دریا پر پل اور بیچارہ بادشاہ
بادشاہ اپنے وزیر پر بہت غصے ہوا کہ تم نے ڈنڈا کیا چلایا۔
میں نے کبھی ذاتی تجربہ نہیں کیا ، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ '' کتے کی دم کو ایک ہزار سال بھی پائپ میں رکھا جائے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی'' نا تو میں نے کسی کتے کی عمرکو ایک ہزار سال دیکھا ہے اور نہ ہی ہزار سال پہلے پائپ بنا تھا، مگر ''ڈنڈا'' ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔اسی ''ڈنڈے'' نے اچھے اچھے جانوروں کو ٹھیک کر دیا۔ 'ڈنڈا' جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے، سارے جانور اُس کے اشارے پر ناچتے ہیں ۔ندا فاضلی کا شعر تھا کہ
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑا دے شراب کم کر دے
نعمان میاں نے یہ شعر بدل دیا اور اسے سیاسی بنا دیا ۔
یہاں پہ ڈنڈے کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے حاکم بنا دے ، مخالف کم کر دے
اس لیے ڈنڈے کی قیمت ہے آدمی کی نہیں ۔ یہاں ڈنڈا ہی آدمی کا وزن بڑھاتا ہے۔ یہ کبھی بندرکو نچاتا ہے۔ توکبھی گائے کو قطار میں چلاتا ہے ۔کبھی ہاتھی کو سیدھا کرتا ہے۔ ہمارے یہاں کے جانور تو اب ڈنڈے سے اتنے خوفزدہ رہتے ہیں کہ اگر انھیں کوئی کہہ دے کہ سیدھے چلو ورنہ میرے گھر میں ڈنڈا پڑا ہے ۔ تو یقین مانے وہ بیچارے نیند میں بھی سیدھے چلتے رہتے ہیں ۔ ایک ہوٹل میں لکھا ہوا تھا کہ یہاں سیاسی گفتگوکرنا منع ہے کیونکہ عمارت ڈنڈے پرکھڑی ہوئی ہے ۔ بات پھر یہاں وہاں چلی جائے گی ۔ نعمان کا خیال ہے کہ یہ محاورہ اصل میں ایسے تھا کہ 'ڈنڈا' ہزار سال سے بگڑے ہوئے کتے کو سیدھا کر دے گا ۔ میرا خیال ہے کہ کتا تو سیدھا ہوجائے گا لیکن دم پھر بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔
پالتو جانوروں میں ڈنڈے کا خوف اتنا ہو چکا ہے کہ ہوا تیز چلنا شروع ہو جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ڈنڈا ہوا میں لہرا رہا ہے ۔ بیچارے فورا حواس باختہ ہو جاتے ہیں ۔ ماحول ایسا ہو چکا ہے کہ اگر 'بلی' انگڑائی لیتے ہوئے منہ کھولے تو دوسرے سارے جانور ڈرنے لگ جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ڈنڈے کھا کھا کر اب بلی شیر بننے والی ہے۔
ایک بکری کو سردی لگ گئی ۔پورے معاشرے میں افواہ پھیل گئی کہ ڈنڈا زور سے لگنے کی وجہ سے بکری کو نزلہ ہوگیا ہے ۔ایک بیل کھانے میں اتنا مصروف ہوگیا کہ اُسے یاد ہی نہیں رہا کہ فارم ہائوس کا دروازہ بند ہونے والا ہے۔ وہ باہرکھڑا ہوا تھی اور دروازہ بند تھا ۔ لومڑی نے بندرکے کان میں کہا کہ آج اس کو صحیح ڈنڈا لگا نہیں اسی لیے لیٹ ہوگئی۔
ہمارے یہاں جانوروں کے لیے ڈنڈا الگ الگ طریقے سے استعمال ہوتا ہے۔کسی کو ڈنڈا دکھایا جاتا ہے۔کسی کو ڈنڈا مارا جاتا ہے ۔کسی کو ڈنڈے لگنے کے فائدے اور نقصان بتائے جاتے ہیں،کسی کو ڈنڈے کی توانائی کے بارے میں بریفنگ دی جاتی ہے۔ بس آسانی کے لیے آپ یہ سمجھیں کہ ڈنڈے نے ہر صورت میں اپنا بھرم قائم رکھا ہوا ہے،کسی زمانے میں ڈنڈے کے متعلق ایک بڑا مشہور لطیفہ سنایا جاتا تھا ۔
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب بندوق نہیں بنی تھی ، بلکہ یہ سمجھیں کہ اُس وقت تلواریں بھی نہیں بنی تھی ۔ سب سے بڑا ہتھیار درختوں سے ملنے والی لکڑی تھی جسے آپ آج کل کے دور میں ڈنڈا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ غلاموں اور اپنی رعایا کو ڈنڈے مار مارکر سیدھا کیا جاتا تھا ۔ان سے بڑے بڑے پتھر اٹھوا کر محل بنوائے جاتے تھے۔ جہاں بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ رہتا تھا ۔ ڈنڈا کسی کو جان سے مار دینے کے لیے کم ہی استعمال ہوتا تھا ۔ بس لوگوں کو خوف ہوتا تھا کہ اگر بہت زیاہ ڈنڈے کھا لیے تو مر جائیں گے ۔ وہاں ایک نیا بادشاہ آیا۔ بہت رحم دل تھا ۔ اُس نے اعلان کیا کہ اب کسی کو ڈنڈے نہیں پڑیں گے ۔ اب سب آرام سے رہیں گے۔
کچھ دنوں بعد بادشاہ کو محسوس ہوا کہ ریاست کے لوگوں کا ایک سب سے بڑا مسئلہ دریا کو عبورکرنا ہے۔ بادشاہ نے اعلان کیا کہ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دریا کے اوپر ایک پُل تعمیرکرنا چاہیے۔اس زمانے میں ڈیم وغیرہ کی عقل کسی کے پاس تھی نہیں ۔ بادشاہ نے کہا کہ اس کے لیے کام کرنے والے مزدوروں کو اچھی خاصی اجرت دی جائے گی ۔ بہت سے لوگ پُل کی تعمیر میں کام کرنے لگے ۔ایسے ایسے لوگ اچھی اجرت کے چکر میں کام کرنے لگے جنھوں نے کبھی پتھرکو ہاتھ بھی نہیں لگا یا تھا ۔ پروفیشنل کم تھے مگر تنخواہیں زیادہ تھیں۔
دوسرے الفاظ میں زبردست قسم کی سرکاری نوکری تھی، لیکن ایک ہفتے میں ہی بادشاہ کو یہ بات سمجھ آگئی کہ اُس نے حد سے زیادہ نوکریاں دے دی ہیں اور جنھیں نوکریاں دی گئی ہے ان کی تنخواہیں بھی زیادہ ہے۔ آسان الفاظ میں یہ سمجھیں کہ یہ PIA بن چکی ہے۔ بادشاہ نے اپنے وزیر خزانہ کو بلایا ۔ اور کہا کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے، اگر اتنے سارے لوگ کام کریں گے اور اتنا آہستہ کام کریں گے تو پُل تعمیر ہونے سے پہلے حکومت کنگال ہوجائے گی اور ہمیں نعرہ لگانا پڑے گا کہ'' قرض اتارو ، بادشاہ بچائو '' وزیر بہت عقل مند تھا ، جیسے ہمارے یہاں کے وزیر ہوتے ہیں۔
اُس نے کہا کہ وہاں کام کرنے والوں کی ڈیوٹی ٹائم بڑھا دے ، لیکن تنخواہ پرانی ہی دیں اورکہہ دے کہ پرانی تنخواہ پرکام کریں ورنہ ڈنڈے پھر شروع ہوجائیں گے ۔اس جملے کا تعلق کراچی کی سیاست سے ہرگز نہیں ہے ۔ بادشاہ نے حکم دے دیا کہ سب پرانی تنخواہ پر زیادہ دیرکام کریں ورنہ ڈنڈا رکھا ہوا ہے۔ یاد رہے ہمارے اسکولوں میں ڈنڈا ''مولابخش '' کے نام سے خاصا مشہور تھا۔
بہرحال ڈنڈے کے خوف سے سب نے اُسی تنخواہ پر زیادہ دیرکام کرنا شروع کردیا ، لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں رہا،کیونکہ لوگ زیادہ تو تھے مگرکام کرنے والے نہیں تھے۔یعنی skilled نہ تھے۔ اب رات کو دیر دیر تک لوگ ہوتے تھے، لیکن کام نہیں ہوتا تھا۔بادشاہ بہت غصے میں تھا کہ اپنی قوم کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں مگرکام ہی آگے نہیں بڑھ رہا ۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ اُس نے کام کرنے والوں کاانتخا ب ٹھیک نہیں کیا ہے ۔اُس نے بڑی تنخواہوں پر بھرتی توکر لی ہے لیکن یہ سارے وہ لوگ ہے جوصرف ڈنڈے پر چل تو سکتے ہیں لیکن چلا نہیں سکتے۔اب بادشاہ نے وزیرداخلہ کو بلایا کہ اس مسئلے کا نیا حل کرے، لیکن اس بات کا خیال رکھے کہ کسی کو نکالا نہ جائے ۔
