پی ٹی آئی کی اکثریت کے باوجود اپوزیشن مقابلہ کرے گی
خیبرپختونخوا اسمبلی کے لیے خواتین اور اقلیتی نشستوں کی تقسیم کے بعد پاکستان تحریک انصاف کودوتہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے
KARACHI:
خیبرپختونخوا اسمبلی کے لیے خواتین اور اقلیتی نشستوں کی تقسیم کے بعد پاکستان تحریک انصاف کودوتہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے اور یہ بات بڑی واضح ہے کہ پی ٹی آئی بڑی سہولت کے ساتھ نہ صرف یہ کہ قائد ایوان کا انتخاب کرلے گی بلکہ آج اسپیکر اورڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں بھی پی ٹی آئی کو کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی لیکن اس کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے مذکورہ تینوں عہدوں پر حکومت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس کا واحد مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں یہ جانچنے کے لیے کوشاں ہیں کہ انھیں ان تینوں عہدوں پر اپنے ارکان کے پورے ووٹ مل سکیں کیونکہ دوسری جانب گو کہ تحریک انصاف کواپنے ووٹوں کے علاوہ (ق)لیگ کے ایک رکن کا ووٹ بھی ملے گا اور دیگر تین آزاد ارکان میں سے بھی ایک کا ووٹ پی ٹی آئی کی طرف آسکتاہے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کوشش کرے گی کہ اپوزیشن جماعتوں کو رام کرتے ہوئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عہدوں پر اپنے امیدواروں کا انتخاب 2013ء کی طرح بلامقابلہ کرالے تاکہ سپیکر آفس کے اپوزیشن کے ساتھ دوستانہ روابط قائم ہوسکیں۔
اپوزیشن جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں اور ان کی جانب سے مسلسل حالیہ انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیاجا رہا ہے ایسے میں اگر اپوزیشن جماعتیں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عہدوں کے لیے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے مقابلے میں اپنے امیدوار دستبردار کراتی ہیں تو اس کا واضح مطلب اپنے موقف سے دستبردار ہونا ہوگا اس لیے چار جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اپنے موقف کو تقویت دینے کے لیے تینوں عہدوں پر پی ٹی آئی کا مقابلہ کرے گی، عام انتخابات کو نصف ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کے لب ولہجے کی تلخی میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ اپوزیشن نچلی بیٹھے گی بلکہ اس نئی پانچ سالہ پارلیمانی اننگ کے دوران اپوزیشن پی ٹی آئی کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔
گوکہ اپوزیشن میں بیٹھی جماعتیں عام انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھیں اور انہوں نے ایک دوسرے سے نشستیں بھی جیتی ہیں تاہم مجموعی طور پر چونکہ اپوزیشن میں بیٹھی تمام ہی سیاسی جماعتوں کو تحریک انصاف کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا ہے اس لیے وہ تمام پی ٹی آئی کی مخالفت میں یکجا ہیں اور یہ اکٹھ مرکز سے لے کر خیبرپختونخوا تک قائم ہے اس لیے آپس میں اختلافات کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کو بہرکیف اکٹھا ہوکر ہی چلنا پڑے گا، تاہم اپوزیشن جماعتیں جس لب ولہجے کا استعمال کر رہی ہیں اورمخالفت کا جو انداز اپنائے ہوئے ہیں۔
یہ زیادہ دیر چل نہیں سکے گا اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے لب ولہجے اور پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا، چونکہ اب تک صورت حال الگ تھی کہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد اسمبلیوں نے کام شروع نہیں کیا تھا اس لیے اپوزیشن جماعتیں باہر احتجاج کرنے اور اپنا غصہ نکالنے پر مجبور تھیں تاہم اسمبلیوں کے کام شروع کرنے کے بعد صورت حال الگ ہونی چاہیے کیونکہ ان پارٹیوں کو پی ٹی آئی کی مخالفت اوراپوزیشن کرنے کا فورم دستیاب آگیا ہے۔
تحریک انصاف اہم عہدوں پر تقرریوں کے حوالے سے جن مشکلات کا شکار تھی اس میں کچھ حد تک تو کمی آئی ہے تاہم اب بھی بہت ساری مشکلات موجود ہیں کیونکہ کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ باقی ہے اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ہر امیدوارکی اسمبلی میں پہنچنے کے بعد نظریں وزارت پر ہی لگی ہوئی ہیں۔
