انتقالِ اقتدار کا عمل حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا
سیاسی قیادت کے اسی دانشمندانہ اقدام کے باعث آج ملک کی پارلیمانی تاریخ کی پندرھویں قومی اسمبلی کا آغاز ہوا
TEHRAN:
پاکستان میں طویل سیاسی جدوجہد کے بعد جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونا شروع ہوگئی ہیں اور ملک میں عام انتخابات کے نتیجے میں انتقال اقتدارکا عمل حتمی مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے اور پیر کوقومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے حلف اٹھا لئے ہیں جس کے بعد ان اسمبلیوں نے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے اور تیرہ اگست 2018 ملک میں تیسری پارلیمنٹ کے تسلسل کا تاریخ ساز دن ثابت ہوا ہے اور تمام ترشور شرابے اور الزامات کے باوجود تیسری مرتبہ پرامن انتقال اقتدار ملکی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی میچورٹی کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔
سیاسی قیادت کے اسی دانشمندانہ اقدام کے باعث آج ملک کی پارلیمانی تاریخ کی پندرھویں قومی اسمبلی کا آغاز ہوا۔ قومی اسمبلی کے نئے ممبران کی حلف برداری تقریب کئی حوالوں سے سابقہ اسمبلیوں کے مقابلے میں منفرد تھی۔ اس اسمبلی کی خاص بات یہ تھی کئی سینئر ممبران جن میں سابق وزیراعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، چودھری نثار، خواجہ سعد رفیق، مولانا فضل الرحمان، محمود اچکزئی، آفتاب شیرپاؤ سمیت دیگر ممبران جو گذشتہ پچیس سے تیس برسوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں وہ اس بار اسمبلی کا حصہ بننے سے محروم رہے جبکہ اس کے برعکس بلاول بھٹو زرداری سمیت سو سے زائد نئے چہرے پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔
بہت سے نئے چہرے ایسے ہیں جن کی پارلیمانی سیاست میں پہلی انٹر ی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سابقہ اسمبلیوں کی طرح اس بار بھی ایوان میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد بیک وقت جنرل اور مخصوص نشستوں کے ذریعے منتخب ہوکرقومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں ۔ اس بار ایوان میں تین سابق سپیکرز فخر امام، فہمیدہ مرزا اور ایاز صادق بھی دوبارہ منتخب ہوکر رکن اسمبلی بن گئے اسی طرح دو سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف اور میاں محمد سومرو بھی دوبارہ رکن اسمبلی بنے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ اور نوید قمر نے مسلسل ساتویں بار قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھاکر سینئر ترین پارلیمنٹرینز کا اعزاز حاصل کیا۔ وزیراعظم کے انتخاب کیلئے کاغذات نامزدگی سولہ اگست کو دن دو بجے تک جمع ہونگے جس کے بعد سترہ اگست کو وزیراعظم کا انتخاب ہوگا جس کیلئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ(ن)کے صدر میاں شہباز شریف کے درمیان مقابلہ ہوگا اور نو منتخب وزیراعظم کیلئے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کی تاریخ 18 اگست مقرر کی گئی ہے۔ ایوان صدر میں ہونیوالی اس پُروقار تقریب میں صدر مملکت ممنون حسین نومنتخب وزیراعظم سے حلف لیں گے جس کے بعد پُرامن انتقال اقتدارکا عمل مکمل ہوجائے گا۔
حکومت اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ اسے 2013 والے حالات کا سامنا نہیں ہے کہ جب ملک کی جی ڈی پی تین فیصد پر آگئی تھی، ٹیکس وصولیوں کا گراف خطرناک حد تک گرا ہوا تھا، آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یہاں تک کہ اسلامی ترقیاتی بینک سمیت تمام عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک نے پاکستان بجٹری سپورٹ بند کر رکھی تھی۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ دہشت گردی و بدامنی، بم دھماکے عروج پر تھے اور بجلی و گیس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
