ایک نئے لیڈر کا انتظار
مستقبل کے بارے میں پیش گوئی نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔
پانچ دہائیاں ہونے کو آئی ہیں کہ ایوب خان کے مستعفی وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سینئر سیاستدانوں سے مایوس ہو کر تن تنہا قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور سیاست کو نیا رنگ دینے کے لیے ایک نیا نعرہ اسلامی سوشلزم کا بلند کیا جس کا نتیجہ سب کے لیے روٹی کپڑا اور مکان تھا اس سے حالات نے ایسی زبردست کروٹ لی کہ پاکستان کی رائے عامہ نہایت تلخی کے ساتھ دوحصوں میں بٹ گئی ۔ بھٹو مخالفوں نے اسلامی سوشلزم کے نعرے کو ان کے لیے ایک الزام بنا دیا لیکن بھٹوصاحب اور ان کے ساتھیوں نے اس الزام کو سر آنکھوں پر لیا اور ان کے جانشین اب تک اپنے اس موقف پر قائم ہیں۔
دوسری طرف عوامی سیاست کی سطح پر ان کے مخالفین کی قیادت میاں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ نے سنبھالی جو سوشلزم مخالف نظریہ پاکستان یعنی اسلامی نظریات کی داعی تھی ۔میاں صاحب ذاتی طور پر بھی بھٹو صاحب کے زخم خوردہ تھے' انھوں نے ان کے کارخانے بحق سرکار ضبط کر لیے تھے اور انھیں در بدر کر دیا تھا اس کارروائی سے میاں صاحب میں ایک زہر بھر گیا تھا اور پیپلز پارٹی کا نام سنتے ہی ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا ۔نواز شریف تین بار جب کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید دو بار اقتدار میں آئیں اور اس دوران دونوں میں سیاسی و ذاتی عداوت مزید شدت اختیار کر گئی تھی۔
میاں صاحب اس وقت جنرل ضیا الحق کے نام لیوا اور پروردہ تھے جن کو پیپلز پارٹی اپنے لیڈر کا قاتل سمجھتی تھی ۔ یوں تو کہاجاتا ہے کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی سب عارضی ہوتی ہیں لیکن میاں صاحب اور بینظیر صاحبہ کی دشمنی عارضی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ ان کے ملاپ کا تصور بھی ایک حماقت تھی مگر اس حماقت کو بینظیر نے اپنی سیاست سے دوستی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ ایک سیاستدان باپ کی سیاستدان بیٹی ہیں چنانچہ طویل صبر کے بعد ایک دن جب اس نے دیکھا کہ لوہا خوب گرم ہو گیا ہے تو اس نے عین وقت پر اپنی چوٹ لگائی کہ پگھلا ہوا لوہا اس کی مرضی کے سانچے میں ڈھل گیا اور اس کے شدید ترین اور سب سے موثر سیاسی مخالف خود چل کر اس کے پاس آ گئے اور اس کے سامنے اپنا کانپتا ہوا دست تعاون دراز کر دیا جس کو پاکستانیوں نے حیرت زدہ ہو کر دیکھا تھا کہ پاکستان کی دو ہی بڑی سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے سے جمہوریت کے نام پر میثاق کر لیا ۔
شاید یہ درست ہی ہے کہ سیاست میں دوستی دشمنی سب عارضی ہوتی ہے خصوصاً ذاتی اورمفاداتی سیاست میں۔ اس کی ایک اور مثال یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ق لیگ کے چوہدری شجاعت اور پرویز صاحب نے اپنے بد ترین مخالف کی حکومت میں عہدے سنبھالے حالانکہ ان کا موقف بھی پیپلز پارٹی کے بارے میں وہی تھا جو پیپلز پارٹی کا ضیاء الحق کے بارے میں ہے ۔
اب ایک بار پھر وہی صورتحال درپیش ہے' مسلم لیگ پیپلز پارٹی سے مل کر متحدہ اپوزیشن کی شکل میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے جا رہی ہے حالانکہ یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جس کے لیڈر جناب آصف علی زرداری ہیںاور وہی شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہوں گے جو کہ مسمی آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنا چاہتے تھے ۔مفادات کا ایک نہ ختم ہونے والا کھیل ہے جو کہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ اس وقت دونوں کا سیاسی دشمن مشترک ہے اور وہ ہے عمران خان جس کے خلاف ساری اپوزیشن نے ایکا کر لیا ہے جو کہ بظاہر تو ساری پارٹیوں پر مشتمل ہے لیکن اس میں دو ہی پارٹیاں اپوزیشن کا کردار ادا کریںگی جن میں سر فہرست نواز لیگ جب کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن کی پچھلی صفوں میں اس کی مدد کرے گی۔
پیپلز پارٹی کی تاریخ میں یہ ایک اور موقع ہے جب اس کے موروثی سیاسی مخالف اس کے ساتھ کھڑے ہیں عوامی سطح پر اور خاص طور پر پنجاب میں اس کے ووٹ بینک میں کوئی خاطر خواہ اضافہ تو نہیں ہوا لیکن وہ ایک بڑی پارٹی کے طور پر بدستور قومی اسمبلی میں موجود ہے اور سندھ میں تو حکومت پیپلز پارٹی کی ہو گی ۔ اس سے پہلے بھی یہ کوشش جاری رہی کہ پیپلز پارٹی کا عوامی ووٹ بینک ختم کر دیا جائے جو کہ ممکن نہ ہو سکا اور بھٹو کے وارثوں نے مشکل حالات کا مقابلہ بھی خوب کیا اور پارٹی کو بھٹو کے نام پر زندہ رکھا ہوا ہے ایک آدھی جماعت کو چھوڑ کر جو کہ پیپلز پارٹی نظریاتی اختلاف رکھتی ہے اس الیکشن کے بعد سب ہارے ہوئے گھوڑے آپس میں شیرو شکر ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کی بہت بڑی کامیابی ہے جس نے سب کے لیے اپنی جماعت کو قابل قبول بنایا ہے اور اب پیپلز پارٹی کا کوئی موثر سیاسی مخالف باقی نہیں رہا۔ تحریک انصاف کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرناممکن نہیں کیونکہ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں انھوں نے پیپلز پارٹی کی مدد کی ہے اس لیے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔ بہر حال یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ عمران خان حکومت سنبھالنے جا رہے ہیں اور متحدہ اپوزیشن پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سمیت ان کے استقبال کے لیے تیار ہے ۔
دوسری طرف عوامی سیاست کی سطح پر ان کے مخالفین کی قیادت میاں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ نے سنبھالی جو سوشلزم مخالف نظریہ پاکستان یعنی اسلامی نظریات کی داعی تھی ۔میاں صاحب ذاتی طور پر بھی بھٹو صاحب کے زخم خوردہ تھے' انھوں نے ان کے کارخانے بحق سرکار ضبط کر لیے تھے اور انھیں در بدر کر دیا تھا اس کارروائی سے میاں صاحب میں ایک زہر بھر گیا تھا اور پیپلز پارٹی کا نام سنتے ہی ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا ۔نواز شریف تین بار جب کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید دو بار اقتدار میں آئیں اور اس دوران دونوں میں سیاسی و ذاتی عداوت مزید شدت اختیار کر گئی تھی۔
میاں صاحب اس وقت جنرل ضیا الحق کے نام لیوا اور پروردہ تھے جن کو پیپلز پارٹی اپنے لیڈر کا قاتل سمجھتی تھی ۔ یوں تو کہاجاتا ہے کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی سب عارضی ہوتی ہیں لیکن میاں صاحب اور بینظیر صاحبہ کی دشمنی عارضی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ ان کے ملاپ کا تصور بھی ایک حماقت تھی مگر اس حماقت کو بینظیر نے اپنی سیاست سے دوستی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ ایک سیاستدان باپ کی سیاستدان بیٹی ہیں چنانچہ طویل صبر کے بعد ایک دن جب اس نے دیکھا کہ لوہا خوب گرم ہو گیا ہے تو اس نے عین وقت پر اپنی چوٹ لگائی کہ پگھلا ہوا لوہا اس کی مرضی کے سانچے میں ڈھل گیا اور اس کے شدید ترین اور سب سے موثر سیاسی مخالف خود چل کر اس کے پاس آ گئے اور اس کے سامنے اپنا کانپتا ہوا دست تعاون دراز کر دیا جس کو پاکستانیوں نے حیرت زدہ ہو کر دیکھا تھا کہ پاکستان کی دو ہی بڑی سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے سے جمہوریت کے نام پر میثاق کر لیا ۔
شاید یہ درست ہی ہے کہ سیاست میں دوستی دشمنی سب عارضی ہوتی ہے خصوصاً ذاتی اورمفاداتی سیاست میں۔ اس کی ایک اور مثال یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ق لیگ کے چوہدری شجاعت اور پرویز صاحب نے اپنے بد ترین مخالف کی حکومت میں عہدے سنبھالے حالانکہ ان کا موقف بھی پیپلز پارٹی کے بارے میں وہی تھا جو پیپلز پارٹی کا ضیاء الحق کے بارے میں ہے ۔
اب ایک بار پھر وہی صورتحال درپیش ہے' مسلم لیگ پیپلز پارٹی سے مل کر متحدہ اپوزیشن کی شکل میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے جا رہی ہے حالانکہ یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جس کے لیڈر جناب آصف علی زرداری ہیںاور وہی شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہوں گے جو کہ مسمی آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنا چاہتے تھے ۔مفادات کا ایک نہ ختم ہونے والا کھیل ہے جو کہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ اس وقت دونوں کا سیاسی دشمن مشترک ہے اور وہ ہے عمران خان جس کے خلاف ساری اپوزیشن نے ایکا کر لیا ہے جو کہ بظاہر تو ساری پارٹیوں پر مشتمل ہے لیکن اس میں دو ہی پارٹیاں اپوزیشن کا کردار ادا کریںگی جن میں سر فہرست نواز لیگ جب کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن کی پچھلی صفوں میں اس کی مدد کرے گی۔
پیپلز پارٹی کی تاریخ میں یہ ایک اور موقع ہے جب اس کے موروثی سیاسی مخالف اس کے ساتھ کھڑے ہیں عوامی سطح پر اور خاص طور پر پنجاب میں اس کے ووٹ بینک میں کوئی خاطر خواہ اضافہ تو نہیں ہوا لیکن وہ ایک بڑی پارٹی کے طور پر بدستور قومی اسمبلی میں موجود ہے اور سندھ میں تو حکومت پیپلز پارٹی کی ہو گی ۔ اس سے پہلے بھی یہ کوشش جاری رہی کہ پیپلز پارٹی کا عوامی ووٹ بینک ختم کر دیا جائے جو کہ ممکن نہ ہو سکا اور بھٹو کے وارثوں نے مشکل حالات کا مقابلہ بھی خوب کیا اور پارٹی کو بھٹو کے نام پر زندہ رکھا ہوا ہے ایک آدھی جماعت کو چھوڑ کر جو کہ پیپلز پارٹی نظریاتی اختلاف رکھتی ہے اس الیکشن کے بعد سب ہارے ہوئے گھوڑے آپس میں شیرو شکر ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کی بہت بڑی کامیابی ہے جس نے سب کے لیے اپنی جماعت کو قابل قبول بنایا ہے اور اب پیپلز پارٹی کا کوئی موثر سیاسی مخالف باقی نہیں رہا۔ تحریک انصاف کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرناممکن نہیں کیونکہ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں انھوں نے پیپلز پارٹی کی مدد کی ہے اس لیے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔ بہر حال یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ عمران خان حکومت سنبھالنے جا رہے ہیں اور متحدہ اپوزیشن پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سمیت ان کے استقبال کے لیے تیار ہے ۔