پانچ سال پہلے چونکہ تحریک انصاف اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی اور اس نے جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی اورعوامی جمہوری اتحاد پاکستان کو بھی حکومت سازی کے لیے ساتھ شامل کیا تھا اس لیے وزارتوں میں بھی ان تینوں پارٹیوں کو حصہ دینا پڑا تھا تاہم آج تحریک انصاف کو ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں اس نے صرف اپنے ہی ارکان کو ایڈجسٹ کرنا ہے، اتحادی جماعت کے طور پر صرف مسلم لیگ(ق)کا ایک رکن ایوان میں موجود ہوگا جسے معاون خصوصی یا پارلیمانی سیکرٹری کا عہدہ دیتے ہوئے بہلا لیا جائیگا تاہم چونکہ تحریک انصاف کے اپنے ارکان بہت بڑی تعداد میں اسمبلی میں آئے ہیں اس لیے ان کی توقعات بھی بہت زیادہ اور بڑی ہونگی جنھیں ایڈجسٹ کرنا اور پھر پی ٹی آئی کی پالیسی کے مطابق چلنا یقینی طور پر محمود خان کی حکومت کے لیے ایک کٹھن امتحان ہوگا جس میں پورا اترنے کے لیے انھیں اپنے پیش رو پرویز خٹک سے ضرور رہنمائی لینی پڑے گی جنہوں نے پارٹی کے اندر سے بڑی مخالفت کے باوجود پانچ سال بھی نکال لیے اور پارٹی کو صوبہ میں دوبارہ برسراقتدار لانے میں بھی کامیاب ٹھہرے ہیں۔
نئی صوبائی حکومت کے لیے بظاہر تو بڑے چیلنجز نظر نہیں آرہے کیونکہ صوبہ میں تحریک انصاف مضبوط حکومت بنا رہی ہے جبکہ مرکز میں بھی تحریک انصاف کی اپنی ہی حکومت ہوگی تاہم جو مطالبات پرویزخٹک حکومت گزشتہ لیگی حکومت سے کرتی آئی ہے ان کے حوالے سے محمود خان حکومت کو ضرور جدوجہد کرنی پڑے گی کیونکہ گزشتہ پی ٹی آئی حکومت کا مرکز سے مطالبہ رہا کہ خیبرپختونخوا کے لیے بجلی کا سالانہ منافع بڑھا کر سو ارب روپے کیاجائے جس کے ساتھ ہی فوری طور پر نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کا اجراء اور اس میں صوبہ کے لیے دہشت گردی کی بنیاد پر خصوصی حصہ فراہم کرنے کے مطالبات بھی شامل رہے ہیں، صوبہ میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لیے مرکز سے سرمایہ کاری کے مطالبات بھی گزشتہ دور میں بار، بار مرکز سے کیے جاتے رہے ہیں لیکن مرکز ان مطالبات سے صرف نظر کرتا رہا لیکن اب چونکہ مرکز بھی اپنا ہی ہوگا اس لیے تحریک انصاف کی حکومت سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ ان تمام مطالبات کو ہر صورت عملی جامہ پہناتے ہوئے صوبہ میں خوشحالی کا دور شروع کیاجائے گا۔
مذکورہ صورت حال یقینی طور پر نئے وزیراعلیٰ کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگی کیونکہ اگر مرکز، خیبرپختونخوا کی جانب زیادہ توجہ نہ دے پایا تو اس صورت میں نئے وزیراعلیٰ کو اپوزیشن کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا ہوگا اور صوبہ کی عوام کی جانب سے بھی جنہوں نے مسلسل دوسری مرتبہ تحریک انصاف پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیاہے، یہ تمام امور یقینی طور پر نامزد وزیراعلیٰ محمود خان کے مدنظر ہونگے اور وہ ایسی حکمت عملی بنائیں گے کہ جس کی بنیاد پر وہ ان مطالبات کو پورا کرنے میں کامیاب رہیں، اس سلسلے میں یقینی طور پر انھیں اپنی پارٹی کے چیئرمین عمران خان اور مرکزی قائدین کی حمایت بھی حاصل ہوگی جو مرکز میں اقتدار کے ساتھ خیبرپختونخوا جیسا اپنا مضبوط مورچہ کسی بھی طور کمزور نہیں ہونے دینگے کیونکہ اسی مورچے کی بنیاد پر آج تحریک انصاف نہ صرف یہ کہ مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہوئی ہے بلکہ پنجاب اور بلوچستان میں بھی اقتدار کا حصول اس کے لیے ممکن ہو پایا ہے اور اس مورچے کی زیادہ ضرورت آئندہ سال فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے لیے منعقد ہونے والے الیکشن کے لیے بھی ہے۔
