صدر مملکت کا جمہوری رویہ

اگر مجھے موجودہ الیکشن کے ریٹرننگ افسران (آر اوز) مل جائیں تو دوبارہ صدارتی الیکشن جیت سکتا ہوں، صدر زرداری

اگر مجھے موجودہ الیکشن کے ریٹرننگ افسران (آر اوز) مل جائیں تو دوبارہ صدارتی الیکشن جیت سکتا ہوں، صدر زرداری۔ فوٹو : فائل

صدر مملکت آصف علی زرداری نے اتوار کی شب بلاول ہاؤس لاہور میں سیفما کے سینئر صحافیوں پر مشتمل وفد سے گفتگو کرتے ہوئے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ناکامی اور دیگر ملکی امور پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ وہ صدارت سے مستعفی نہیں ہوں گے اور اپنی آئینی مدت پوری کریں گے۔

حالیہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ناکامی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انتخابات میں ریٹرننگ افسران (آر اوز) نے اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے طنز کیا کہ اگر مجھے موجودہ الیکشن کے ریٹرننگ افسران (آر اوز) مل جائیں تو دوبارہ صدارتی الیکشن جیت سکتا ہوں۔ انھوں نے وضاحت کی کہ پیپلز پارٹی طالبان اور دہشت گردی کی وجہ سے پنجاب میں انتخابی مہم نہیں چلا سکی، سب محاذوں پر لڑنا مشکل تھا اور ہم وہ سب کچھ نہ کر پائے جو کرنا تھا۔

انھوں نے کھلے دل سے پیپلز پارٹی کی انتخابی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جس پارٹی کو مینڈیٹ ملاہے، اس سے حلف لوں گا، اپوزیشن لیڈر اسی پارٹی کا ہوگا جس کی نشستیں زیادہ ہوں گی۔ الیکشن میں ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس میں ہمیں پنجاب میں 40 سے 45 نشستوں پر الیکشن ہرایا گیا۔ صدر نے کہا کہ ہم 25 یا 26 نشستوں کے لیے ایک نئے بھٹو کی قربانی نہیں دے سکتے تھے۔ ہم بجلی کا بحران ختم نہیں کرسکے جس کا الیکشن میں نقصان ہوا ہے، جب آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی نہ دے پا رہے ہوں تو لوگ کیوں ووٹ دیں گے۔


انھوں نے کہا سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد پہلی بار لاہور تشریف لائے ہیں' موجودہ حالات کے تناظر میں ان کا دورہ لاہور خاصی اہمیت کا حامل ہے' وہ لاہور میں پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں سے ملیں گے۔ ان میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کی شکست پر غور کیا جائے گا' اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے انتخابی مہم چلانا مشکل تھا' کالعدم تحریک طالبان کھلی دھمکی دے چکی تھی کہ اگر پیپلز پارٹی' اے این پی اور ایم کیو ایم نے انتخابی مہم چلائی تو ان پر خود کش حملے ہوں گے۔

طالبان نے اپنی دھمکی پر عملدرآمد بھی کیا۔ پیپلز پارٹی اے این پی اور ایم کیو ایم کے امیدواروں کے جلسوں پر حملے بھی ہوئے۔ نومبر2007میں محترمہ بینظیر بھٹو بھی دہشت گردی کا نشانہ بن کر شہید ہوئی تھیں' یوں پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے خطرات کی سنگینی کو سمجھنا مشکل کام نہیں تھا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وہ 25 یا 26 نشستوں کے لیے ایک نئے بھٹو کی قربانی نہیں دے سکتے تھے۔ بہر حال عام انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور پارٹی پوزیشنز بھی واضح ہو چکی ہیں' صدر زرداری نے جس انداز میں انتخابی نتائج کو تسلیم کیا ہے' اس سے ان کی جمہوریت پسندی ظاہر ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنا' دراصل ملک کو انارکی کی طرف لے جانے کی کوشش ہے۔

ہر انتخابات میں کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہوتا ہے' اب بھی ایسا ہوا ہو گا لیکن پورے انتخابی عمل کو مشکوک بنانا دانشمندی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو کھلے دل سے اپنی ناکامیاں تسلیم کرنی چاہئیں جیسا کہ صدر آصف علی زرداری نے یہ کہا ہے کہ ہم بجلی کا بحران ختم نہیں کر سکے' جب آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی نہیں آئے گی تولوگ ہمیں ووٹ کیوں دیتے۔ یہ حقیقت پسندی کا مظہر رویہ ہے۔ برسر اقتدار پارٹی جب عام انتخابات میں ہارتی ہے تو اس میں اس کی پالیسیوں کی ناکامی کے اثرات بھی شامل ہوتے ہیں' محض دھاندلی کا ذکر کر کے اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کو نظر انداز کرنا درست رویہ نہیں ہے۔

انتخابی عمل میں نقائص یا بے ضابطگیوں کی شکایات بھی جمہوری انداز میں ہونی چاہیے۔ صدر مملکت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے' ویسے بھی ان سے کسی سیاسی جماعت نے استعفیٰ طلب نہیں کیا' وہ اس ملک کے آئینی صدر ہیں اور حالیہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو شکست ضرور ہوئی لیکن اس کی قومی اسمبلی میں خاطر خواہ نمائندگی موجود ہے اور قرائن یہی ہیں کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی پیپلز پارٹی کا ہی ہو گا' صوبہ سندھ میں اسے اکثریت حاصل ہے' اس لیے پیپلز پارٹی کی شکست کو مکمل ہار نہیں کہا جا سکتا' صدر مملکت نے جس جمہوری رویے کا مظاہرہ کیا' دیگر سیاستدانوں کو بھی اسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خامیوں کو تسلیم کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے' اس طریقے سے ہی جمہوریت مضبوط و مستحکم ہوگی۔
Load Next Story