عمران اور شیخ رشید ایک دوسرے کی ضرورت ہیں
آج کے نوجوان کو 1947 کا تو کچھ پتہ نہ ہوگا مگر میری عمر کے لوگوں کو ذوالفقار بھٹو کا عروج و زوال بہت اچھی طرح یاد ہے۔
سیاست میں اصول وغیرہ نہیں ہوا کرتے، اقتدار کا حصول ہی تمام سیاستدانوں کا حتمی ہدف ہوا کرتا ہے۔ کرکٹ کا اسٹار بننے کے بعد شوکت خانم اسپتال کے ذریعے خلقِ خدا کی خدمت کے لیے ایک ہوشربا ادارہ بنانے کے بعد عمران خان سیاست میں اقتدار کے حصول کی خاطر ہی آئے ہیں۔ وہ عوام کے ووٹوں سے بھرپور اکثریت کے ساتھ مرکزی اور صوبائی حکومتیں بنانے کے بعد ہی اس ملک میں کرپشن کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
وہ اقتدار میں آنے کے بعد ہی امریکا کو واضح طور پر بتا سکتے ہیں کہ اگر اس نے ہمارے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے نہ روکے تو وہ پاکستان ایئرفورس کو انھیں گرانے کا حکم صادر فرما دیں گے۔ ان کی حکومت کا دیا ہوا بجٹ ہماری ریاست کی ضرورتوں کے مطابق محاصل کے حصول کے بعد عمران خان کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔
میں ہرگز اس بحث میں اپنا اور آپ کا وقت ضایع نہیں کرنا چاہتا کہ آیا اقتدار میں آ جانے کے بعد عمران خان وہ سب کچھ کر سکیں گے یا نہیں جس کے دعوے وہ بالتواتر اپنے جارحانہ انداز میں کرتے چلے جا رہے ہیں۔ مجھے فی الوقت زور اس بات پر دینا ہے کہ 16 سال کی مسلسل تنہائی اور جوئے شیر لانے والی جدوجہد کے بعد 30 اکتوبر2011 والے لاہور کے جلسے کے ذریعے کھڑاک کر دینے والے عمران خان نے لوگوں کو متاثر کیا تو اس پیغام سے کہ وہ ''پرانی سیاست گری'' والے ہتھکنڈے اختیار نہیں کریں گے۔ ان کا مقصد ان لوگوں کو متحرک کرنا ہے جو پڑھے لکھے ہیں۔
محنت اور لگن سے اپنے اپنے پیشہ وارانہ میدانوں میں کوئی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں پدرم سلطان بود والی رعونت نہیں ہے۔ سیاسی عمل کو ایک گندہ کام سمجھ کر وہ ابھی تک اس سے دور رہے۔ مگر اب جان چکے ہیں کہ اس ملک کو واقعی بدلنا ہے تو ووٹوں کی طاقت سے نئے، صاف ستھرے اور ذرخیز ذہنوں والے لوگوں کو حکومت میں لانا ہوگا۔
قیام پاکستان سے قبل پنجاب بھارت کا خوشحال ترین اور انتہائی پرامن صوبہ سمجھاجاتا تھا۔ اس کی سرحدیں دلی تک جا ملتی تھیں ۔1947 کی تقسیم کے بعد اُس وقت کے پنجاب سے موجودہ بھارت نے مشرقی پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش نام کے تین صوبے نکالے ہیں۔ اس صوبے میں مسلمانوں کی اکثریت ہوا کرتی تھی۔ مگر ایک صاحب تھے میاں شفیع۔ انھوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد یونینسٹ پارٹی بنائی۔ اس جماعت میں ہندو بھی شامل تھے اور سکھ بھی۔ اس جماعت نے اپنے قیام کے بعد کئی برسوں تک متحدہ پنجاب میں ایک بڑی مستحکم حکومت بنائے رکھی۔
شاعر مشرق یونینسٹ پارٹی کے مسلط کردہ ذہنوں کو جامد کر دینے والے اس ''استحکام '' کے بارے میں بہت کڑھتے رہتے تھے۔ مگر عملی طور پر اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح کی بدولت ان کی سوچ کو عملی صورت دینے والا ایک رہ نما ملا۔ قائد اعظم نے علی گڑھ یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں پر بھرپور توجہ دی۔ یہ طلباء اپنی پڑھائی چھوڑ کر پنجاب کے قصبوں اور دیہاتوںمیں پھیل گئے۔ انھی کی کاوشوں کے سبب 1947 ہوا۔
عمران خان کے چاہنے والوں کو ان کے لاہور والے جلسے کے بعد کوئی ویسی ہی تحریک بنتی دکھائی دی جو علی گڑھ اور اسلامیہ کالج کے نوجوانوں نے قائد اعظم اور مسلم لیگ کے لیے برپا کر دی تھی۔ ایسا گمان کرتے ہوئے ہمارے بہت تجربہ کار اور زیرک لکھنے والے بھی یہ بھول گئے کہ ہمارا حکمران طبقہ، ہماری اشرافیہ بڑی ڈھیٹ ہڈی کا بنا ہوا ہے۔ یہ بڑا موقع شناس ہے۔ ہوا کا رُخ دیکھ کر وقتی طور پر سرنگوں ہو جاتا ہے اور بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے ''اچھے وقت'' کے لوٹ آنے کا انتظار کرتا ہے۔
ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقات نسلوں سے ہمارے سروں پر مسلط ہیں تو اس کی ا یک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ''خلاف'' اُٹھنے والی کسی تحریک میں بڑے جذبے کے ساتھ دل وجان سے شامل ہو جاتے ہیں۔ میں ان کے لیے ''گھس بیٹھئے'' کا لفظ استعمال کیا کرتا ہوں۔ آپ بھی اس لفظ کی افادیت جان لیں گے اگر یاد کریں کہ قائد اعظم کی مسلم لیگ میں ''کمیونسٹ انقلاب'' لانے کا دعوے دار لڈن کا ایک کر شماتی جاگیردار میاں ممتاز خان دولتانہ بھی شامل ہو گیا تھا۔
باغبان پورہ لاہور کے ایک کھدرپوش جدی پشتی رئیس میاں افتخار الدین بھی اسی جماعت میں شامل ہو کر فیض احمد فیض جیسے انقلابیوں کی سرپرستی فرماتے رہے۔ جب انگریزوں کے جاں نثاری کی حد تک وفادار خاندان کے سر سکندر حیات کا انتقال ہوا تو ان کے لمبے تڑنگے اور حسین وجمیل ولی عہد سردار شوکت حیات فوج چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور ''شوکت پنجاب'' کا خطاب پایا۔
آج کے نوجوان کو 1947 کا تو کچھ پتہ نہ ہوگا مگر میری عمر کے لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو کا عروج و زوال بہت اچھی طرح یاد ہے۔ زیادہ تفصیل میں جائے بغیر اس وقت محض اتنا یاد دلانا ہی کافی ہوگا کہ 1977کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر انھی لوگوں کی اکثریت نے حصہ لیا جنھیں 1970 میں اسی جماعت کے امیدواروں نے حیران کن طور پر ہرا دیا تھا۔
فرق صرف اتنا ہے کہ بھٹو کی جماعت میں ''گھس بیٹھیے'' ان کے اقتدار میں آنے کے بعد آہستہ آہستہ تقریباََ چوروں کی طرح شامل ہوئے۔ مگر ''پرانی سیاست گری'' سے بیزار ہونے کے دعوے دار عمران خان کو بڑے اہتمام کے ساتھ منعقد کردہ جلسوں میں صدیوں سے قائم ایک ''گدی'' کے جانشین شاہ محمود قریشی کو خوش آمدید کہنا پڑا۔ اسی طرح کے بہت سارے نام اور بھی ہیں ۔
سیاست میں حتمی ہدف۔ اقتدار۔ کے علاوہ ایک اور چیز بھی بڑی اہم ہوتی ہے، صحیح وقت پر صحیح لوگوں کا انتخاب۔ اقتدار کی جنگ چونکہ مرحلہ وار لڑی جاتی ہے۔ اس لیے مختلف مراحل پر مختلف النوع لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چند دن پہلے جب ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کے ذریعے خواجہ آصف نے شوکت خانم اسپتال کی ساکھ پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی تو جواباََ عمران خان کو خود ایک نہیں دو سے زیادہ پریس کانفرنسیں کرنا پڑیں۔ گذشتہ چند مہینوں سے عمران خان اپنے چند بہت ہی پیارے اینکرپرسنوں کو بھی دستیاب نہیں ہواکرتے تھے۔ انھیں فون کیا جاتا تو جواب ملتا کہ تحریک انصاف کی ترجمانی کے لیے فلاں فلاں کو لے لیا جائے۔
ٹاک شوز کا ناٹک رچانے والوں کو انھیں لینا ہی پڑتا۔ خواجہ آصف اور پھر چوہدری نثار میدان میں اُترے تو عمران خان کو اپنی جماعت میں کوئی ایسا شخص نہ ملا جو ریٹنگ لانے والے ٹی وی نوٹنکیوں میں ان کے مخالفین کا ''مکوٹھپ'' سکے ۔یہی وہ موقعہ تھا جب لال حویلی کے ریٹنگ لانے والے ''اسٹار ''کی لاٹری نکل آئی۔ عمران خان نے اُس کے بنائے منصوبے اور خواہشات کے مطابق اِس ''خوش کلام'' سے اتحاد و اتفاق کا فیصلہ کر لیا۔ اس فیصلے سے تحریک انصاف کے بہت سارے نوجوان بڑے ناراض ہوئے۔
وہ سمجھ ہی نہ پائے کہ تبدیلی کے نشان کو لال حویلی والے ''خوش کلام'' کی اشد ضرورت آن پڑی ہے۔ لال حویلی کا جبلی طور پر موقع شناس ''خوش کلام'' عمران خان کی اس ضرورت کا بھرپور فائدہ اُٹھائے گا۔ اس کے اپنے اہداف ہیں۔ سب سے پہلے تو اسے کسی نہ کسی طرح قومی اسمبلی میں پہنچنا ہے اور پھر وزیر بھی بننا ہے۔ اسے ابھی یقین نہیں کہ اگلی حکومت عمران خان بنائے گا۔ اسی لیے سب کچھ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل نہیں ہو رہا۔ وہاں وہ یہ بات خوب جانتا ہے کہ عمران خان کا نام اور ذات رش لیتے ہیں اور یہ رش آیندہ کے انتخابات میں اسے راولپنڈی کے اسی حلقے سے قومی اسمبلی بھیج سکتا ہے جہاں سے وہ 1985سے 2002 تک مسلسل جیتتا رہا۔ فی الوقت عمران خان اور شیخ رشید دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ان دونوں کے وقتی اتفاق و پیار محبت کو کوئی نہیں روک سکتا۔