نواز شریف ہرگز قدم نہ بڑھانا

حقائق تو یہ ہیں نواز شریف کے خاندان اور نواز شریف کی پارٹی نے ان کے جیتے جی ان کا سارا ترکہ آپس میں بانٹ لیا ہے۔


Jawed Chowhdray August 16, 2018
www.facebook.com/javed.chaudhry

بات معمولی تھی لیکن معمولی باتیں عقل مندوں کے لیے معمولی نہیں ہوتیں۔

لاہور میں میرے ایک جاننے والے ہوا کرتے تھے' وہ پلاسٹک کے پرزے بناتے تھے' کروڑوں میں کھیلتے تھے' اللہ تعالیٰ نے نام' رزق اور دین کی نعمت سے نواز رکھا تھا' وہ ہزار خوبیوں کے مالک تھے' بس ایک خامی تھی' وہ اپنی ذاتی اشیاء کسی دوسرے کے ساتھ شیئر نہیں کرتے تھے' وہ اپنے تولیے' سلیپر' کپڑے' بستر' گاڑی' برتن' کرسی حتیٰ کہ قلم دوات بھی کسی کو استعمال نہیں کرنے دیتے تھے۔

پورا خاندان 'دوست' احباب اور ملازمین ان کی اس عادت سے واقف تھے چنانچہ کوئی ان کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا لیکن پھر ایک دن وہ معمولی سی بات ہو گئی جو عقل مندوں کے لیے معمولی نہیں ہوتی' شیخ صاحب چھٹیاں منانے لندن گئے' واپسی پر فلائیٹس کا ایشو ہوا اور وہ شیڈول سے دو دن پہلے واپس آ گئے' وہ گھر واپس پہنچے تو ان کے پائوں کے نیچے سے زمین نکل گئی' ان کے بیڈ روم میں ان کا سالا سو رہا تھا' بیوی نے ڈرتے ڈرتے بتایا بھائی جان رات اچانک آ گئے تھے۔

گھر میں کوئی اور کمرہ خالی نہیں تھا چنانچہ میں نے مجبوری میں ان کو آپ کے کمرے میں ٹھہرا دیا' گیراج میں ان کی گاڑی بھی موجود نہیں تھی' پوچھا تو پتہ چلا' چھوٹے بیٹے کی گاڑی جی ٹی روڈ پر خراب ہو گئی تھی' گاڑی کی ضرورت تھی' گھر پر شیخ صاحب کی گاڑی موجود تھی چنانچہ ایمرجنسی میں یہ گاڑی بھجوا دی گئی' شیخ صاحب غصے میں دفتر چلے گئے' وہاں کے حالات دیکھ کر ان کا سر گھوم گیا۔

دفتر میں ان کی کرسی پر ان کا بڑا بیٹا بیٹھا تھا اور ان کا ذاتی عملہ اس کی خدمت میں جتا ہوا تھا' ڈرائیور نے ان کے کپڑے پہن رکھے تھے' پوچھا تو پتہ چلا لانڈری سے کپڑے دھل کر آئے تھے' گاڑی میں پڑے تھے' ڈرائیور نے بڑے بیٹے کو کسی شادی پر لے کر جانا تھا' اس کے پاس صاف کپڑے نہیں تھے' بڑے بیٹے نے ڈرائیور سے کہا'' تم ابو کے کپڑے پہن لو' شام کو اتار کر دوبارہ لانڈری میں دے آنا' ابو کے آنے سے پہلے کپڑے واپس آ جائیں گے''ڈرائیور نے کپڑے پہن لیے' دفتر کے بارے میں پتہ چلا یہ جب بھی باہر جاتے ہیں بڑا بیٹا ان کا دفتر' ان کا عملہ استعمال کرتا رہتا ہے۔

شیخ صاحب کو بہت افسوس ہوا' بیگم کے سامنے احتجاج کیا تو وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولی ''تو کیا ہوگیا' کون سا آسمان سر پرگر گیا' یہ سب انھی کا تو ہے' کیا آپ یہ قبر میں لے کر جائیں گے''اور یہ وہ الفاظ تھے جو وہ معمولی سی بات ثابت ہوئے جو عقل مندوں کے لیے معمولی نہیں ہوتی' شیخ صاحب کو محسوس ہوا میں ابھی زندہ ہوں۔

میں صرف چند دن کے لیے باہر گیا تھا اور میرے عزیزوں نے میری ہر چیز کو ترکہ سمجھ کر آپس میں بانٹ لیا' میں جب اصل میں مر جائوں گا تو پھر کیا ہوگا؟'' اور بس معمولی سی بات ہو گئی' شیخ صاحب نے اپنی فیکٹری 'گھر' گاڑیاں اور پلاٹس نیلام کر دیے' آدھی رقم اپنے بچوں اور رشتے داروں میں تقسیم کی' آدھی رقم سے مسجد تعمیر کی اور باقی زندگی اس مسجد کے چھوٹے سے حجرے میں گزار دی' وہ کبھی لوٹ کر پچھلی زندگی میں واپس نہیں گئے۔

