میرے لیے مشکل ہے …

ان میں کراچی اور لاہور دونوں جگہ خود چیئرمین عمران خان بھی شامل ہیں


سردار قریشی August 15, 2018
[email protected]

KARACHI: اب جب کہ نو منتخب قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اراکین کی حلف برداری کے علاوہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرکا چناؤ بھی عمل میں آچکا ہے، عددی برتری کی بنیاد پر یہ بھی طے ہوچکا کہ ملک کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا،کالعدم جماعت اہلسنت والجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) کی طرف سے یہ سنسنی خیزانکشاف کیا گیا ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اس نے کم از کم 70 حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت کی تھی۔کالعدم جماعت نے صرف انکشاف ہی نہیں کیا، پی ٹی آئی کے ان 70 امیدواروں کی فہرست بھی جاری کی ہے، جن کی قومی اسمبلی کی مختلف نشستوں پر اس نے حمایت کی تھی۔

ان میں کراچی اور لاہور دونوں جگہ خود چیئرمین عمران خان بھی شامل ہیں۔ فہرست میں پارٹی کے کئی دوسرے بڑے رہنماؤں مثلاً فیصل واڈوا، عمر ایوب خان، عاطف خان، علی امین گنڈا پور، پرویزخٹک، سرور خان، علیم خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے نام بھی شامل ہیں۔ اے ایس ڈبلیو جے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اس نے فاتح پی ٹی آئی کی پنجاب میں 45 نشستوں پر حمایت کی جن میں شیخ رشید کی نشست بھی شامل تھی۔ سندھ میں اس نے پی ٹی آئی کے 15 اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں 10 امیدواروں کی مدد کی۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ان کے حمایت یافتہ پی ٹی آئی کے اکثر امیدواروں نے اپنی نشستوں پرکامیابی حاصل کی۔

کالعدم تنظیم ہونے کی وجہ سے جماعت اہلسنت والجماعت نے پاکستان راہ حق پارٹی کے نام سے انتخابات میں حصہ لیا اور کوئی ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکنے کے باوجود اس نے ملک بھر سے 55222 ووٹ لیے۔ اس نے جھنگ میں پی پی- 126 کی نشست جیتنے میں محمد معاویہ کی مدد کی جو ترجمان کے مطابق پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کریں گے۔انھوں نے کہا ''ہم ان انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ان میں بڑے پیمانے پردھاندلی کی گئی تھی۔کراچی میں اورنگزیب فاروقی سمیت ہمارے بہت سے امیدواروں کو زبردستی ہرایا گیا۔

ہم نے اسلام آباد کے ایک حلقے کے سوا کہیں بھی پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حمایت نہیں کی۔ اس کی حکومت نے ہمارے کئی کارکنوں کوگرفتارکیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ہم نے انتخابات میں اس کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔'' جماعت اہل سنت والجماعت کا 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی مدد وحمایت کرنے کا دعویٰ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب وہ مرکز، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے جا رہی ہے اور اپنے چیئرمین عمران خان کو وزیر اعظم نامزد کر چکی ہے، اگر آنکھیں اورکان بندکرکے کہا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں دیکھا اور سنا تو اور بات ہے ورنہ نوٹس لیے جانے کی صورت میں ایک کالعدم تنظیم کا دعویٰ انتخابات کی فاتح پی ٹی آئی کے رنگ میں بھنگ ڈال سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

اس پیکر خاکی میں اک شے ہے، سو وہ تیری

میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی

مزہ تو الیکشن کمیشن کے اس فیصلے سے بھی کچھ کم کرکرا نہیں ہوا جس کے تحت قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے عمران خان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روک لیا گیا تھا۔ایک حلقے کا نتیجہ مخالف امیدوار کی طرف سے چیلنج کیے جانے کی وجہ سے روکا گیا تھا، جسے بعد میں سپریم کورٹ نے بحال کردیا جب کہ دوسرا نوٹیفکیشن روکنے کی وجہ پارٹی چیئرمین کا انتخابی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹ کی رازداری کا احترام نہ کرنا اور کیمرے کی آنکھ کے سامنے بلے پر مہر لگانا بنا۔ بعد میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کے معافی مانگ لینے پر پانچوں حلقوں سے ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

