تبدیلی… ایک دیوانے کا خواب
موروثی سیاست پر پلنے اور پھولنے والے سیاستدان ہمیشہ اپنے مفادات ہی کو مقدم رکھتے ہیں۔
یوم آزادی سے ایک روز قبل پاکستان کی15 ویں قومی اسمبلی میں نو منتخب ارکان نے ملک سے وفا داری کا حلف اْٹھایا کہ '' میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا '' مسلسل دو جمہوری حکومتوں کے پانچ، پانچ سال مکمل ہونے کے بعد تیسری بار جمہوری طریقے سے اقتدار منتقل ہونے جا رہا ہے۔
یقینا یہ بات پاکستان کے لیے ایک نیک شگون ہے کہ جمہوریت نے اپنی اندرونی تمام تر خامیوں کے باوجود دو جمہوری ادوار مکمل کرلیے ہیں جب کہ گزشتہ دس سال سے یہ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ ایک بار پھر غیر جمہوری قوتیں اقتدار پر قابض ہوجائیں گی ۔ اس کے باوجود کہ موجودہ اور سابق فوجی سربراہان کئی بار یقین دہانی کرا چکے کہ وہ جمہوریت کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے بلکہ جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ، لیکن کچھ سیاستدانوں کی یہ خواہش ضرور رہی کہ انھیں ایک بار پھر غیر جمہوری طریقے سے ہٹا دیا جائے، مگر ان کی خواہش شرمندہ تعبیر نہ ہو سکی ۔
سوال یہ بھی اْٹھتا ہے کہ سیاستدان جس جمہوریت کے پردے میں چھپ کر ملک کو لوٹتے رہے ہیں اور جس جمہوریت کے نام پر غریب پاکستانیوں کا استحصال کرتے رہے ہیں ،کیا یہی جمہوریت ہے؟ جمہوری ملکوں میں ایوان قانون سازی کا ایک انتہائی اہم ادارہ ہوتا ہے، ان کے اولین فرائض میں عوام کی جائز شکایات کا ازالہ کرنا اور ایسے اقدامات کرنا ہوتے ہیں کہ ایک عام انسان کی زندگی میں بہتری اور مثبت تبدیلی آئے۔ نئی پارلیمنٹ اور ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت کیا واقعی اسمبلی میں موجود ارکان اسمبلی کی مدد سے کوئی تبدیلی لاسکتی ہے؟
سادہ سا جواب ہے۔ بالکل نہیں ۔ستر برسوں سے پاکستان اور پارلیمنٹ کو جاگیردارانہ اور فرسودہ موروثی سیاست کے جال میں اس طرح جھگڑا گیا ہے کہ کوئی تبدیلی ممکن نہیں ۔ چند خاندان برسوں سے جمہوریت اور پارلیمنٹ پر قابض ہیں جو سیاسی نظریات تبدیل کر کے پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں، یہی چند خاندان ہیں جو حکومتوں کو بنانے اورگرانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ، یہ اتنے مضبوط گھرانے ہیں کہ پاکستان کی بڑی بڑی سیاسی جماعتیں انھیں پارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور ہوتی ہیں کیوں کہ یہی ''جیتنے والے گھوڑے ہیں'' جن کی کامیابی سے نئی حکومت بنتی ہے۔گزشتہ چار دہائیوںسے ایوان میں نمایندگی کرنیوالے 22 سے 30 خاندان آج بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔
پاکستان کے نیم جاگیردارانہ معاشرے میں رشتے داریاں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ پاکستان کی موجودہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نصف سے زیادہ ارکان ایسے ہیں، جو اپنے والد، بھائی یا کسی دوسرے قریبی رشتے دارکے باعث منتخب ہو کر ''موروثی طریقے'' سے اقتدارکے ایوانوں تک پہنچے ہیں۔ ملک کے کئی حصوں میں موروثی سیاست اس قدر مضبوط ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا ۔بڑے سیاسی خاندان ریاستی وسائل، اپنی خاندانی دولت، مقامی انتظامیہ کوکنٹرول کرنے اور مخالفین پر تشدد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اس لیے ان موروثی خاندانوں کی اگلی نسل کو سیاست میں آنے کے تمام دروازے کھلے ملتے ہیں۔
انتخابی عمل اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ ایک عام آدمی اس بات کا تصور ہی نہیں کر سکتا کہ وہ آزاد حیثیت سے الیکشن جیت سکتا ہے ،جب کہ دوسری طرف سیاسی جماعتیں ان امیدوارں کو ٹکٹ دیتی ہیں جو الیکشن مہم میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہ موروثی سیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک کی زیادہ تر جماعتیں ایک فرد کے گرد گھومتی ہیں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق) ، مسلم لیگ (ف) جمعیت علمائے اسلام (ف) ، جمعیت علمائے اسلام (س) ، متحدہ قومی موومنٹ ، عوامی نیشنل پارٹی ، پی پی شہید بھٹو، پیپلزپارٹی شیر پائو شامل ہیں۔
