پی ٹی آئی مواقع اور مشکلات

یہ ممکن ہی نہیں کہ مادی حیثیت میں غیر معمولی فرق تعلقات پر اثر انداز نہ ہو۔ ایک بھائی دولت مند ہو جائے دوسرا۔۔۔

gmohyddin@express.com.pk

یہ ممکن ہی نہیں کہ مادی حیثیت میں غیر معمولی فرق تعلقات پر اثر انداز نہ ہو۔ ایک بھائی دولت مند ہو جائے دوسرا اس معاملے میں پیچھے رہ جائے' علم اور سماجی حیثیت کے اعتبار سے ایک بہت اعلیٰ مقام حاصل کرلے اور دوسرا پسماندگی میں گھر جائے تو ان کے باہمی تعلق کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ ریاستوں کے مختلف حصوں کے باہمی تعلقات میں بھی یہی اصول کار فرما رہتا ہے۔ ہمارا اپنا ملک بھی اسی ناہمواری کا شکار ہے۔

جب ہم اپنی قوم میں اتحاد کے فقدان کا رونا روتے ہیں تو اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ ہمارے سیاسی نظام میں جو آپا دھاپی اور لوٹ مار کا کلچر پروان چڑھتا رہا ہے اس نے ملک کو شدید قسم کی ناہمواری کا شکار بنا دیا ہے۔ گزشتہ صدی میں چین ایک ایسی مثال ہے جس نے اپنی غیر معمولی ترقی سے بڑی طاقتوں کو حیران کیا۔

اگر ہم چینی قیادت کے فیصلوں کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے ملک کے دور دراز پسماندہ ترین علاقوں اور قومیتوں کو برابر کا شہری ہونے کا احساس دلانے کے لیے کس قدر غیر معمولی جدوجہد کی ہے ۔ آج اگر پاکستان کے پسماندہ علاقوں کے لوگ ملک کے بارے میں وہ جذبات نہیں رکھتے جو ترقی کے دھارے میں شامل علاقوں کے لوگوں کے ہیں تو اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ ان کے اس رویے اور زوایۂ نظر کے پیچھے ریاست کی اپنی بے حسی' بددیانتی اور غفلت کار فرما ہے۔

حالیہ انتخابات کے بعد مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی سے متعلق سرگرمیاں جاری ہیں۔ مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن' سندھ میں پیپلزپارٹی' اور صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہونے جا رہی ہیں۔ پاکستان کا ہر شہری چاہتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کے لیے مزید پانچ سال انتظار نہ کرنا پڑے۔

(ن) لیگ سے توقع ہونی چاہیے کہ وہ اپنے ماضی کے رویئے کے برعکس پورے پاکستان کے لیے ایسی منصوبہ بندی کی داغ بیل ڈالے جس کا دائرہ پانچ سال تک محدود نہ ہو بلکہ اس میں آنے والی کئی دہائیوں کی پیش بندی ہو۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ ہماری پرانی سیاسی پارٹیاں ایسے سیاسی کلچر سے تعلق رکھتی ہیں جو بنیادی تبدیلیوں کی حمایت نہیں کرتا۔ کیا ایسا ممکن ہو سکے گا کہ الیکشن پر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے ارکان اسمبلی اپنے اس سرمائے کی محفوظ واپسی کا تقاضا نہیں کریں گے؟

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ماضی کے ادوار کے برعکس جو اہم تبدیلی رونما ہوئی ہے وہ عمران خان کی تحریک انصاف ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کی تاریخ میں تحریک انصاف ایک انقلابی پروگرام کے ساتھ منظر عام پر آئی۔ تحریک انصاف کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کے پروگرام میں بزور طاقت نیم اشتراکی' نیم سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرنے جیسا کوئی نقطہ شامل نہیں بلکہ اس کا پروگرام پاکستان جیسے انقلاب مخالف معاشرے کو موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کے ذریعے ٹھیک کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ آیا تحریک انصاف محض نمائشی اقدامات تک محدود رہے گی یا پھر واقعی مثبت تبدیلیاں لا کر ایک مثال قائم کرنے کی جدوجہد کرے گی؟


