بے ہنگم یوم آزادی اور سرسبز پاکستان مہم

آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن اس سال پاک فوج نے سب سے اچھے طریقے سے جشن آزادی منایا ہے۔

msuherwardy@gmail.com

جس طرح پاکستان کے شہروں کی سڑکوں پر یوم آزادی منایا جاتا ہے ۔ میں اس انداز کے خلاف ہوں۔ یہ بے ہنگم جشن بلکہ ہنگامہ جس کا کو ئی مقصد نہیں، کس کام کا۔شام کو لوگوں کا سڑکوں پر آجانا۔ موٹرسائیکلوں سے بفل نکالنا۔ گاڑیوں میں اونچی آواز کا میوزک۔ موٹر سائیکلوں پر باجے بجانا۔ شریف شہریوں کو تنگ کرنا، سڑکوں پر ناچناگانا، ٹریفک جام کردینا۔

یہ کیسا جشن آزادی۔ قوم کو کیا سکھایا جارہا ہے ۔ نیب چیئرمین نے پی آئی اے کے جہاز پر ایک غیر ملکی کا قومی پرچم کے ساتھ رقص کا نوٹس لے لیا۔ ویسے یہ چیئرمین نیب کا کام نہیں تھا۔ اس میں کرپشن والی کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی قومی پرچم کی تو ہین کا نوٹس لینا کوئی اعتراض والی بات بھی نہیں ہے۔ ہر کسی کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ لیکن یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ اس بے ہنگم جشن آزادی کے نام پر ہر سڑک، ہر گلی کوچے میں قومی پرچم کی کسی نہ کسی شکل میں بے حرمتی ہوتی ہے۔ ہم

بحیثیت قوم قومی پرچم کا احترام جانتے ہی نہیں ہیں۔ جس طرح قومی پرچم لگائے جاتے ہیں۔ بے حرمتی لازمی ہے۔ قومی پرچم لگانا ایک بات ہے۔ اس کو سنبھالنا اس کا حترام ایک اور بات ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کے جشن آزادی سے ہم قوم کو کیا سبق سکھاتے ہیں۔قومی پرچم کی قدر پوچھنی ہے تو ان سے پوچھوجنھیں اپنے پیاروں کی لاشیں اس پرچم میں لپٹی ملتی ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کی لاش کو نہیں پرچم کو چومتے ہیں۔ پرچم کی حرمت پوچھنی ہے تواس کم عمر بیٹے سے پوچھو جسے باپ کے بدلے پرچم ملتا ہے۔ اس طرح سڑکوں پر پرچم کی بے حرمتی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

ہر کوئی الگ الگ جشن آزادی مناتا ہے۔ سرکاری تقریبات میں صرف سرکار ہوتی ہے۔ غیر سرکاری تقریبات میں سرکار نظر نہیں آتی۔سیاسی قیادت بھی اکٹھی نہیں ہوتی۔سب الگ الگ جشن آزادی مناتے ہیں۔ ہم تو جشن آزادی پر بھی اکٹھے نہیں ہوتے۔ ملک کے لیے کیا اکٹھے ہوںگے۔ ہم خود کو ایک بے ہنگم قوم بنا رہے ہیں۔

آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن اس سال پاک فوج نے سب سے اچھے طریقے سے جشن آزادی منایا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ اور ان کی اہلیہ نے ایک خصوصی شجر کاری مہم سر سبز و شاداب پاکستان کا افتتاح کیا۔ پودے لگائے۔ اس مہم کے تحت صرف جشن آزادی والے دن پاک فوج کے جوانوں نے بیس لاکھ پودے لگائے ہیں۔ کوئی بات ہوئی، کوئی مقصد ہوا۔ پاکستان کی خدمت ہوئی۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جنرل قمر باجوہ کی جانب سے پوری قوم سے اپیل کی تھی کہ درخت زندگی ہے۔ در خت لگائیں، زندگی بچائیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سر سبزو شاداب پاکستان مہم میں باقی قوتیں کیوں شریک نہیں ہوئیں۔

پاکستان میں ہر سال سرکاری سطح پر شجر کاری کی مہم چلائی جاتی ہے۔ لاکھوں درخت لگائے جاتے ہیں۔ پودے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس کی افادیت نظر نہیں آتی۔ کیونکہ پودا لگانا کوئی کام نہیں ہے۔ پودے کو سنبھالنا، اس کی حفاظت کرنا اصل کام ہے۔ سرکاری سطح پر شائد پودے لگا تو دیے جاتے ہیں لیکن ان کی حفاظت اور آبیاری کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ مجھے پاک فوج کی اس سرسبز وشادا ب مہم میں امید کی ایک کرن اس لیے نظر آئی ہے کہ مجھے فوج کے نظام کو جانتے ہوئے یہ امید ہے کہ فوجی جو پودا لگائے گا۔ وہ اس کی حفاظت بھی کرے گا،اس کو پانی بھی دے گا۔


