شعبۂ ہائے زندگی
کہتے ہیں عرصہ پانچ سال اس نے پیٹھ نہیں لگائی عوام و ملک کے لیے سرگرم عمل رہا
HYDERABAD:
''اندھیری رات،گھنا جنگل، بوڑھی عورت، سونا اچھالتی گزرے'' 1541ء میں برصغیر کے حکمران شیر شاہ سوری کے یہ الفاظ جن پر اس نے عمل کیا۔ اس نے صرف پانچ سال کے عرصے میں وہ کر دکھایا جو دوسرے کئی دہائیوں میں نہ کرسکے۔ 1540ء سے 1545ء تک شیر شاہ جس کا اصل نام فرید خان تھا، تخت نشینی کے بعد فتوحات الگ لیکن برصغیر کی عوام کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے۔ طویل جرنیلی سڑک، قلعہ، مرکزی نظام، دیوان عرض، مالیاتی نظام، ذرایع آمد و رفت، مدرسہ (تعلیمی ادارے) شفاخانے، ڈاک کا نظام، عدالتی نظام (قاضی) عوام کی سہولت کے لیے ہر علاقے میں دفاتر، وسیع و عریض عمارات، مسافروں کے لیے سرائے، طعام و قیام پانی کی سہولت، کنویں، جو ہر دس کوس کے بعد لازم تھے، سکہ رائج الوقت و تجارت، خیراتی و فلاحی ادارے، غربا و مساکین کی رہائش و طعام، مذہبی پالیسی، زراعت کو فروغ، کسانوں سے لگان ختم الغرض اس نے عرصہ پانچ سال میں خصوصی طور پر فوجی نظام کے ساتھ تمام شعبۂ ہائے زندگی پر کڑی نظر رکھی۔
کہتے ہیں عرصہ پانچ سال اس نے پیٹھ نہیں لگائی عوام و ملک کے لیے سرگرم عمل رہا۔ اس کی حیات رفتہ نے وفا نہ کی برصغیر کا نامور، بہادر، سپہ سالار، بادشاہ، نیک صالح انسان 22 مئی 1545ء والے روز جب یہ گولہ باری کی خود نگرانی کر رہاتھا اچانک ایک گولہ فصیل سے ٹکراکر پھٹا اور اس کے قریبی آتش بازی کے ٹوکروں میں آن گرا، اچانک آگ لگ گئی جس سے بادشاہ (شیر شاہ سوری) کا جسم جھلس گیا، اسے خیمے میں اٹھا لائے، اپنی حالت مخدوش پاکر اس نے فوج کو تمام حملے کا حکم دیا۔ مغرب کے قریب اسے اس کی زندگی کی آخری فتح کی خوش خبری ملی، اس نے الحمدﷲ اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے جان دے دی۔
چونکہ تاریخ طویل ہے میں نے مختصر بیان کیا یہ باورکرانا مقصود ہے اب صرف مملکت پاکستان ہے اس وقت بڑی مملکت افغانستان سے لے کر بنگال تک بلکہ پورا برصغیر کا خطہ تھا۔ اب ایسا نہیں ہے کہتے ہیں دور بدل چکا ہے یہ دور جدید ہے سائنس نے بڑی ترقی کی انسان کو آسمان سے چاند پر بھیج دیا۔ انٹرنیٹ، ٹیلی فون، موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، جدید ٹرانسپورٹ، جدید ٹرینیں، جدید ہوائی جہاز اور دیگر جدید اشیا۔ اگر ہم اس پرانے دور کی تاریخ کی ورق گردانی کریں معلوم ہوتا ہے ایسی جدید اشیا کا وجود دور تک نہ تھا، پیدل،گھڑ سواری، بیل گاڑی، اونٹ اور ہاتھی جن سے دور درازکا سفر، بار برداری اور جنگ ہوا کرتی تھی، ان مشکل حالات میں پورے برصغیر کا حکمران صرف پانچ برس میں اس قدر کام کراسکتا ہے عوام کی فلاح و بہبود خوشحالی اور ملک کے استحکام کے لیے تادم مرگ اپنی محنت وکوشش میں کمی نہ آنے دی۔
