محکمہ زراعت لائیو اسٹاک کی نااہلی اربوں کا منصوبہ تعطل کا شکار
8.5 ارب کا قرضہ ضائع ہونے کا خدشہ، 97 کروڑ روپے افسران کی تنخواہ، الائونسز اور نئی گاڑیوں کی خریداری پر خرچ کردیے گئے
سندھ میں 8867 ملین (8 ارب 86کروڑ) روپے لاگت کے 5 سالہ زرعی منصوبے سندھ ایگریکلچرل گروتھ پروجیکٹ کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے جس کے باعث اس منصوبے کی مدت میں توسیع کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔
پروجیکٹ کو مالی سال 2018-19 کے اختتام تک مکمل ہونا ہے،مقررہ اہداف حاصل نہ ہونے کا اہم سبب مذکورہ منصوبے پر عملدرآمد کے ذمے دار صوبائی محکمہ زراعت اور محکمہ لائیو اسٹاک میں موجود انتظامی اور گورننس کے مسائل بتایا جاتا ہے، یہ منصوبہ عالمی بینک سے قرضہ حاصل کرکے شروع کیا گیا تھا، منصوبے کے مقاصد پورے نہ ہونے کے باعث یہ رقم ضایع ہونے کا خدشہ ہے۔
مذکورہ منصوبے پر عملدرآمد کی ذمہ داری حکومت سندھ کے دو محکموں محکمہ زراعت اور محکمہ لائیواسٹاک کے حوالے کی گئی تھی جس کے باعث پروجیکٹ کا زیادہ تر انحصار بھی مذکورہ دونوں محکموں کے موجودہ انتظامی مشنری پر ہی کیا گیا ۔ منصوبے کے تحت سندھ میں لال مرچ، پیاز، کھجور اور چاول کی پیداوار و منافع میں 20 فیصد تک اضافہ کرنا تھا جبکہ لائیواسٹاک کے شعبے میں بہتری لاکر دودھ کی پیداوار کو4فیصد تک بڑھانا تھا۔
ڈائریکٹر جنرل ایکسٹینشن محکمہ زراعت سندھ اور مذکورہ منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ہدایت اللہ چھجرو نے ایکسپریس کو بتایا کہ عالمی بینک اس منصوبے میں ایک سال کی توسیع پر غور کررہا ہے، محکمہ زراعت سندھ کے سیکریٹری شفیق مہیسر کے مطابق پروجیکٹ میں توسیع یا پی سی ون میں تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیر ہوئی تھی، جبکہ آبادگاروں کا کہنا ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ کے اہداف حاصل نہ ہونے کا سبب اس پر عملدرآمد کے ذمے دار محکموں کی خراب کارکردگی ہے۔
صوبے میں آبادگاروں کی تنظیم سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما اور سندھ ایگریکلچر گروتھ پروجیکٹ کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے ممبر سید محمود شاہ نے ایکسپریس کو بتایاکہ صوبے کی زراعت کے لیے یہ انتہائی اہم منصوبہ ہے لیکن بدقسمتی سے متعلقہ سرکاری محکموں کے انتظامی مسائل کی وجہ سے اس پر صحیح طور پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود عملی طور کچھ نظر نہیں آرہا، صرف ٹریننگ اسکول کے قیام جیسے اقدامات سامنے آئے، گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے اسٹیئرنگ کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ ایگریکلچر چیمبر کے سینئر نائب صدر نبی بخش سٹھیو کا کہناہے کہ پروجیکٹ کے اہداف حاصل نہ ہونے کا بڑا سبب محکمہ لائیو اسٹاک کی خراب کارکردگی ہے۔منصوبے کی مجموعی لاگت 8867 ملین روپے ہے جو عالمی بینک نے حکومت سندھ کو قرض کی شکل میں مہیا کی ہے، پروجیکٹ پر 6236 ملین روپے محکمہ زراعت کے ذریعے خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ2630 ملین روپے کی رقم محکمہ لائیو اسٹاک کے توسط سے خرچ کی جاری ہے۔
تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ کے تحت محکمہ لائیو اسٹاک اور محکمہ زراعت کے متعلقہ افسران و اسٹاف کو بھاری تنخواہیں، مراعات اور دیگر سہولتوں پر کروڑوں روپے کے اخراجات کے باوجود یہ منصوبہ اپنے اہداف حاصل نہ کرسکا۔
مذکورہ پروجیکٹ کی پی سی ون کے مطابق تقریباً 97 کروڑ (970 ملین) روپے کی رقم دونوں محکموں کے آپریشنل اخراجات کے لیے مختص کی گئی، اس رقم میں50 کروڑ روپے (500 ملین روپے) صرف دونوں محکموں کے متعلقہ افسران و اسٹاف کی تنخواہوں اور الائونسز کے لیے مہیا کیے گئے اور بقیہ رقم نئی گاڑیوں کی خریداری، ایئرکنڈیشنرز، فرنیچر اور دوسرے دفتری سامان کے لیے خرچ کی گئی۔
تنخواہوں اور الائونسز کے لیے مختص رقم میں36 کروڑ 10 لاکھ (361.042 ملین) روپے صرف محکمہ زراعت سندھ کے افسران و ملازمین کے لیے مہیا کیے گئے، جن افسران کو بھاری تنخواہیں اور مراعات مہیا کی گئیں ان میں دونوں محکموں کے ڈائریکٹر جنرلز سرفہرست ہیں جو اپنے اپنے محکموں کی جانب سے سندھ ایگریکلچر گروتھ پروجیکٹ کے پی ڈی (پروجیکٹ ڈائریکٹرز) بھی ہیں، ان میں سے ہر ایک بیک وقت پروجیکٹ ڈائریکٹرز کی حیثیت میں ڈھائی لاکھ روپے (250,000 روپے) ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں اور ڈائریکٹر جنرلز کی حیثیت سے لاکھوں روپے کی مراعات بھی حاصل کرتے ہیں۔
پروجیکٹ کے تحت صوبہ سندھ میں چاول، کھجور اور مرچ کی فصل کے نقصانات کو بھی 20 فیصد تک کم کرنا ہے۔ منصوبے کے تحت زرعی شعبے میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 12 ہزار سے زائد کاشت کاروں کو فائدہ پہنچانا تھا۔منصوبے کے تحت محکمہ لائیو اسٹاک کو765 گوٹھوں کے لیے 153 ملک چلرز نصب کرنے تھے اور ہر ایک چلرکی صلاحیت ایک ہزار لٹر دودھ اسٹور کرنے کی تھی لیکن 4سال گذرجانے کے باوجودبیشتر جگہوں پر ملک چلرز کی تنصیب نہیں ہوسکی، جن جگہوں پر ملک چلرز لگائے گئے ہیں وہ ابھی تک آپریشنل نہیں ہوسکے۔
منصوبے کے تحت محکمہ لائیواسٹاک کو3ہزارکسانوں کو ڈیری فارمنگ سے متعلق آگاہی و تربیت دی جانی تھی لیکن کئی جگہوں پر یہ کام صرف کاغذات کی حد تک ہوا ہے، اسی طرح منصوبے تحت صوبے کے9اضلاع میں30 ہزار600 مویشیوں کو صحتمند رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جانے تھے، محکمہ لائیو اسٹاک کو سندھ میں سیلاب سے متاثرہ121 ویٹرنری اسپتال، مراکز اور لیبارٹریوں کی مرمت کرکے بحال کرنا تھا اور وہاں جدید سہولتیں فراہم کی جانی تھیں تاہم اکثر جگہوں پر یہ کام بھی صرف کاغذات کی حد تک کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ صوبہ سندھ میں مال مویشیوںکی تعداد پورے ملک میں دوسرے نمبر پر ہے، سال 2006 کے اینیمل سینسس کے مطابق سندھ میں مویشیوں کی تعداد 32.144 ملین (3کروڑ 21 لاکھ) ہے۔ محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق لال مرچ کی ملک بھرکی مجموعی پیداوار کا 92 فیصد صوبہ سندھ سے حاصل ہوتا ہے، اسی طرح ملکی مجموعی پیداوار کا 33 فیصد پیاز اور 50 فیصد کھجور صوبہ مہیا کرتاہے۔
