ترک امریکا کشیدگی اور جواب الجواب پابندیاں
حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکا اور ترکی کے تعلقات پہلے کی سطح پر بحال نہیں ہو سکتے۔
MOSUL:
ترکی اور امریکا کے تعلقات آج کل سرد مہری کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں مزید کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی سے اسٹیل اور المونیم کی امپورٹ پر محصول دگنا کرنے کا فیصلہ کیا اور اب یہ تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔
منگل کو ایک بیان میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ترکی امریکا کی بنی ہوئی الیکٹرونک مصنوعات کا بائیکاٹ کرے گا، ہم امریکی پابندیوں کا بھرپور جواب دیں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور جواب الجواب پابندیوں کے بیانات تشویشناک اور خطے میں نئی جنگ چھڑنے کے مترادف ہیں۔ ترکی کے ایک جانب اگر امریکا سے تعلقات خراب ہو رہے ہیں تو دوسری جانب روس ترکی کے قریب آ رہا ہے۔
روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ڈالر کے بطور عالمی کرنسی دن گنے جا چکے ہیں اور وہ تنزلی کا شکار ہے۔ انھوں نے کہا کہ روس اب ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے قومی کرنسیوں میں لین دین کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ چند روز قبل ترکی نے چین، روس، ایران اور یوکرائن کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میںجرمن چانسلر مرکل نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے مرکزی بینک کی خود مختاری کو یقینی بنائے۔
دوسری جانب امریکی انتظامیہ بھی ترکی کی معیشت اور داخلی اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکی حکومت کے مشیر برائے اقتصادی امور کیون ہاسیٹ نے کہا ہے کہ حالیہ ایام میں ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا کی قیمت میں کمی کے بعد ترکی میں پیدا ہونے والی معاشی صورتحال پر امریکی انتظامیہ کی گہری نظر ہے۔
واضح رہے ترکی نیٹو کا اہم ممبر ملک ہے اور دو نیٹو اتحادی ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کی بڑی وجہ امریکی پادری اینڈریو برنسن ہیں جو ترک حکومت کے خلاف 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے دہشت گردی کے الزام میں ترکی میں قید ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ ترک حکومت امریکی پادری کو فوراً رہا کرے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان اگر دوست ممالک کے کہنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر امریکی پادری کو رہا کرنے کا فیصلہ بھی کرتے ہیں تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکا اور ترکی کے تعلقات پہلے کی سطح پر بحال نہیں ہو سکتے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیاں اور متنازعہ بیانات عالمی سطح پر امریکا کی جگ ہنسائی اور تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔
امریکا کو سمجھنا ہو گا کہ موجودہ دور روایتی جنگوں سے ہٹ کر معاشی ضرب کاری سے دشمن کو نیچا دکھانے کی جانب گامزن ہے اور ترکی کے صدر کا حالیہ بیان بھی معاشی جنگ کے مترادف ہے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، اگر امریکی صدر ترکی پر بے جا پابندیاں اور دھمکی آمیز رویہ کا اظہار کریں گے تو جواب میں پھول نہیں برسیں گے۔ راست ہو گا کہ ایسے وقت میں دیگر دوست ممالک امریکا اور ترکی کے درمیان بڑھتی دوریاں کم کرنے کی خاطر اپنا کردار ادا کریں۔
ترکی اور امریکا کے تعلقات آج کل سرد مہری کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں مزید کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی سے اسٹیل اور المونیم کی امپورٹ پر محصول دگنا کرنے کا فیصلہ کیا اور اب یہ تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔
منگل کو ایک بیان میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ترکی امریکا کی بنی ہوئی الیکٹرونک مصنوعات کا بائیکاٹ کرے گا، ہم امریکی پابندیوں کا بھرپور جواب دیں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور جواب الجواب پابندیوں کے بیانات تشویشناک اور خطے میں نئی جنگ چھڑنے کے مترادف ہیں۔ ترکی کے ایک جانب اگر امریکا سے تعلقات خراب ہو رہے ہیں تو دوسری جانب روس ترکی کے قریب آ رہا ہے۔
روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ڈالر کے بطور عالمی کرنسی دن گنے جا چکے ہیں اور وہ تنزلی کا شکار ہے۔ انھوں نے کہا کہ روس اب ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے قومی کرنسیوں میں لین دین کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ چند روز قبل ترکی نے چین، روس، ایران اور یوکرائن کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میںجرمن چانسلر مرکل نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے مرکزی بینک کی خود مختاری کو یقینی بنائے۔
دوسری جانب امریکی انتظامیہ بھی ترکی کی معیشت اور داخلی اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکی حکومت کے مشیر برائے اقتصادی امور کیون ہاسیٹ نے کہا ہے کہ حالیہ ایام میں ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا کی قیمت میں کمی کے بعد ترکی میں پیدا ہونے والی معاشی صورتحال پر امریکی انتظامیہ کی گہری نظر ہے۔
واضح رہے ترکی نیٹو کا اہم ممبر ملک ہے اور دو نیٹو اتحادی ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کی بڑی وجہ امریکی پادری اینڈریو برنسن ہیں جو ترک حکومت کے خلاف 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے دہشت گردی کے الزام میں ترکی میں قید ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ ترک حکومت امریکی پادری کو فوراً رہا کرے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان اگر دوست ممالک کے کہنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر امریکی پادری کو رہا کرنے کا فیصلہ بھی کرتے ہیں تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکا اور ترکی کے تعلقات پہلے کی سطح پر بحال نہیں ہو سکتے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیاں اور متنازعہ بیانات عالمی سطح پر امریکا کی جگ ہنسائی اور تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔
امریکا کو سمجھنا ہو گا کہ موجودہ دور روایتی جنگوں سے ہٹ کر معاشی ضرب کاری سے دشمن کو نیچا دکھانے کی جانب گامزن ہے اور ترکی کے صدر کا حالیہ بیان بھی معاشی جنگ کے مترادف ہے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، اگر امریکی صدر ترکی پر بے جا پابندیاں اور دھمکی آمیز رویہ کا اظہار کریں گے تو جواب میں پھول نہیں برسیں گے۔ راست ہو گا کہ ایسے وقت میں دیگر دوست ممالک امریکا اور ترکی کے درمیان بڑھتی دوریاں کم کرنے کی خاطر اپنا کردار ادا کریں۔