُنہیں کوئی روک نہیں سکتا تھا۔پاناما کیس کا یہ سارا منظر نامہ ہی اُن کا راستہ روکنے اور اپنے پسندید ہ اور مطلوب چہروں کے لیے ماحول سازگار بنانے کی غرض سے ترتیب دیاگیا تھا۔

میاں شہباز شریف میں قائدانہ صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ انھیں اب کسی حال میں پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن لیڈر نہیں بننا چاہیے۔ وہ یہ ذمے داری کسی اور کے حوالے کردیں۔اُنہوں نے ابھی تک صرف حکمرانی ہی کی ہے اور وہ بھی صرف ایک صوبے تک۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر وہ کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔ اُن کے اندر وہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہی نہیں ہیں جو اِس منصب کے لیے ضروری اور اہم تصور کی جاتی ہیں۔بلکہ اُنہیں تو پارٹی کی قیادت بھی اب کسی اور کے حوالے کردینی چاہیے۔ایک تجزیہ نگار نے تواُنہیں مسلم لیگ کی سیاست کا گورکن تک کہہ ڈالا ہے۔میاں شہباز شریف کو اب اپنے اِس طرزعمل کو بدلنا ہوگا یا پھر لوگوں کی رائے کوتسلیم کرتے ہوئے پارٹی کی قیادت کسی قابل اور باصلاحیت شخص کے حوالے کردینی ہوگی۔
Load Next Story