کسی نے بڑی اچھی بات کہی جو اکثر یاد آتی ہے ''کام کرنے کے لیے سب تیار، ان سے کام لینے والا چاہیے'' بات بالکل درست بلکہ ہر دور میں پوری ہے ماضی بعید ہو یا ماضی قریب اور حال ہو یا مستقبل وہ شخص کامیاب ہے جو خود کام جانتا ہو، ایماندار، دیانتدار اور ملک و قوم کا ہمدرد، اپنے ذاتی مقاصد کے بجائے ملک و ملت کے مقاصد پر توجہ خاص دے زیادہ نہیں صرف ایک سال میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اس ملک میں سب کچھ ہے، زراعت، صنعت و حرفت، معدنیات، سمندر، دریا، چشمے، جنگل، مویشی الغرض کھیت کھلیان سب ہی کچھ ہے اس کے علاوہ محنت کش، ایماندار، دیانتدار اپنے ملک سے محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں باہر سے کسی کو لانے کی ضرورت نہیں ۔ معمار سے لے کر تاجر، صنعت کار، کاشت کار، قابل مفکر، دانشور، مزدور الغرض ہر شعبۂ زندگی سے تعلق دار موجود ہیں۔ اتنے اچھے ملک کو مضبوط کرنا مخلص و محبت والے عوام کو خوشحال بنانا مشکل نہیں صرف ایک سال میں یہ سب کچھ ہو سکتا ہے وہی جملہ دہراؤںگا ''کام کے لیے سب تیار، کام لینے والا چاہیے'' دوران تحریر موجودہ دور کی بات یاد آ رہی ہے اجازت دیں چند سطر میں عرض کردوں۔
1991ء کے اختتام پر جیسے دیگر اسلامی و غیر اسلامی حکومتوں کو آزادی حاصل ہوئی ان میں ایک مملکت کے سہارے میں مختصراً اپنی آزادی کے بعد اس حکومت کے بڑے سربراہ نے اعلان کیا 2030ء تک قدرتی گیس، بجلی، شفاف پانی مفت بلکہ ہر خاندان کے بڑوں بزرگوں کے لیے چاول اور روٹی مفت، ایک خاص بات ام الخبائث جام صرف ممنوع نہیں بلکہ کسی کو رکھنے پر وہاں کے قانون کے مطابق جرم ہے جس کی سزا کے ساتھ جرمانہ بھی ہے۔ اپنی پارلیمنٹ میں شرعی قوانین سازی کی گئی جس پر عمل جاری ہے ایک بات اور کتے کو رکھنا، شہر میں گھمانا سخت ممنوع قرار دیا گیا، سگریٹ نوشی کے بارے میں سختی ہے بازار، سڑکوں، گلیوں، عام مقامات پر منع کی گئی ہے۔
ہمارے نئے آنے والے حکمران کو سمجھنا ضروری ہے اس پر توجہ دیں، غورکریں بہت سی طاقتیں جو ہمارے ملک میں انتشار چاہتی ہیں یہ گھناؤنا کھیل طاقت کا ابھی بھی جاری ہے۔ یہ لوگ بھول گئے بڑی طاقت اﷲ تعالیٰ کی ہے، انسان سے بچنا مشکل نہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ سیکڑوں، ہزاروں سال کی تاریخ گواہ ہے جس طرح نافرمانی، بداعمالی پر اﷲ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا پوری قومیں تباہ ہوئیں ان کی قبریں بھی نہیں تو نشانات کیسے۔
میرے نزدیک تین تبدیلیاں آچکی ہیں۔ (1) الیکشن، (2) عوامی جذبہ ایماندار، دیانتدار، سادہ لوح حکمران (3) اکثریتی کامیابی سے ہمکنار۔
یہ تین کامیابی عام ہیں، اب ان کامیاب حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو کیا دیتے ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری تمام قرضوں سے نجات اور عوام کی بنیادی حقوق اس پر لازم کے ساتھ بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ (1) مقننہ (2) عدلیہ (3) انتظامیہ (4) فوج ۔ اگر ان کی مختصر تشریح کی جائے تو کچھ اس طرح ہے کہ مقننہ پارلیمنٹ جو قانون سازی کرتی ہے، ہماری عدلیہ ان قوانین پر عمل پیرا ہوکر فیصلے صادر فرماتی ہے۔ انتظامیہ عدالت نے جو فیصلے صادر فرمائے جن کو جرم ثابت ہوا ان کی سزائیں، یہ انتظامیہ کا اولین فرض ہے بغیرکسی رعایت اس کی تکمیل کریں، شہریوں کا امن، چین، سکون بحال رکھیں، فوج کے بارے میں کہاجاتا ہے یہ وہ ادارہ ہے جو ملک و قوم کی سالمیت، استحکام اور دشمنوں کے آگے سینہ سپر ہوتا ہے۔ اس میں شہید ہوتے ہیں لیکن عوام کو محفوظ رکھتے ملک کو دشمنوں سے بچاتے ہیں، الیکشن سے لے کر ملک میں سیلاب ہو، زلزلہ یا کوئی یورش اس کے لیے فوج کام آتی ہے۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی وسیع الفاظ ہیں، اگر معنی پر غورکریں تو یہ عوام کی بنیادی ضروریات سے لے کر ملک کے تمام انتظامی، اخلاقی، مذہبی، ملکی معیشت، استحکامِ ملک، تحفظ کے امور اور دیگر سے ماخذ ہے۔ اس کو متحدہ شعبۂ ہائے زندگی کہنا غلط نہ ہوگا چونکہ اس ملک میں اپنے علاوہ عوامی یا ملکی شعبے پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ان کا فرض تھا انھوں نے اپنے ذاتی شعبۂ ہائے زندگی کو فوقیت کیا بلکہ پورا عمل کیا۔
بیس سال سے زائد ایک شخص نے جد وجہد کی، اس نے ملک وملت کے بارے میں سوچا، اپنے لیے سادہ زندگی کو فوقیت دیتا ہے۔ ایسے فرد سے امیدکی جاسکتی ہے، آنے والے وقت میں انصاف وقانون کی بالا دستی قائم رکھے گا، اس ملک کے عوام کوئی بڑے مطالبے نہیں کرتے وہ تو چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی اصولوں کے پورے ہونے پر خوش ہو جاتے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے اگر یہ شخص سو فی صد نہ کرسکا، اگر نصف بھی کرے گا تو میں سمجھتا ہوں بڑی بات ہے۔
''اندھیری رات،گھنا جنگل، بوڑھی عورت، سونا اچھالتی گزرے'' 1541ء میں برصغیر کے حکمران شیر شاہ سوری کے یہ الفاظ جن پر اس نے عمل کیا۔ اس نے صرف پانچ سال کے عرصے میں وہ کر دکھایا جو دوسرے کئی دہائیوں میں نہ کرسکے۔ 1540ء سے 1545ء تک شیر شاہ جس کا اصل نام فرید خان تھا، تخت نشینی کے بعد فتوحات الگ لیکن برصغیر کی عوام کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے۔ طویل جرنیلی سڑک، قلعہ، مرکزی نظام، دیوان عرض، مالیاتی نظام، ذرایع آمد و رفت، مدرسہ (تعلیمی ادارے) شفاخانے، ڈاک کا نظام، عدالتی نظام (قاضی) عوام کی سہولت کے لیے ہر علاقے میں دفاتر، وسیع و عریض عمارات، مسافروں کے لیے سرائے، طعام و قیام پانی کی سہولت، کنویں، جو ہر دس کوس کے بعد لازم تھے، سکہ رائج الوقت و تجارت، خیراتی و فلاحی ادارے، غربا و مساکین کی رہائش و طعام، مذہبی پالیسی، زراعت کو فروغ، کسانوں سے لگان ختم الغرض اس نے عرصہ پانچ سال میں خصوصی طور پر فوجی نظام کے ساتھ تمام شعبۂ ہائے زندگی پر کڑی نظر رکھی۔
کہتے ہیں عرصہ پانچ سال اس نے پیٹھ نہیں لگائی عوام و ملک کے لیے سرگرم عمل رہا۔ اس کی حیات رفتہ نے وفا نہ کی برصغیر کا نامور، بہادر، سپہ سالار، بادشاہ، نیک صالح انسان 22 مئی 1545ء والے روز جب یہ گولہ باری کی خود نگرانی کر رہاتھا اچانک ایک گولہ فصیل سے ٹکراکر پھٹا اور اس کے قریبی آتش بازی کے ٹوکروں میں آن گرا، اچانک آگ لگ گئی جس سے بادشاہ (شیر شاہ سوری) کا جسم جھلس گیا، اسے خیمے میں اٹھا لائے، اپنی حالت مخدوش پاکر اس نے فوج کو تمام حملے کا حکم دیا۔ مغرب کے قریب اسے اس کی زندگی کی آخری فتح کی خوش خبری ملی، اس نے الحمدﷲ اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے جان دے دی۔