ایسی حرکت کوئی عام ووٹرکرتا تو وہ بھی پکڑا جاتا چہ جائیکہ عمران خان جیسا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاسی لیڈر اور انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹی کا سربراہ یوں قانون کا مذاق اڑائے۔اگر الیکشن کمیشن تحمل، برداشت اور درگزر سے کام نہ لیتا تو پی ٹی آئی کے لیے حکومت بنانا تو رہا ایک طرف جان چھڑانا بھی مشکل ہوسکتا تھا۔ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے غلطی پر معافی مانگنے اور معذرت کرنے کی بجائے الٹا الیکشن کمیشن کے پہلے فیصلے کا برا منایا اور چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار سے یوں معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کی فرمائش کی جیسے وہ ان کے اشارے کے منتظربیٹھے ہوں۔

بد قسمتی سے یہ سانحہ ایسے وقت رونما ہوا جب قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے 9 دن بعد پاکستان تحریک انصاف بالآخر 342 نشستوں والے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں سادہ اکثریت کے لیے مطلوب 172 کا طلسمی عدد پارکرکے 174 اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب عبوری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے 116 نشستیں جیتی ہیں۔ اب تک 9 آزاد ایم این ایز، جن میں سے ایک کا تعلق خیبر پختونخوا، چھ کا پنجاب اور ایک ایک کا سندھ اور بلوچستان سے ہے، پارٹی میں شمولیت اختیارکرچکے ہیں جس سے اس کے اراکین کی تعداد 125 ہوگئی ہے۔

پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں خواتین کی 26 مخصوص نشستیں بھی ملنی ہیں جن میں 15 پنجاب، 7 خیبر پختونخوا اور 4 سندھ کی ہوں گی۔ اس کو ایوان زیریں میں اقلیتوں کے لیے مخصوص 4 سیٹیں ملنے کی بھی توقع ہے۔ یہ سب ملا کر اس کی کل سیٹوں کی تعداد 155 ہوجاتی ہے۔پانچوں انتخابی شراکت دار متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل کیو)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے )، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اور عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) اپنے ساتھ مزید 19 سیٹیں لائیں گے جن میں 17 جنرل اور خواتین کے لیے مخصوص 2 سیٹیں شامل ہوں گی۔

ان کو ملاکر مخلوط حکومت کے حامی اراکین قومی اسمبلی کی کل تعدا د174 ہو جاتی ہے اور وہ سادہ اکثریت حاصل ہونے کا دعویٰ کرسکتی ہے ۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کے بقول وہ سابقہ فاٹا کے 2 اور سندھ کے ایک آزاد ایم این ایز، بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی سے بھی رابطے میں ہیں جب کہ فواد چوہدری کو یقین ہے کہ وزیر اعظم کی حلف برداری کے دن تک پی ٹی آئی کو 180 اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہوجائے گی۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے حکومت سازی کے لیے ایوان میں مطلوبہ اکثریت حاصل کرلی ہے لیکن وزیر اعظم کے انتخاب والے دن اس کی 174 ارکان کی اکثریت گھٹ کر 167 رہ جائے گی کیونکہ پی ٹی آئی خواہ اس کی اتحادی پارٹیوں میں سے جتنے لوگ ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب جیتے تھے انھیں ایک کے سوا باقی سب سیٹیں خالی کرنی ہوں گی۔

خود عمران خان 4 سیٹیں چھوڑیں گے جب کہ طاہر صادق، غلام سرور خان اور پرویز الٰہی بھی ایک ایک سیٹ خالی کریں گے۔ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت دلانے میں کلیدی کردار اسی ایم کیو ایم نے ادا کیا ہے جوکبھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح خانصاحب کی نظر میں بھی دہشتگردوں اور بھتہ خوروں کی جماعت تھی اور جس سے نجات دلانے کا انھوں نے اپنے ووٹروں اور حامیوں سے وعدہ کیا تھا۔ اب اسی پی ٹی آئی نے مجبوری کے تحت اس کے ساتھ مفاہمت کی جس یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ اس میں شہری سندھ کے لیے خصوصی وفاقی مالیاتی پیکیج، پولیس اور بلدیاتی اداروں میں اصلاحات، سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کی جگہ میرٹ پر بھرتیوں اورکراچی میں جاری آپریشن پر نظرثانی کرنے کے لیے کہا گیا۔ وقت یہ دن دکھائے گا، پی ٹی آئی نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں