نیا سیاسی کلچر اور نیا پاکستان
اگرچہ ملک میں حالیہ عام انتخابات کا انعقاد جمہوریت کے تسلسل کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ہے تاہم۔۔۔
اگرچہ ملک میں حالیہ عام انتخابات کا انعقاد جمہوریت کے تسلسل کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ہے تاہم ان انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے الزامات نے سارا مزہ کرکرا کردیا ہے۔ کاش! یہ عام انتخابات ایسے فول پروف انتظامات کے ساتھ ہوتے کہ کسی انگشت نمائی کے لیے رتی برابر بھی گنجائش باقی نہ رہتی اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا۔ آخر دنیا کے دیگر ممالک میں اور ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جب الیکٹرونک سسٹم کے ذریعے صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کا نظام نہ صرف رائج ہوچکا ہے بلکہ نہایت کامیابی کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔
عام انتخابات کا انعقاد کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق حالیہ انتخابات کے انعقاد پر تقریباً 23.96 بلین روپے کے بھاری اخراجات ہوئے ہیں جوکہ ہمارے جیسے غریب ملک کے خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے اور یہ رقم ملک کے 18 کروڑ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کی گئی ہے، اس کے علاوہ الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیوں نے بھی ان انتخابات میں اپنی تشہیر پر روپیہ پانی کی طرح سے بہایا ہے جس کا گواہ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ہے جس کے ذریعے انتخابی مہم روزوشب زوروشور سے چلائی گئی تھیں۔
کارنر میٹنگوں، جلسوں اور جلوسوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ تمام اخراجات بھی ایک طرح سے سیاسی عیاشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے ان تمام اخراجات کی تفصیلات تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں سے طلب کرلی ہیں لیکن جس ملک میں ٹیکس چور اپنی آمدنی کے جھوٹے گوشوارے جمع کراتے ہوں اور جہاں جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر الیکشن لڑے جاتے ہوں وہاں یہ توقع کرنا عبث ہے کہ الیکشن لڑنے والے امیدوار الیکشن پر اٹھنے والے اخراجات کی درست تفصیلات الیکشن کمیشن کو پیش کردیں گے۔
اگرچہ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی ذات پر ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے مکمل اعتماد اور بھروسے کا اظہار کیا تھا تاہم الیکشن کمیشن کے بعض ارکان، الیکشن کمیشن کے عملے اور اس کے انتظامات پر مختلف حلقوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں جن میں کافی وزن نظر آتا ہے۔
کڑوا سچ یا زمینی حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی بعض کوتاہیوں، خامیوں، غفلت اور بدانتظامی سے قطعی طور پر بری الذمہ نہیں ہوسکتا اور اس کا یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں کہا جاسکتا کہ انتخابات مکمل طور پر آزادانہ اور شفاف طریقے سے منعقد ہوئے ہیں۔ ایسا نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف انتخابی حلقوں میں جو ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی الیکشن کمیشن کے کھاتے میں جارہے ہیں جوکہ ایک قابل افسوس بات ہے۔ اس اعتبار سے ان انتخابات کو اگر الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کے لیے گجر (Wake up Call) کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔
قارئین کرام! آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل بھارت کے ایک ریٹائرڈ چیف الیکشن کمشنر صاحب جوکہ سکھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تھے جن کا انٹرویو آپ نے بھی ایک ٹی وی چینل پرضرور دیکھا ہوگا۔ اس انٹرویو کے دوران ان انتظامات کا ذکر بھی سننے میں آیا تھا جن کی بدولت دھاندلی کے امکانات اب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ اس انٹرویو کے دوران ان سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ بھارت میں چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر کسی ریٹائرڈ جج کے بجائے کسی نیک نام سینئر بیوروکریٹ کا تقرر کیا جاتا ہے اور انتخابی نظام اور طریقہ کار کو مکمل طور پر فول پروف بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کیا جاتا ہے۔
نیز یہ بھی کہ بھارتی الیکشن کمیشن کو وسیع اختیارات بھی سونپے گئے ہیں تاکہ کوئی بڑے سے بڑا تیس مارخاں قسم کا سیاست دان بھی انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی جرأت وجسارت نہ کرسکے جب کہ ہمارے یہاں تو معاملات اس کے بالکل برعکس ہیں اور ووٹ کے پیچھے کرنسی نوٹ کے علاوہ دھونس اور دھمکی کا عمل دخل بھی بالکل عام ہے جو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے اور جس پر کسی کا بھی بس نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ووٹ بکتے بھی ہیں اور چرائے اور چھینے بھی جاتے ہیں۔ بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ حالیہ الیکشن کے بعد کی صورت حال کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ:
''اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت''
ان انتخابات کے انعقاد کے بعد بعض پولنگ حلقوں کے حوالے سے جو دھول اڑنا شروع ہوئی ہے وہ کسی طرح بیٹھتی ہوئی نظر نہیں آرہی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت تقریباً ہر سیاسی جماعت کی جانب سے شکوؤں اور شکایات کی بوچھاڑ دیکھنے میں آئی ہے۔
پاکستان معاشی اعتبار سے ایک زرعی ملک ہے اور اس کی کل آبادی کا غالب حصہ دیہات سے تعلق رکھتا ہے جہاں وڈیروں، زمینداروں اور چوہدریوں کو بالادستی حاصل ہے۔ ایسے بہت سے عوامل ہیں جو دیہی رائے دہندگان کی عام انتخابات میں آزادانہ اور غیر جانب دارانہ شرکت کے حوالے سے ان کی راہ میں حائل ہیں۔ اس کے نتیجے میں وکلاء کی ایک بہت بڑی اکثریت عرصہ دراز سے طاقتور اور تگڑے سیاستدانوں کی زیردست اقلیت بنی ہوئی ہے۔ نتیجتاً دیہات سے تعلق رکھنے والے مظلوم رائے دہندگان کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کے ووٹ کی کیا اہمیت ہے اور اس میں کس قدر قوت ہے۔ انھیں اپنے انجام سے بھی خوف آتا ہے جو وڈیرے یا چوہدری کا حکم نہ ماننے کی صورت میںانھیں بھگتنا پڑسکتا ہے۔
اگرچہ حالیہ عام انتخابات اس لحاظ سے ماضی کے تمام انتخابات سے قدرے مختلف ہیں کہ ملک و قوم میں بیداری کی ایک لہر ابھر کر سامنے آئی ہے اور لوگوں نے سیاسی طوربالغ النظر اور باشعور ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ بلاشبہ اس تبدیلی کے پس پشت ہمارے میڈیا بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کا کردار بھی بہت نمایاں اور قابل تعریف ہے۔ تاہم اس کے باوجود اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے عوام کی غالب اکثریت ابھی تک برادری سسٹم اور لسانی عصبیت کے شکنجے سے آزاد نہیں ہوسکی ہے۔ ہمارے یہاں اب بھی لوگ اپنے امیدواروں کے انتخاب کے وقت ذات، برادری، زبان اور صوبائیت جیسے پرانے اور فرودہ عوام کو مدنظر رکھتے ہیں اور سیاسی جماعت کے منشور اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی اہلیت، قابلیت، جذبہ خدمت اور کردار کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔
عام انتخابات کے حوالے سے یہ بات بھی غورطلب ہے کہ ہماری خواتین کی شرکت ان کی مجموعی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے جس کی ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ باجوڑ میں جہاں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی کل تعداد 1,30,000 ہے صرف 2,800 خواتین رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ کم و بیش یہی صورت حال میاں والی اور لوئر دیر کے انتخابی حلقوں میں بھی دیکھی گئی جہاں جبری طور پر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا حالانکہ پاکستان کے انتخابی قوانین کی رو سے ایسا کرنا ایک جرم ہے۔
کتنی افسوسناک بات ہے کہ قومی اسمبلی کی جنرل سیٹوں پر صرف چھ خواتین ہی کامیاب ہوکر آئی ہیں جب کہ 2008 میں یہ تعداد 16 تھی، وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی فرسودہ روایات کو توڑ کر ایک نئے سیاسی کلچر کو فروغ دیں، جو ہر طرح کی تفریق و عصبیت سے بالاتر اور قومی وحدت اور حب الوطنی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو ملک وقوم کو اپنی سلامتی، بقا اور ترقی کے لیے آج پھر اسی جذبے کی اشد ضرورت ہے جس کی بدولت یہ ملک معرض وجود میں آیا تھا۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر ملکی اور قومی مفاد ہر چیز سے بالاتر ہونا چاہیے اور پاکستان کی سلامتی اور بقا کو مکمل فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔ نیا پاکستان صرف اسی صورت میں معرض وجود میں آسکتا ہے۔