سی این جی اسٹیشنز پر میلوں لمبی قطاریں ہوا کرتی تھیں اوراس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ اگر ن لیگ کی حکومت صرف ایک بجلی کے بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ سب سے بڑی کامیابی ہوگی اور اگلے الیکشن میں کوئی جماعت ن لیگ کا مقابلہ نہیں کرسکے گی، مگر آج حالات سب کے سامنے ہیں ،ن لیگ انتخابات میں سب سے بڑی جماعت کی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکی ہے اور تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے لیکن اب اگرچہ ملک کے اقتصادی اعشاریئے حوصلہ افزاء ہیں اور اتنے خراب نہیں ہیں جبکہ ملکی جی ڈی پی پانچ فیصد سے زائد ہے اور ٹیکس وصولیاں3750 ارب روپے سے زائد کی ہیں مگر اس کے باوجود اس نئی حکومت کو بھی چیلنجز درپیش ہیں اورشائد یہی وجہ ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی نئی حکومت ابھی وجود میںآئی نہیں ہے کہ سازشی تھیوریاں پہلے مارکیٹ میں آچکی ہیں اور جو حکومت ابھی بنی نہیں ہے اس کے خاتمے بارے میں پیش گوئیاں بھی سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔
کوئی کہہ رہا ہے چھ ماہ توکوئی ایک سال اورکوئی کہہ رہا ہے کہ حکومت دوسال سے زیادہ نہیں چلے گی یہ تو خیر وقت بتائے گا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے لیکن گذشتہ دو حکومتوں کے بارے میں تمام سیاسی شعبدہ بازیاں و پیش گوئیاں ناکام ہوئی ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود ان منتخب جمہوری حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی ہے لہٰذا نئی حکومت کو بھی حق حاصل ہے کہ اسے پانچ سال پورے کرنے دیئے جائیں اور ملک کی بہتری بھی اسی میں ہے کہ آئندہ بننے والی جمہوری حکومت بھی نہ صرف اپنے پانچ سال پورے کرے بلکہ عوامی توقعات پر پورا اترے اور ملک کو درپیش چیلنجز سے نکال کر درست سمت پر رواں دواں کرے۔
دوسری جانب نوازشریف کو احتساب عدالت میں مختصر سماعت کے بعد واپس اڈیالہ جیل پہنچادیا گیا ہے تاہم اس مرتبہ نوازشریف کی پیشی کے موقع پر کوریج کی اجازت نہ ملنے پر میڈیا کے نمائندوں نے شدید احتجاج کیا۔ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے سلسلے میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو انتہائی سخت سکیورٹی میں بکتر بند گاڑی کے ذریعے احتساب عدالت لایا گیا، عدالت نے مختصر سماعت کے بعد دونوں ریفرنسز کی مزید سماعت کل(بدھ) تک ملتوی کردی۔ ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر صحافیوں اور سیاسی رہنماوں کو احتساب عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔
پاکستان میں طویل سیاسی جدوجہد کے بعد جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونا شروع ہوگئی ہیں اور ملک میں عام انتخابات کے نتیجے میں انتقال اقتدارکا عمل حتمی مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے اور پیر کوقومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے حلف اٹھا لئے ہیں جس کے بعد ان اسمبلیوں نے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے اور تیرہ اگست 2018 ملک میں تیسری پارلیمنٹ کے تسلسل کا تاریخ ساز دن ثابت ہوا ہے اور تمام ترشور شرابے اور الزامات کے باوجود تیسری مرتبہ پرامن انتقال اقتدار ملکی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی میچورٹی کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔
سیاسی قیادت کے اسی دانشمندانہ اقدام کے باعث آج ملک کی پارلیمانی تاریخ کی پندرھویں قومی اسمبلی کا آغاز ہوا۔ قومی اسمبلی کے نئے ممبران کی حلف برداری تقریب کئی حوالوں سے سابقہ اسمبلیوں کے مقابلے میں منفرد تھی۔ اس اسمبلی کی خاص بات یہ تھی کئی سینئر ممبران جن میں سابق وزیراعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، چودھری نثار، خواجہ سعد رفیق، مولانا فضل الرحمان، محمود اچکزئی، آفتاب شیرپاؤ سمیت دیگر ممبران جو گذشتہ پچیس سے تیس برسوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں وہ اس بار اسمبلی کا حصہ بننے سے محروم رہے جبکہ اس کے برعکس بلاول بھٹو زرداری سمیت سو سے زائد نئے چہرے پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔
بہت سے نئے چہرے ایسے ہیں جن کی پارلیمانی سیاست میں پہلی انٹر ی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سابقہ اسمبلیوں کی طرح اس بار بھی ایوان میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد بیک وقت جنرل اور مخصوص نشستوں کے ذریعے منتخب ہوکرقومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں ۔ اس بار ایوان میں تین سابق سپیکرز فخر امام، فہمیدہ مرزا اور ایاز صادق بھی دوبارہ منتخب ہوکر رکن اسمبلی بن گئے اسی طرح دو سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف اور میاں محمد سومرو بھی دوبارہ رکن اسمبلی بنے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ اور نوید قمر نے مسلسل ساتویں بار قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھاکر سینئر ترین پارلیمنٹرینز کا اعزاز حاصل کیا۔ وزیراعظم کے انتخاب کیلئے کاغذات نامزدگی سولہ اگست کو دن دو بجے تک جمع ہونگے جس کے بعد سترہ اگست کو وزیراعظم کا انتخاب ہوگا جس کیلئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ(ن)کے صدر میاں شہباز شریف کے درمیان مقابلہ ہوگا اور نو منتخب وزیراعظم کیلئے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کی تاریخ 18 اگست مقرر کی گئی ہے۔ ایوان صدر میں ہونیوالی اس پُروقار تقریب میں صدر مملکت ممنون حسین نومنتخب وزیراعظم سے حلف لیں گے جس کے بعد پُرامن انتقال اقتدارکا عمل مکمل ہوجائے گا۔
حکومت اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ اسے 2013 والے حالات کا سامنا نہیں ہے کہ جب ملک کی جی ڈی پی تین فیصد پر آگئی تھی، ٹیکس وصولیوں کا گراف خطرناک حد تک گرا ہوا تھا، آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یہاں تک کہ اسلامی ترقیاتی بینک سمیت تمام عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک نے پاکستان بجٹری سپورٹ بند کر رکھی تھی۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ دہشت گردی و بدامنی، بم دھماکے عروج پر تھے اور بجلی و گیس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
سی این جی اسٹیشنز پر میلوں لمبی قطاریں ہوا کرتی تھیں اوراس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ اگر ن لیگ کی حکومت صرف ایک بجلی کے بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ سب سے بڑی کامیابی ہوگی اور اگلے الیکشن میں کوئی جماعت ن لیگ کا مقابلہ نہیں کرسکے گی، مگر آج حالات سب کے سامنے ہیں ،ن لیگ انتخابات میں سب سے بڑی جماعت کی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکی ہے اور تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے لیکن اب اگرچہ ملک کے اقتصادی اعشاریئے حوصلہ افزاء ہیں اور اتنے خراب نہیں ہیں جبکہ ملکی جی ڈی پی پانچ فیصد سے زائد ہے اور ٹیکس وصولیاں3750 ارب روپے سے زائد کی ہیں مگر اس کے باوجود اس نئی حکومت کو بھی چیلنجز درپیش ہیں اورشائد یہی وجہ ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی نئی حکومت ابھی وجود میںآئی نہیں ہے کہ سازشی تھیوریاں پہلے مارکیٹ میں آچکی ہیں اور جو حکومت ابھی بنی نہیں ہے اس کے خاتمے بارے میں پیش گوئیاں بھی سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔
کوئی کہہ رہا ہے چھ ماہ توکوئی ایک سال اورکوئی کہہ رہا ہے کہ حکومت دوسال سے زیادہ نہیں چلے گی یہ تو خیر وقت بتائے گا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے لیکن گذشتہ دو حکومتوں کے بارے میں تمام سیاسی شعبدہ بازیاں و پیش گوئیاں ناکام ہوئی ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود ان منتخب جمہوری حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی ہے لہٰذا نئی حکومت کو بھی حق حاصل ہے کہ اسے پانچ سال پورے کرنے دیئے جائیں اور ملک کی بہتری بھی اسی میں ہے کہ آئندہ بننے والی جمہوری حکومت بھی نہ صرف اپنے پانچ سال پورے کرے بلکہ عوامی توقعات پر پورا اترے اور ملک کو درپیش چیلنجز سے نکال کر درست سمت پر رواں دواں کرے۔
دوسری جانب نوازشریف کو احتساب عدالت میں مختصر سماعت کے بعد واپس اڈیالہ جیل پہنچادیا گیا ہے تاہم اس مرتبہ نوازشریف کی پیشی کے موقع پر کوریج کی اجازت نہ ملنے پر میڈیا کے نمائندوں نے شدید احتجاج کیا۔ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے سلسلے میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو انتہائی سخت سکیورٹی میں بکتر بند گاڑی کے ذریعے احتساب عدالت لایا گیا، عدالت نے مختصر سماعت کے بعد دونوں ریفرنسز کی مزید سماعت کل(بدھ) تک ملتوی کردی۔ ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر صحافیوں اور سیاسی رہنماوں کو احتساب عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