وزیر داخلہ استادوں کا استاد تھا ۔اُس نے پھر سے ڈنڈا نکال لیا اورجو لوگ کام پر آتے تھے انھیں کہا جاتا تھا کہ پہلے سب لوگ ایک لائن میں کھڑے ہوجائیں اور پھر سب کو پیٹھ پر ایک زور دار ڈنڈا مارتا تھا اور اُسے کام پر جانے کا کہتا تھا ۔ لوگوں میں بادشاہ کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوگئی۔ سارے لوگ جلوس کی شکل میں بادشاہ کے محل کے سامنے مظاہرہ کرنے لگے ۔اس زمانے میں دھرنے کا لفظ ایجاد نہیں ہوا، زور زور سے نعرے لگ رہے تھے کہ ڈنڈے کے زور پرکام نہیں چلے گا ۔
بادشاہ اپنے وزیر پر بہت غصے ہوا کہ تم نے ڈنڈا کیا چلایا۔ وزیر نے کہا کہ ڈنڈا چلانے سے کام ہماری مرضی کا ہو رہا ہے ۔ بادشاہ نے غصے میں اپنے وزیر داخلہ کی طرف دیکھا اور اپنے دوسرے وزیر سے کہا کہ باہر جائو اور ان کے لیڈروں کو بلا کر لائو ۔ بادشاہ کے حکم پر وہ فورا ان کے لیڈروں کو لے آیا ۔ سب لیڈروں نے بادشاہ کی خدمت میں سلام کیا ۔بادشاہ نے کہا کہ بتائوکیا مسئلہ ہے ۔ وہ سارے لیڈر جو باہر زور زور سے نعرے لگا رہے تھے ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمیں آپ کے لوگوں سے بہت شکایت ہے ۔
پہلی شکایت یہ ہے کہ ہمیں ڈنڈے کھانے پرکوئی اعتراض نہیں لیکن لائن اتنی لمبی ہوتی ہے کہ ہماری اجرت کا وقت کم بچ جاتا ہے ۔ اس لیے ڈنڈے مارنے کی رفتار بڑھائی جائے ۔ دوسرا لیڈر آگے بڑھا اورکہنے لگا بادشاہ سلامت بہتر یہ ہے کہ ڈنڈا ہمیں دے دیا جائے ہم وقت بھی بچا لیں گے اور سب کو ڈنڈے بھی ٹھیک لگیں گے ۔ بادشاہ نے مطالبات مان لیے ، ڈنڈا پھر راج کرنے لگا ۔
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑا دے شراب کم کر دے
نعمان میاں نے یہ شعر بدل دیا اور اسے سیاسی بنا دیا ۔
یہاں پہ ڈنڈے کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے حاکم بنا دے ، مخالف کم کر دے
اس لیے ڈنڈے کی قیمت ہے آدمی کی نہیں ۔ یہاں ڈنڈا ہی آدمی کا وزن بڑھاتا ہے۔ یہ کبھی بندرکو نچاتا ہے۔ توکبھی گائے کو قطار میں چلاتا ہے ۔کبھی ہاتھی کو سیدھا کرتا ہے۔ ہمارے یہاں کے جانور تو اب ڈنڈے سے اتنے خوفزدہ رہتے ہیں کہ اگر انھیں کوئی کہہ دے کہ سیدھے چلو ورنہ میرے گھر میں ڈنڈا پڑا ہے ۔ تو یقین مانے وہ بیچارے نیند میں بھی سیدھے چلتے رہتے ہیں ۔ ایک ہوٹل میں لکھا ہوا تھا کہ یہاں سیاسی گفتگوکرنا منع ہے کیونکہ عمارت ڈنڈے پرکھڑی ہوئی ہے ۔ بات پھر یہاں وہاں چلی جائے گی ۔ نعمان کا خیال ہے کہ یہ محاورہ اصل میں ایسے تھا کہ 'ڈنڈا' ہزار سال سے بگڑے ہوئے کتے کو سیدھا کر دے گا ۔ میرا خیال ہے کہ کتا تو سیدھا ہوجائے گا لیکن دم پھر بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔
پالتو جانوروں میں ڈنڈے کا خوف اتنا ہو چکا ہے کہ ہوا تیز چلنا شروع ہو جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ڈنڈا ہوا میں لہرا رہا ہے ۔ بیچارے فورا حواس باختہ ہو جاتے ہیں ۔ ماحول ایسا ہو چکا ہے کہ اگر 'بلی' انگڑائی لیتے ہوئے منہ کھولے تو دوسرے سارے جانور ڈرنے لگ جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ڈنڈے کھا کھا کر اب بلی شیر بننے والی ہے۔
ایک بکری کو سردی لگ گئی ۔پورے معاشرے میں افواہ پھیل گئی کہ ڈنڈا زور سے لگنے کی وجہ سے بکری کو نزلہ ہوگیا ہے ۔ایک بیل کھانے میں اتنا مصروف ہوگیا کہ اُسے یاد ہی نہیں رہا کہ فارم ہائوس کا دروازہ بند ہونے والا ہے۔ وہ باہرکھڑا ہوا تھی اور دروازہ بند تھا ۔ لومڑی نے بندرکے کان میں کہا کہ آج اس کو صحیح ڈنڈا لگا نہیں اسی لیے لیٹ ہوگئی۔
ہمارے یہاں جانوروں کے لیے ڈنڈا الگ الگ طریقے سے استعمال ہوتا ہے۔کسی کو ڈنڈا دکھایا جاتا ہے۔کسی کو ڈنڈا مارا جاتا ہے ۔کسی کو ڈنڈے لگنے کے فائدے اور نقصان بتائے جاتے ہیں،کسی کو ڈنڈے کی توانائی کے بارے میں بریفنگ دی جاتی ہے۔ بس آسانی کے لیے آپ یہ سمجھیں کہ ڈنڈے نے ہر صورت میں اپنا بھرم قائم رکھا ہوا ہے،کسی زمانے میں ڈنڈے کے متعلق ایک بڑا مشہور لطیفہ سنایا جاتا تھا ۔
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب بندوق نہیں بنی تھی ، بلکہ یہ سمجھیں کہ اُس وقت تلواریں بھی نہیں بنی تھی ۔ سب سے بڑا ہتھیار درختوں سے ملنے والی لکڑی تھی جسے آپ آج کل کے دور میں ڈنڈا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ غلاموں اور اپنی رعایا کو ڈنڈے مار مارکر سیدھا کیا جاتا تھا ۔ان سے بڑے بڑے پتھر اٹھوا کر محل بنوائے جاتے تھے۔ جہاں بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ رہتا تھا ۔ ڈنڈا کسی کو جان سے مار دینے کے لیے کم ہی استعمال ہوتا تھا ۔ بس لوگوں کو خوف ہوتا تھا کہ اگر بہت زیاہ ڈنڈے کھا لیے تو مر جائیں گے ۔ وہاں ایک نیا بادشاہ آیا۔ بہت رحم دل تھا ۔ اُس نے اعلان کیا کہ اب کسی کو ڈنڈے نہیں پڑیں گے ۔ اب سب آرام سے رہیں گے۔
کچھ دنوں بعد بادشاہ کو محسوس ہوا کہ ریاست کے لوگوں کا ایک سب سے بڑا مسئلہ دریا کو عبورکرنا ہے۔ بادشاہ نے اعلان کیا کہ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دریا کے اوپر ایک پُل تعمیرکرنا چاہیے۔اس زمانے میں ڈیم وغیرہ کی عقل کسی کے پاس تھی نہیں ۔ بادشاہ نے کہا کہ اس کے لیے کام کرنے والے مزدوروں کو اچھی خاصی اجرت دی جائے گی ۔ بہت سے لوگ پُل کی تعمیر میں کام کرنے لگے ۔ایسے ایسے لوگ اچھی اجرت کے چکر میں کام کرنے لگے جنھوں نے کبھی پتھرکو ہاتھ بھی نہیں لگا یا تھا ۔ پروفیشنل کم تھے مگر تنخواہیں زیادہ تھیں۔
دوسرے الفاظ میں زبردست قسم کی سرکاری نوکری تھی، لیکن ایک ہفتے میں ہی بادشاہ کو یہ بات سمجھ آگئی کہ اُس نے حد سے زیادہ نوکریاں دے دی ہیں اور جنھیں نوکریاں دی گئی ہے ان کی تنخواہیں بھی زیادہ ہے۔ آسان الفاظ میں یہ سمجھیں کہ یہ PIA بن چکی ہے۔ بادشاہ نے اپنے وزیر خزانہ کو بلایا ۔ اور کہا کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے، اگر اتنے سارے لوگ کام کریں گے اور اتنا آہستہ کام کریں گے تو پُل تعمیر ہونے سے پہلے حکومت کنگال ہوجائے گی اور ہمیں نعرہ لگانا پڑے گا کہ'' قرض اتارو ، بادشاہ بچائو '' وزیر بہت عقل مند تھا ، جیسے ہمارے یہاں کے وزیر ہوتے ہیں۔
اُس نے کہا کہ وہاں کام کرنے والوں کی ڈیوٹی ٹائم بڑھا دے ، لیکن تنخواہ پرانی ہی دیں اورکہہ دے کہ پرانی تنخواہ پرکام کریں ورنہ ڈنڈے پھر شروع ہوجائیں گے ۔اس جملے کا تعلق کراچی کی سیاست سے ہرگز نہیں ہے ۔ بادشاہ نے حکم دے دیا کہ سب پرانی تنخواہ پر زیادہ دیرکام کریں ورنہ ڈنڈا رکھا ہوا ہے۔ یاد رہے ہمارے اسکولوں میں ڈنڈا ''مولابخش '' کے نام سے خاصا مشہور تھا۔
بہرحال ڈنڈے کے خوف سے سب نے اُسی تنخواہ پر زیادہ دیرکام کرنا شروع کردیا ، لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں رہا،کیونکہ لوگ زیادہ تو تھے مگرکام کرنے والے نہیں تھے۔یعنی skilled نہ تھے۔ اب رات کو دیر دیر تک لوگ ہوتے تھے، لیکن کام نہیں ہوتا تھا۔بادشاہ بہت غصے میں تھا کہ اپنی قوم کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں مگرکام ہی آگے نہیں بڑھ رہا ۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ اُس نے کام کرنے والوں کاانتخا ب ٹھیک نہیں کیا ہے ۔اُس نے بڑی تنخواہوں پر بھرتی توکر لی ہے لیکن یہ سارے وہ لوگ ہے جوصرف ڈنڈے پر چل تو سکتے ہیں لیکن چلا نہیں سکتے۔اب بادشاہ نے وزیرداخلہ کو بلایا کہ اس مسئلے کا نیا حل کرے، لیکن اس بات کا خیال رکھے کہ کسی کو نکالا نہ جائے ۔
وزیر داخلہ استادوں کا استاد تھا ۔اُس نے پھر سے ڈنڈا نکال لیا اورجو لوگ کام پر آتے تھے انھیں کہا جاتا تھا کہ پہلے سب لوگ ایک لائن میں کھڑے ہوجائیں اور پھر سب کو پیٹھ پر ایک زور دار ڈنڈا مارتا تھا اور اُسے کام پر جانے کا کہتا تھا ۔ لوگوں میں بادشاہ کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوگئی۔ سارے لوگ جلوس کی شکل میں بادشاہ کے محل کے سامنے مظاہرہ کرنے لگے ۔اس زمانے میں دھرنے کا لفظ ایجاد نہیں ہوا، زور زور سے نعرے لگ رہے تھے کہ ڈنڈے کے زور پرکام نہیں چلے گا ۔
بادشاہ اپنے وزیر پر بہت غصے ہوا کہ تم نے ڈنڈا کیا چلایا۔ وزیر نے کہا کہ ڈنڈا چلانے سے کام ہماری مرضی کا ہو رہا ہے ۔ بادشاہ نے غصے میں اپنے وزیر داخلہ کی طرف دیکھا اور اپنے دوسرے وزیر سے کہا کہ باہر جائو اور ان کے لیڈروں کو بلا کر لائو ۔ بادشاہ کے حکم پر وہ فورا ان کے لیڈروں کو لے آیا ۔ سب لیڈروں نے بادشاہ کی خدمت میں سلام کیا ۔بادشاہ نے کہا کہ بتائوکیا مسئلہ ہے ۔ وہ سارے لیڈر جو باہر زور زور سے نعرے لگا رہے تھے ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمیں آپ کے لوگوں سے بہت شکایت ہے ۔
پہلی شکایت یہ ہے کہ ہمیں ڈنڈے کھانے پرکوئی اعتراض نہیں لیکن لائن اتنی لمبی ہوتی ہے کہ ہماری اجرت کا وقت کم بچ جاتا ہے ۔ اس لیے ڈنڈے مارنے کی رفتار بڑھائی جائے ۔ دوسرا لیڈر آگے بڑھا اورکہنے لگا بادشاہ سلامت بہتر یہ ہے کہ ڈنڈا ہمیں دے دیا جائے ہم وقت بھی بچا لیں گے اور سب کو ڈنڈے بھی ٹھیک لگیں گے ۔ بادشاہ نے مطالبات مان لیے ، ڈنڈا پھر راج کرنے لگا ۔