آئندہ سال نہ صرف یہ کہ فاٹا میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن ہونے جا رہا ہے اور پی ٹی آئی اس محاذ پر بھی ہر صورت کامیابی حاصل کرنا چاہے گی بلکہ ساتھ ہی اگلے سال بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ہونا ہے کہ جب تک پی ٹی آئی حکومت کو قائم ہوئے ایک سال ہوچکا ہوگا اور مذکورہ بلدیاتی انتخابات صوبائی حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کے لیے خواتین اور اقلیتی نشستوں کی تقسیم کے بعد پاکستان تحریک انصاف کودوتہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے اور یہ بات بڑی واضح ہے کہ پی ٹی آئی بڑی سہولت کے ساتھ نہ صرف یہ کہ قائد ایوان کا انتخاب کرلے گی بلکہ آج اسپیکر اورڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں بھی پی ٹی آئی کو کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی لیکن اس کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے مذکورہ تینوں عہدوں پر حکومت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس کا واحد مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں یہ جانچنے کے لیے کوشاں ہیں کہ انھیں ان تینوں عہدوں پر اپنے ارکان کے پورے ووٹ مل سکیں کیونکہ دوسری جانب گو کہ تحریک انصاف کواپنے ووٹوں کے علاوہ (ق)لیگ کے ایک رکن کا ووٹ بھی ملے گا اور دیگر تین آزاد ارکان میں سے بھی ایک کا ووٹ پی ٹی آئی کی طرف آسکتاہے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کوشش کرے گی کہ اپوزیشن جماعتوں کو رام کرتے ہوئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عہدوں پر اپنے امیدواروں کا انتخاب 2013ء کی طرح بلامقابلہ کرالے تاکہ سپیکر آفس کے اپوزیشن کے ساتھ دوستانہ روابط قائم ہوسکیں۔
اپوزیشن جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں اور ان کی جانب سے مسلسل حالیہ انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیاجا رہا ہے ایسے میں اگر اپوزیشن جماعتیں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عہدوں کے لیے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے مقابلے میں اپنے امیدوار دستبردار کراتی ہیں تو اس کا واضح مطلب اپنے موقف سے دستبردار ہونا ہوگا اس لیے چار جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اپنے موقف کو تقویت دینے کے لیے تینوں عہدوں پر پی ٹی آئی کا مقابلہ کرے گی، عام انتخابات کو نصف ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کے لب ولہجے کی تلخی میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ اپوزیشن نچلی بیٹھے گی بلکہ اس نئی پانچ سالہ پارلیمانی اننگ کے دوران اپوزیشن پی ٹی آئی کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔
گوکہ اپوزیشن میں بیٹھی جماعتیں عام انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء تھیں اور انہوں نے ایک دوسرے سے نشستیں بھی جیتی ہیں تاہم مجموعی طور پر چونکہ اپوزیشن میں بیٹھی تمام ہی سیاسی جماعتوں کو تحریک انصاف کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا ہے اس لیے وہ تمام پی ٹی آئی کی مخالفت میں یکجا ہیں اور یہ اکٹھ مرکز سے لے کر خیبرپختونخوا تک قائم ہے اس لیے آپس میں اختلافات کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کو بہرکیف اکٹھا ہوکر ہی چلنا پڑے گا، تاہم اپوزیشن جماعتیں جس لب ولہجے کا استعمال کر رہی ہیں اورمخالفت کا جو انداز اپنائے ہوئے ہیں۔
یہ زیادہ دیر چل نہیں سکے گا اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے لب ولہجے اور پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا، چونکہ اب تک صورت حال الگ تھی کہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد اسمبلیوں نے کام شروع نہیں کیا تھا اس لیے اپوزیشن جماعتیں باہر احتجاج کرنے اور اپنا غصہ نکالنے پر مجبور تھیں تاہم اسمبلیوں کے کام شروع کرنے کے بعد صورت حال الگ ہونی چاہیے کیونکہ ان پارٹیوں کو پی ٹی آئی کی مخالفت اوراپوزیشن کرنے کا فورم دستیاب آگیا ہے۔
تحریک انصاف اہم عہدوں پر تقرریوں کے حوالے سے جن مشکلات کا شکار تھی اس میں کچھ حد تک تو کمی آئی ہے تاہم اب بھی بہت ساری مشکلات موجود ہیں کیونکہ کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ باقی ہے اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ہر امیدوارکی اسمبلی میں پہنچنے کے بعد نظریں وزارت پر ہی لگی ہوئی ہیں۔