میری رائے میں تحریک انصاف کو صوبے میں حکومت بنانے کے بعد اپنی تمام تر توجہ صوبے کے پسماندہ علاقوں کو دیگر ترقی یافتہ حصوں کے برابر لانے پر مرکوز کرنی چاہیے۔ برابر لانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سب دیہات شہروں میں بدل جائیں گے بلکہ ممکنہ طور پر زندگی کی سہولتیں سب تک پہنچانی ہے۔ اگر صوبے کے طول و عرض میں بسنے والے عوام کے اندر پایا جانے والا یہ تاثر ختم ہو جائے کہ اگر وہ پشاور میں ہوتا تو بہتر تعلیم حاصل کرتا' اسے بہتر روز گار مل جاتا یا بہتر علاج کے باعث اس کے باپ کی جان بچ جاتی تو سیاسی جنگ کا بڑا مورچہ فتح ہو جائے گا۔ شہری سہولتوں سے دور گزر بسر کرنے والے لوگوں کا احساس محرومی خاطر خواہ حد تک کم کرنے میں کامیابی محض اس صوبے کی ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر سیاسی برتری تحریک انصاف کی جھولی میں آ گرے گی۔

خیبر پختونخوا ایک مشکل صوبہ ہے اور ان مشکلات میں مزید اضافہ یوں ہو گا کہ بہت سے اہم امور میں پیش رفت وفاقی معاملہ ہے۔ تحریک انصاف کے لیے ضروری ہو گا کہ ان معاملات پر اپنی کوئی بات منوانے کے لیے صوبائی سطح ہر کوئی ایسی سودے بازی نہ کرے جو اس کے پروگرام کے منافی ہو۔ابھی حال ہی میں ڈرون حملوں کے بارے میں امریکا کی ایک خفیہ رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے ڈرون حملوں کا بڑا ہدف القاعدہ کے بجائے مقامی جنگجو گروپ رہے ہیں' القاعدہ کے بہت کم لوگ نشانہ بنائے گئے جو کہ امریکا کے اس بارے میں قوانین کی خلاف ورزی ہے' سو صوبائی حکومت اس بارے میں اپنے ذرائع سے اعداد و شمار جمع کر کے دنیا کے سامنے لا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ ان خاندانوں پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے جن کے لوگ ڈرون حملوں کانشانہ بنے یا پھر امریکی کارروائیوں میں اپاہج ہو گئے۔ ایسا کرنے سے اُس نفرت اور غصے میں بھی کمی آئے گی جو امریکی کارروائیوں کے باعث لوگوں کے دلوں میں ہے اور عسکریت پسندی کے خلاف حمایت حاصل کرنا ممکن ہو گا۔حکومت کے پاس یہ موقع بھی ہو گا کہ بہتر منصوبہ بندی سے کام لے کر بجلی کے بحران پر با آسانی قابو پا لے۔

خوش قسمتی سے خیبر پختونخوا میں ہزاروں کی تعداد میں پہاڑی چشمے بہتے ہیں۔ چین نے اپنے پہاڑی علاقوں میں چشموں پر چھوٹے چھوٹے ٹربائن اسٹیشن بنا کر بجلی کا مسئلہ مقامی سطح پر حل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ وہاں گاؤں کا اپنا چھوٹا بجلی گھر ہوتا ہے جس کا انتظام بھی اس گاؤں کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ بجلی گھر انتہائی سستے ہوتے ہیں اور ان سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ چین کی مدد سے صوبے کے تمام پہاڑی علاقوں میں ایسے سیکڑوں بجلی گھر لگا کر لوڈشیڈنگ سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

معیشت کے حجم کے لحاظ سے خیبر پختونخوا کا ملک بھر میں تیسرا نمبر ہے۔ ملک کی کل آبادی کے 11.9 فصید کے حامل اس صوبے کا ملک کی جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 10.5 فیصد ہے۔ میری نظر میں سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس پر توجہ دی جائے تو حیرت انگیز نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کو اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ صوبے کے تمام حصوں میں مثالی امن و امان قائم ہونے کے بعد سیاحت کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کا کام شروع ہو بلکہ ان دونوں مسئلوں پر بیک وقت توجہ دینی چاہیے۔

وہ علاقے جو پُرامن ہیں وہاں ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کا اعتماد بحال ہو۔ پہاڑی مقامات اور تاریخی اعتبار سے اہم علاقوں' آثار قدیمہ اور دیگر پُرکشش مقامات اور سرگرمیوں کی تشہیر کا بندوبست ہونا چاہیے اور اس تشہیر کا تخلیقی معیار اتنا بلند ہو کہ دیکھنے والا متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہاں دوسروں سے تیز چلنا بھی مسائل پیدا کرے گا جس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
Load Next Story