چونکہ تاریخ طویل ہے میں نے مختصر بیان کیا یہ باورکرانا مقصود ہے اب صرف مملکت پاکستان ہے اس وقت بڑی مملکت افغانستان سے لے کر بنگال تک بلکہ پورا برصغیر کا خطہ تھا۔ اب ایسا نہیں ہے کہتے ہیں دور بدل چکا ہے یہ دور جدید ہے سائنس نے بڑی ترقی کی انسان کو آسمان سے چاند پر بھیج دیا۔ انٹرنیٹ، ٹیلی فون، موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، جدید ٹرانسپورٹ، جدید ٹرینیں، جدید ہوائی جہاز اور دیگر جدید اشیا۔ اگر ہم اس پرانے دور کی تاریخ کی ورق گردانی کریں معلوم ہوتا ہے ایسی جدید اشیا کا وجود دور تک نہ تھا، پیدل،گھڑ سواری، بیل گاڑی، اونٹ اور ہاتھی جن سے دور درازکا سفر، بار برداری اور جنگ ہوا کرتی تھی، ان مشکل حالات میں پورے برصغیر کا حکمران صرف پانچ برس میں اس قدر کام کراسکتا ہے عوام کی فلاح و بہبود خوشحالی اور ملک کے استحکام کے لیے تادم مرگ اپنی محنت وکوشش میں کمی نہ آنے دی۔
کسی نے بڑی اچھی بات کہی جو اکثر یاد آتی ہے ''کام کرنے کے لیے سب تیار، ان سے کام لینے والا چاہیے'' بات بالکل درست بلکہ ہر دور میں پوری ہے ماضی بعید ہو یا ماضی قریب اور حال ہو یا مستقبل وہ شخص کامیاب ہے جو خود کام جانتا ہو، ایماندار، دیانتدار اور ملک و قوم کا ہمدرد، اپنے ذاتی مقاصد کے بجائے ملک و ملت کے مقاصد پر توجہ خاص دے زیادہ نہیں صرف ایک سال میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اس ملک میں سب کچھ ہے، زراعت، صنعت و حرفت، معدنیات، سمندر، دریا، چشمے، جنگل، مویشی الغرض کھیت کھلیان سب ہی کچھ ہے اس کے علاوہ محنت کش، ایماندار، دیانتدار اپنے ملک سے محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں باہر سے کسی کو لانے کی ضرورت نہیں ۔ معمار سے لے کر تاجر، صنعت کار، کاشت کار، قابل مفکر، دانشور، مزدور الغرض ہر شعبۂ زندگی سے تعلق دار موجود ہیں۔ اتنے اچھے ملک کو مضبوط کرنا مخلص و محبت والے عوام کو خوشحال بنانا مشکل نہیں صرف ایک سال میں یہ سب کچھ ہو سکتا ہے وہی جملہ دہراؤںگا ''کام کے لیے سب تیار، کام لینے والا چاہیے'' دوران تحریر موجودہ دور کی بات یاد آ رہی ہے اجازت دیں چند سطر میں عرض کردوں۔
1991ء کے اختتام پر جیسے دیگر اسلامی و غیر اسلامی حکومتوں کو آزادی حاصل ہوئی ان میں ایک مملکت کے سہارے میں مختصراً اپنی آزادی کے بعد اس حکومت کے بڑے سربراہ نے اعلان کیا 2030ء تک قدرتی گیس، بجلی، شفاف پانی مفت بلکہ ہر خاندان کے بڑوں بزرگوں کے لیے چاول اور روٹی مفت، ایک خاص بات ام الخبائث جام صرف ممنوع نہیں بلکہ کسی کو رکھنے پر وہاں کے قانون کے مطابق جرم ہے جس کی سزا کے ساتھ جرمانہ بھی ہے۔ اپنی پارلیمنٹ میں شرعی قوانین سازی کی گئی جس پر عمل جاری ہے ایک بات اور کتے کو رکھنا، شہر میں گھمانا سخت ممنوع قرار دیا گیا، سگریٹ نوشی کے بارے میں سختی ہے بازار، سڑکوں، گلیوں، عام مقامات پر منع کی گئی ہے۔