یہ واقعہ مجھے سوموار 13 اگست 2018ء کو بار بار یاد آیا' 13 اگست کو میاں نواز شریف کو گرفتاری کے بعد پہلی مرتبہ احتساب عدالت میں لایا گیا' ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو بکتر بند گاڑی میں عدالت پہنچایا گیا' یہ جب احتساب عدالت پہنچے تو پرویز رشید' سینیٹر سعدیہ عباسی' چوہدری تنویر اور بیرسٹر ظفراللہ کے علاوہ ن لیگ کا کوئی عہدیدار عدالت کے سامنے موجود نہیں تھا۔

میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے تک اپنے محسن' اپنے قائد کی زیارت کے لیے نہیں آئے تھے' پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے دلوں کے قائد کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اسمبلیوں میں حلف اٹھا رہے تھے' فوٹو سیشن کرا رہے تھے اور عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملا رہے تھے اور نواز شریف عدالت میں اکیلا بیٹھا تھا' آپ وقت کی بے رحمی ملاحظہ کیجیے ''نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں'' کے نعرے لگانے والے تمام سینیٹرز' چیئرمین' یوسی ممبرز اور میئرز بھی13 اگست کو غائب تھے۔

ہمارے دانشور دوست مشاہد حسین سید اور نوجوان قائدین طلال چوہدری' دانیال عزیز' محسن شاہ نواز رانجھا' مریم اورنگ زیب'طارق فضل چوہدری' ڈاکٹر مصدق ملک اور مفتاح اسماعیل بھی اس دن اپنے تاحیات قائد کے استقبال کے بجائے جوتے تلاش کرتے رہ گئے تھے چنانچہ میاں نواز شریف خطرناک ترین مجرموں کی طرح بکتر بند گاڑی میں عدالت لائے گئے اور اڑھائی گھنٹے عدالت میں بٹھائے گئے۔

پرویز رشید' سعدیہ عباسی' چوہدری تنویر اور بیرسٹر ظفراللہ کو چالیس منٹ کے انتظار اور احتجاج کے بعد بڑی مشکل سے کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت ملی' پرویز رشید نواز شریف کے ساتھ بیٹھ گئے' ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ تھا اور نہ ہی میاں نواز شریف کے پاس سنانے کے لیے کچھ چنانچہ دونوں خاموش بیٹھے رہے' چوہدری تنویر نے پوچھا ''آپ کا وزن بہت کم ہو گیا ہے'' میاں نواز شریف نے جواب دیا ''ہاں 25 پائونڈ وزن کم ہوا ہے لیکن میں ٹھیک ہوں' ادویات بھی وقت پر لے رہا ہوں اور کھانا بھی ٹھیک کھا رہا ہوں'' چوہدری تنویر بھی خاموش ہو گئے۔

میڈیا میں میاں نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں عدالت لانے اور مسلم لیگیوں کی بے حسی کی خبریں چلیں تو پارٹی کو ذرا ذرا سی شرم آنی شروع ہوئی' 13 اگست کی شام طارق فضل چوہدری کے فارم ہائوس میں ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تھا' ایم این ایز نے میاں شہباز شریف کا گھیرائو کر لیا' ان کا کہنا تھا ''میاں نواز شریف ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئیں'آپ انھیں ''اگنور'' کر کے اچھا نہیں کر رہے' ہم اگر ان کے لیے کھڑے نہ ہوئے تو ہماری سیاست ختم ہو جائے گی''میاں شہباز شریف نے وضاحت دینے کی کوشش کی لیکن وہ ارکان کو مطمئن نہ کر سکے یہاں تک کہ آخر میں فیصلہ ہوا میاں نواز شریف کو 15 اگست کو دوبارہ عدالت لایا جائے گا اور پارٹی اس دن آج کی غلطی کا تاوان ادا کرے گی۔

آپ وقت کی مزید ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے میاں نواز شریف کو جیل گئے ابھی ایک مہینہ گزرا ہے اور پارٹی انھیں بھول چکی ہے' یہ لوگ13 اگست کو سوٹ پہن کر قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں شریک ہوئے اور ان لوگوں نے نواز شریف کا نعرہ لگانا تو دور بازوئوں پر سیاہ پٹیاں تک باندھنا مناسب نہیں سمجھا' یہ ہال میں بھی اکٹھے داخل نہیں ہوئے' یہ ایک ایک کر کے آئے اور چپ چاپ اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔

میاں شہباز شریف کی آمد سب سے زیادہ بے اثر اور ناقابل توجہ تھی' یہ کسی طور پر اپوزیشن لیڈر محسوس نہیں ہو رہے تھے' بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری تیسری جماعت ہونے کے باوجود ایوان میں زیادہ پراثر اور جاندار نظر آرہے تھے' پارٹی کے لوگ اس دن ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے میاں شہباز شریف لاہور اور لندن میں بیٹھ کر اسلام آباد میں اپوزیشن کیسے چلائیں گے؟

یہ پنجاب اور وفاق میں پارٹی کو کیسے متحد رکھیں گے؟پارٹی کا یہ خدشہ درست ہے' چوہدری پرویز الٰہی چھ ماہ کا ٹارگٹ لے کر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر بن رہے ہیں' پاکستان مسلم لیگ ن کے 25 ارکان انھیں اسپیکر کے لیے ووٹ دیں گے اور یہ اسپیکر بننے کے بعد کسی بھی وقت ن لیگ کا فارورڈ بلاک بنا لیں گے اور عمران خان سے وزارت اعلیٰ کا مطالبہ کر دیں گے' حمزہ شہباز اس نیک کام میں چوہدری پرویز الٰہی کی بھرپور مدد کریں گے' ن لیگ کے ایم پی ایز حمزہ شہباز کو پسند نہیں کرتے' میاں شہباز شریف انھیں اپوزیشن لیڈر بنا کر غلطی کر رہے ہیں۔

مجھے خود ن لیگ کے ایم پی ایز نے بتایا عمران خان ہماری پارٹی کو خاندانی جاگیر کہتا تھا' یہ غلط نہیں کہتا تھا کیونکہ ہماری پارٹی کی قیادت اپوزیشن لیڈر کی کرسی بھی خاندان سے باہر برداشت نہیں کرتی' پارٹی کا اصل قائد جیل میں محبوس ہے اور میاں شہباز شریف اس کی بکتر بند گاڑی کے سامنے نعرہ لگانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں' والد وفاق میں اپوزیشن لیڈر ہے اور بیٹا پنجاب میں حزب اختلاف کا لیڈر گویا پارٹی میں کوئی دوسرا شخص کسی عہدے کے قابل نہیں' مجھے کل ن لیگ کے ایک نوجوان ایم این اے نے کہا نواز شریف ہمارا محسن ہے۔

ہم آج اس کی وجہ سے ایم این اے ہیں' یہ اگر 13 جولائی کو پاکستان واپس نہ آتا تو ہم 20 سے زیادہ سیٹیں نہیں لے سکتے تھے'وہ شہباز شریف کو 13 جولائی اور 13 اگست کی صورتحال کا ذمے دار سمجھتا تھا' اس کا کہنا تھا میاں شہباز شریف اگر 13 جولائی کو لاہور ائیرپورٹ پہنچ جاتے اور یہ اگر 13 اگست کو پہلے اپنے تمام ایم این ایز کے ساتھ احتساب عدالت کے سامنے مظاہرہ کرتے اور پھر قومی اسمبلی جاتے تو ہم آج ملک میں کھسیانے ہو کر نہ پھر رہے ہوتے'اس کا کہنا تھا شہباز شریف نے پارٹی کو تابوت میں بند کر دیا ہے بس آخری کیل باقی ہے۔

یہ صورتحال میاں نواز شریف کے لیے ''آئی اوپننگ'' ہونی چاہیے' میاں نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر سوچنا چاہیے وہ پنجاب کہاں چلا گیا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا یہ ان کا کسی قیمت پر ساتھ نہیں چھوڑے گا' وہ جاں نثار بھی کہاں ہیں جو کہتے تھے ''قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں'' اور وہ نوجوان قائدین بھی کہاں ہیں جو نواز شریف کو دلوں کا قائد کہتے تھے' وہ سارا تام جھام 'وہ سارے نعرے دھوکا تھے۔

حقائق تو یہ ہیں نواز شریف کے خاندان اور نواز شریف کی پارٹی نے ان کے جیتے جی ان کا سارا ترکہ آپس میں بانٹ لیا ہے' یہ انھیں ایک ماہ میں بھول چکے ہیں چنانچہ میرا نواز شریف کو مشورہ ہے یہ مستقبل میں ہرگزہرگز کوئی قدم نہ بڑھائیں کیونکہ خدشہ ہے یہ غلط قدم بڑھا کر بھٹو بن جائیں گے اوراس بھٹو کا فائدہ کوئی اور اٹھا ئے گا' یہ لوگ نواز شریف کی قبر کی مٹی بھی آپس میں بانٹ لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