پنجاب میں موروثی سیاست پر نظر ڈالی جائے، تو یہاں کے بڑے سیاسی خانوادے، شریف فیملی، گجرات کے چوہدری، ٹوانے، قریشی، گیلانی اور مخدوم نہ صرف قومی اسمبلی میں اپنی اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ صوبائی اسمبلی میں بھی اپنا جگہ بنائے ہوئے ہیں۔خاندانی سیاست کے اعتبار سے خیبر پختون خوا کی صورتِ حال بھی مختلف نہیں، جہاں ایک بڑا سیاسی خانوادہ سابق وزیرِ اعلی خیبرپختون خوا، پرویز خٹک کا ہے، جب کہ روایتی طور پر یہاں عبدالولی خان کے خاندان کو سبقت حاصل رہی۔
نیز، ہوتی فیملی، سیف اللہ خاندان، یوسف خٹک ، صدر ایوب خان کا خاندان اور مولانا مفتی محمودکا گھرانا بھی موروثی سیاست سے فیض یاب ہونے والوں میں شامل ہے۔ بلوچستان میں بھی روایتی موروثی سیاست تو نہیںمگر وہاںسیاست قبائل یا خاندان کے گرد گھومتی ہے یہاں کی سیاست پر اچکزئی، بزنجو، مگسی، رئیسانی، مَری، مینگل، بْگٹی اور زہری سمیت دیگر قبائل حاوی ہیں۔سندھ کی کیا بات کی جائے وہاں تو قدیم خاندانی سیاست اور وڈیروں کی غلامی میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ اب آزادی کا تصور بھی ان کے ذہن سے مٹ گیا ہے۔
خواتین کی مخصوص نشستوں کا تصور اس بنیاد پر قائم کی گیا تھاکہ سیاسی جماعتوں میں کام کرنے والی خواتین کو ان کی کارکردگی، تعلیم اور خدمات کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں بھیجا جائے تاکہ جمہوریت اور پارلیمانی عمل میں اپنا کردارکرسکیں ، جس طرح ہم نے جمہوریت کے نام پر موروثی سیاست کو پروان چڑھایا ہے اس ہی طرح خواتین کی مخصوص نشستوں کو بھی اپنے خاندان میں تقسیم کرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
حالیہ انتخابات میں بھی کئی سیاستدانوں کی بہنوں، بیٹیوں، بیویوں اور دیگر رشتے داروں کو خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنایا گیا ہے۔تحریک انصاف نے خواتین کی مخصوص نشستوں سابق وزیراعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی اہلیہ کی بہن نفیسہ عنایت اللہ خان خٹک اور بھتیجی ساجدہ بیگم۔مسلم لیگ (ن)نے خواجہ آصف کی اہلیہ مسرت آصف اور بھتیجی شیزا فاطمہ، سابق وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، ان کی والدہ طاہرہ اورنگزیب، سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کی اہلیہ اور سابق وزیر خزانہ پنجاب عائشہ غوث پاشا، سابق وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی اہلیہ زہرہ ودود فاطمی، سابق وزیرمملکت چوہدری جعفر اقبال کی بیٹی زیب جعفر اور بھتیجی مائزہ حمید جب کہ رکن آزاد کشمیر اسمبلی ناصر ڈار کی بہن کرن ڈار کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔جب کہ چوہدری جعفر اقبال کی اہلیہ عشرت جعفر پنجاب اسمبلی میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
روزا بروکس اپنی کتاب A Dynasty isn't a democracy میں کہتی ہیں کہ موروثی سیاست یا قیادت کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار عدالتی نظام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے جب کہ ایک طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی نظام کی سختی سے نگرانی کرے۔موروثی سیاست کا سب سے زیادہ نقصان جمہوریت کو پہنچتاہے پاکستان میں جمہوریت چند روایتی خاندانوں اور دولت مندوں کی لونڈی بن کرر ہ گئی ہے۔
موروثی سیاست پر پلنے اور پھولنے والے سیاستدان ہمیشہ اپنے مفادات ہی کو مقدم رکھتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ طاقت اور دولت کے حصول کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ تصور کرلینا اور یہ امید باندھ لینا کہ نئے انتخابات اور نئی پارلیمنٹ بنیادی تبدیلی لانے میں کامیاب رہے گی ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