پروجیکٹ کو مالی سال 2018-19 کے اختتام تک مکمل ہونا ہے،مقررہ اہداف حاصل نہ ہونے کا اہم سبب مذکورہ منصوبے پر عملدرآمد کے ذمے دار صوبائی محکمہ زراعت اور محکمہ لائیو اسٹاک میں موجود انتظامی اور گورننس کے مسائل بتایا جاتا ہے، یہ منصوبہ عالمی بینک سے قرضہ حاصل کرکے شروع کیا گیا تھا، منصوبے کے مقاصد پورے نہ ہونے کے باعث یہ رقم ضایع ہونے کا خدشہ ہے۔
مذکورہ منصوبے پر عملدرآمد کی ذمہ داری حکومت سندھ کے دو محکموں محکمہ زراعت اور محکمہ لائیواسٹاک کے حوالے کی گئی تھی جس کے باعث پروجیکٹ کا زیادہ تر انحصار بھی مذکورہ دونوں محکموں کے موجودہ انتظامی مشنری پر ہی کیا گیا ۔ منصوبے کے تحت سندھ میں لال مرچ، پیاز، کھجور اور چاول کی پیداوار و منافع میں 20 فیصد تک اضافہ کرنا تھا جبکہ لائیواسٹاک کے شعبے میں بہتری لاکر دودھ کی پیداوار کو4فیصد تک بڑھانا تھا۔
ڈائریکٹر جنرل ایکسٹینشن محکمہ زراعت سندھ اور مذکورہ منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ہدایت اللہ چھجرو نے ایکسپریس کو بتایا کہ عالمی بینک اس منصوبے میں ایک سال کی توسیع پر غور کررہا ہے، محکمہ زراعت سندھ کے سیکریٹری شفیق مہیسر کے مطابق پروجیکٹ میں توسیع یا پی سی ون میں تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیر ہوئی تھی، جبکہ آبادگاروں کا کہنا ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ کے اہداف حاصل نہ ہونے کا سبب اس پر عملدرآمد کے ذمے دار محکموں کی خراب کارکردگی ہے۔
صوبے میں آبادگاروں کی تنظیم سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما اور سندھ ایگریکلچر گروتھ پروجیکٹ کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے ممبر سید محمود شاہ نے ایکسپریس کو بتایاکہ صوبے کی زراعت کے لیے یہ انتہائی اہم منصوبہ ہے لیکن بدقسمتی سے متعلقہ سرکاری محکموں کے انتظامی مسائل کی وجہ سے اس پر صحیح طور پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود عملی طور کچھ نظر نہیں آرہا، صرف ٹریننگ اسکول کے قیام جیسے اقدامات سامنے آئے، گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے اسٹیئرنگ کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ ایگریکلچر چیمبر کے سینئر نائب صدر نبی بخش سٹھیو کا کہناہے کہ پروجیکٹ کے اہداف حاصل نہ ہونے کا بڑا سبب محکمہ لائیو اسٹاک کی خراب کارکردگی ہے۔منصوبے کی مجموعی لاگت 8867 ملین روپے ہے جو عالمی بینک نے حکومت سندھ کو قرض کی شکل میں مہیا کی ہے، پروجیکٹ پر 6236 ملین روپے محکمہ زراعت کے ذریعے خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ2630 ملین روپے کی رقم محکمہ لائیو اسٹاک کے توسط سے خرچ کی جاری ہے۔
تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ کے تحت محکمہ لائیو اسٹاک اور محکمہ زراعت کے متعلقہ افسران و اسٹاف کو بھاری تنخواہیں، مراعات اور دیگر سہولتوں پر کروڑوں روپے کے اخراجات کے باوجود یہ منصوبہ اپنے اہداف حاصل نہ کرسکا۔
مذکورہ پروجیکٹ کی پی سی ون کے مطابق تقریباً 97 کروڑ (970 ملین) روپے کی رقم دونوں محکموں کے آپریشنل اخراجات کے لیے مختص کی گئی، اس رقم میں50 کروڑ روپے (500 ملین روپے) صرف دونوں محکموں کے متعلقہ افسران و اسٹاف کی تنخواہوں اور الائونسز کے لیے مہیا کیے گئے اور بقیہ رقم نئی گاڑیوں کی خریداری، ایئرکنڈیشنرز، فرنیچر اور دوسرے دفتری سامان کے لیے خرچ کی گئی۔
تنخواہوں اور الائونسز کے لیے مختص رقم میں36 کروڑ 10 لاکھ (361.042 ملین) روپے صرف محکمہ زراعت سندھ کے افسران و ملازمین کے لیے مہیا کیے گئے، جن افسران کو بھاری تنخواہیں اور مراعات مہیا کی گئیں ان میں دونوں محکموں کے ڈائریکٹر جنرلز سرفہرست ہیں جو اپنے اپنے محکموں کی جانب سے سندھ ایگریکلچر گروتھ پروجیکٹ کے پی ڈی (پروجیکٹ ڈائریکٹرز) بھی ہیں، ان میں سے ہر ایک بیک وقت پروجیکٹ ڈائریکٹرز کی حیثیت میں ڈھائی لاکھ روپے (250,000 روپے) ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں اور ڈائریکٹر جنرلز کی حیثیت سے لاکھوں روپے کی مراعات بھی حاصل کرتے ہیں۔
پروجیکٹ کے تحت صوبہ سندھ میں چاول، کھجور اور مرچ کی فصل کے نقصانات کو بھی 20 فیصد تک کم کرنا ہے۔ منصوبے کے تحت زرعی شعبے میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 12 ہزار سے زائد کاشت کاروں کو فائدہ پہنچانا تھا۔منصوبے کے تحت محکمہ لائیو اسٹاک کو765 گوٹھوں کے لیے 153 ملک چلرز نصب کرنے تھے اور ہر ایک چلرکی صلاحیت ایک ہزار لٹر دودھ اسٹور کرنے کی تھی لیکن 4سال گذرجانے کے باوجودبیشتر جگہوں پر ملک چلرز کی تنصیب نہیں ہوسکی، جن جگہوں پر ملک چلرز لگائے گئے ہیں وہ ابھی تک آپریشنل نہیں ہوسکے۔
منصوبے کے تحت محکمہ لائیواسٹاک کو3ہزارکسانوں کو ڈیری فارمنگ سے متعلق آگاہی و تربیت دی جانی تھی لیکن کئی جگہوں پر یہ کام صرف کاغذات کی حد تک ہوا ہے، اسی طرح منصوبے تحت صوبے کے9اضلاع میں30 ہزار600 مویشیوں کو صحتمند رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جانے تھے، محکمہ لائیو اسٹاک کو سندھ میں سیلاب سے متاثرہ121 ویٹرنری اسپتال، مراکز اور لیبارٹریوں کی مرمت کرکے بحال کرنا تھا اور وہاں جدید سہولتیں فراہم کی جانی تھیں تاہم اکثر جگہوں پر یہ کام بھی صرف کاغذات کی حد تک کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ صوبہ سندھ میں مال مویشیوںکی تعداد پورے ملک میں دوسرے نمبر پر ہے، سال 2006 کے اینیمل سینسس کے مطابق سندھ میں مویشیوں کی تعداد 32.144 ملین (3کروڑ 21 لاکھ) ہے۔ محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق لال مرچ کی ملک بھرکی مجموعی پیداوار کا 92 فیصد صوبہ سندھ سے حاصل ہوتا ہے، اسی طرح ملکی مجموعی پیداوار کا 33 فیصد پیاز اور 50 فیصد کھجور صوبہ مہیا کرتاہے۔