پانچ سال پہلے چونکہ تحریک انصاف اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی اور اس نے جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی اورعوامی جمہوری اتحاد پاکستان کو بھی حکومت سازی کے لیے ساتھ شامل کیا تھا اس لیے وزارتوں میں بھی ان تینوں پارٹیوں کو حصہ دینا پڑا تھا تاہم آج تحریک انصاف کو ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں اس نے صرف اپنے ہی ارکان کو ایڈجسٹ کرنا ہے، اتحادی جماعت کے طور پر صرف مسلم لیگ(ق)کا ایک رکن ایوان میں موجود ہوگا جسے معاون خصوصی یا پارلیمانی سیکرٹری کا عہدہ دیتے ہوئے بہلا لیا جائیگا تاہم چونکہ تحریک انصاف کے اپنے ارکان بہت بڑی تعداد میں اسمبلی میں آئے ہیں اس لیے ان کی توقعات بھی بہت زیادہ اور بڑی ہونگی جنھیں ایڈجسٹ کرنا اور پھر پی ٹی آئی کی پالیسی کے مطابق چلنا یقینی طور پر محمود خان کی حکومت کے لیے ایک کٹھن امتحان ہوگا جس میں پورا اترنے کے لیے انھیں اپنے پیش رو پرویز خٹک سے ضرور رہنمائی لینی پڑے گی جنہوں نے پارٹی کے اندر سے بڑی مخالفت کے باوجود پانچ سال بھی نکال لیے اور پارٹی کو صوبہ میں دوبارہ برسراقتدار لانے میں بھی کامیاب ٹھہرے ہیں۔
نئی صوبائی حکومت کے لیے بظاہر تو بڑے چیلنجز نظر نہیں آرہے کیونکہ صوبہ میں تحریک انصاف مضبوط حکومت بنا رہی ہے جبکہ مرکز میں بھی تحریک انصاف کی اپنی ہی حکومت ہوگی تاہم جو مطالبات پرویزخٹک حکومت گزشتہ لیگی حکومت سے کرتی آئی ہے ان کے حوالے سے محمود خان حکومت کو ضرور جدوجہد کرنی پڑے گی کیونکہ گزشتہ پی ٹی آئی حکومت کا مرکز سے مطالبہ رہا کہ خیبرپختونخوا کے لیے بجلی کا سالانہ منافع بڑھا کر سو ارب روپے کیاجائے جس کے ساتھ ہی فوری طور پر نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کا اجراء اور اس میں صوبہ کے لیے دہشت گردی کی بنیاد پر خصوصی حصہ فراہم کرنے کے مطالبات بھی شامل رہے ہیں، صوبہ میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لیے مرکز سے سرمایہ کاری کے مطالبات بھی گزشتہ دور میں بار، بار مرکز سے کیے جاتے رہے ہیں لیکن مرکز ان مطالبات سے صرف نظر کرتا رہا لیکن اب چونکہ مرکز بھی اپنا ہی ہوگا اس لیے تحریک انصاف کی حکومت سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ ان تمام مطالبات کو ہر صورت عملی جامہ پہناتے ہوئے صوبہ میں خوشحالی کا دور شروع کیاجائے گا۔
مذکورہ صورت حال یقینی طور پر نئے وزیراعلیٰ کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگی کیونکہ اگر مرکز، خیبرپختونخوا کی جانب زیادہ توجہ نہ دے پایا تو اس صورت میں نئے وزیراعلیٰ کو اپوزیشن کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا ہوگا اور صوبہ کی عوام کی جانب سے بھی جنہوں نے مسلسل دوسری مرتبہ تحریک انصاف پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیاہے، یہ تمام امور یقینی طور پر نامزد وزیراعلیٰ محمود خان کے مدنظر ہونگے اور وہ ایسی حکمت عملی بنائیں گے کہ جس کی بنیاد پر وہ ان مطالبات کو پورا کرنے میں کامیاب رہیں، اس سلسلے میں یقینی طور پر انھیں اپنی پارٹی کے چیئرمین عمران خان اور مرکزی قائدین کی حمایت بھی حاصل ہوگی جو مرکز میں اقتدار کے ساتھ خیبرپختونخوا جیسا اپنا مضبوط مورچہ کسی بھی طور کمزور نہیں ہونے دینگے کیونکہ اسی مورچے کی بنیاد پر آج تحریک انصاف نہ صرف یہ کہ مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہوئی ہے بلکہ پنجاب اور بلوچستان میں بھی اقتدار کا حصول اس کے لیے ممکن ہو پایا ہے اور اس مورچے کی زیادہ ضرورت آئندہ سال فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے لیے منعقد ہونے والے الیکشن کے لیے بھی ہے۔
آئندہ سال نہ صرف یہ کہ فاٹا میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن ہونے جا رہا ہے اور پی ٹی آئی اس محاذ پر بھی ہر صورت کامیابی حاصل کرنا چاہے گی بلکہ ساتھ ہی اگلے سال بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ہونا ہے کہ جب تک پی ٹی آئی حکومت کو قائم ہوئے ایک سال ہوچکا ہوگا اور مذکورہ بلدیاتی انتخابات صوبائی حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتے ہیں۔