پاک فوج نے ویسے تو ایک کر وڑ درخت لگانے کا اعلان کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ کافی ہیں اگر یہ زندہ بچ جائیں۔ ان پودوں کو زندگی مل سکے۔ یہ کام پاک فوج کر سکتی ہے۔ اگر یہ پودے لگا سکتی ہے تو ان کی حفاظت بھی کر سکتی ہے۔

میرا سوال تو عمران خان سے بھی ہے کہ یہ تو آپ کی ہوم وکٹ تھی۔آپ پہلے ہی کے پی میں بلین ٹری لگانے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ میں اس کی صداقت پر بحث نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی افادیت اور اس کی کامیابی و ناکامی پر بھی بحث نہیں کرنا چاہتا۔ان میں سے کتنے پودے زندہ بچ سکے اس پر بھی بات نہیں کرنا چاہتا۔ ان پودوں کی حفاظت کا کے پی حکومت نے کیا نظام بنایا۔ اس پر بھی بات نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا عمران خان پاک فوج کے اعلان کے بعد پوری تحریک انصاف سے بھی اپیل کرتے کہ اس یوم آزادی پر پورے ملک میں صرف درخت لگائے جائیں گے۔ اگر پاک فوج ایک دن میں بیس لاکھ درخت لگا رہی ہے۔ تو تحریک انصاف بھی ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر بیس لاکھ مزید درخت لگائے گی۔

مجھے شہباز شریف سے بھی توقع تھی کہ وہ بھی اس سر سبز شاد ب پاکستان تحریک میں شامل ہو جاتے۔وہ تو ویسے بھی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی کی بات کر رہے تھے۔ اور کہتے کہ تمام تر اختلافات تحفظات ایک طرف لیکن اس یوم آزادی پر ہم بھی پاک فوج کے ساتھ مل کر ملک بھر میں بیس لاکھ رخت لگائیں گے۔ ان دونوں جماعتوں نے ایک ایک کر وڑ سے زائد ووٹ لیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ دونوں جماعتیں بھی ساتھ شامل ہو جاتیں تو باقی جماعتیں بھی ساتھ آسکتی تھیں۔ یہ ایک قومی مہم بن جاتی۔ جس میں پوری قوم شریک ہوجاتی۔

کیا ہی خوبصورت منظر بن جاتا۔ چھوٹے بڑے سب جشن آزادی والے دن حکومت کی طرف سے مختص جگہوں پر درخت اور پودے لگا رہے ہوتے۔ جن کے گھروں میں جگہ تھی وہ وہاں لگاتے۔ جن کی گلی میں جگہ تھی وہ وہاں لگاتے۔ جن کی سڑک پر جگہ تھی وہ وہاں لگاتے۔ ہم نئے جنگل آباد کرنے کا اعلان کرتے۔ شہروں و دیہاتوں کو سر سبز کرنے کی بات کرتے۔ یہ نئے نئے کپڑے بنانے اور مہنگی مہنگی دعوتیں کرنے کے بجائے اچھے اور نایاب پودے لگاتے۔ ان کی حفاظت کا بندو بست کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

مجھے یوم آزادی پر شجری کاری مہم اکیلی نظر آئی۔ باقی سب ایک نے بے ہنگم یوم آزادی مناتے نظر آئے ہیں۔آخر جشن آزادی منانے کا کوئی ایک مقصد ہونا چاہیے۔ ہمیں قوم کو کوئی خاص پیغام دینا چاہیے۔ جذبہ حب الوطنی کو اس طرح بے ہنگم سڑکوں پر ضایع نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جوش و خروش ٹریفک کو بلاک کرنے۔ شور مچانے ۔ میوزک سننے ۔ میں ضایع کرنے کا کیا فائدہ۔

ہم سب یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں پاکستان نے کیا دیا۔ بھائی یہ سوال کون کرے گا کہ میں نے پاکستان کو کیا دیا ہے۔ ہر کوئی اپنے حق کی بات کرتا ہے۔ کون اپنے فرائض کی ادائیگی کی بات کرے گا۔ ہر کوئی پاکستان کو لوٹنے کی بات کرتاہے۔

ویسے چیف جسٹس پاکستان کو بھی پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کے اس اعلان کے بعد اس یوم آزادی سر سبز پاکستان مہم چلائی اعلان کر دینا چاہیے تھا کہ اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کے ہزاروں جج صاحبان بھی یوم آزادی پر سر سبز پاکستان کے تحت پورے ملک میں پودے لگائیں گے۔ عدالتوں میں پودے لگائیں جائیں گے۔ بہرحال یہ اعلان اب بھی کیا جاسکتا ہے ، اس سے سرسبزپاکستان کی منزل مزید قریب ہوجائے گی۔
Load Next Story