ہمارے نئے آنے والے حکمران کو سمجھنا ضروری ہے اس پر توجہ دیں، غورکریں بہت سی طاقتیں جو ہمارے ملک میں انتشار چاہتی ہیں یہ گھناؤنا کھیل طاقت کا ابھی بھی جاری ہے۔ یہ لوگ بھول گئے بڑی طاقت اﷲ تعالیٰ کی ہے، انسان سے بچنا مشکل نہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ سیکڑوں، ہزاروں سال کی تاریخ گواہ ہے جس طرح نافرمانی، بداعمالی پر اﷲ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا پوری قومیں تباہ ہوئیں ان کی قبریں بھی نہیں تو نشانات کیسے۔
میرے نزدیک تین تبدیلیاں آچکی ہیں۔ (1) الیکشن، (2) عوامی جذبہ ایماندار، دیانتدار، سادہ لوح حکمران (3) اکثریتی کامیابی سے ہمکنار۔
یہ تین کامیابی عام ہیں، اب ان کامیاب حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو کیا دیتے ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری تمام قرضوں سے نجات اور عوام کی بنیادی حقوق اس پر لازم کے ساتھ بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ (1) مقننہ (2) عدلیہ (3) انتظامیہ (4) فوج ۔ اگر ان کی مختصر تشریح کی جائے تو کچھ اس طرح ہے کہ مقننہ پارلیمنٹ جو قانون سازی کرتی ہے، ہماری عدلیہ ان قوانین پر عمل پیرا ہوکر فیصلے صادر فرماتی ہے۔ انتظامیہ عدالت نے جو فیصلے صادر فرمائے جن کو جرم ثابت ہوا ان کی سزائیں، یہ انتظامیہ کا اولین فرض ہے بغیرکسی رعایت اس کی تکمیل کریں، شہریوں کا امن، چین، سکون بحال رکھیں، فوج کے بارے میں کہاجاتا ہے یہ وہ ادارہ ہے جو ملک و قوم کی سالمیت، استحکام اور دشمنوں کے آگے سینہ سپر ہوتا ہے۔ اس میں شہید ہوتے ہیں لیکن عوام کو محفوظ رکھتے ملک کو دشمنوں سے بچاتے ہیں، الیکشن سے لے کر ملک میں سیلاب ہو، زلزلہ یا کوئی یورش اس کے لیے فوج کام آتی ہے۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی وسیع الفاظ ہیں، اگر معنی پر غورکریں تو یہ عوام کی بنیادی ضروریات سے لے کر ملک کے تمام انتظامی، اخلاقی، مذہبی، ملکی معیشت، استحکامِ ملک، تحفظ کے امور اور دیگر سے ماخذ ہے۔ اس کو متحدہ شعبۂ ہائے زندگی کہنا غلط نہ ہوگا چونکہ اس ملک میں اپنے علاوہ عوامی یا ملکی شعبے پر وہ توجہ نہ دی گئی جو ان کا فرض تھا انھوں نے اپنے ذاتی شعبۂ ہائے زندگی کو فوقیت کیا بلکہ پورا عمل کیا۔
بیس سال سے زائد ایک شخص نے جد وجہد کی، اس نے ملک وملت کے بارے میں سوچا، اپنے لیے سادہ زندگی کو فوقیت دیتا ہے۔ ایسے فرد سے امیدکی جاسکتی ہے، آنے والے وقت میں انصاف وقانون کی بالا دستی قائم رکھے گا، اس ملک کے عوام کوئی بڑے مطالبے نہیں کرتے وہ تو چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی اصولوں کے پورے ہونے پر خوش ہو جاتے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے اگر یہ شخص سو فی صد نہ کرسکا، اگر نصف بھی کرے گا تو میں سمجھتا ہوں بڑی بات ہے۔