بچوں کو کہانیاں سنانے کا رواج

سیکھنے کے عمل کو تیز کرنے والی روایت دم توڑ رہی ہے


Rizwan Tahir Mubeen May 20, 2013
سیکھنے کے عمل کو تیز کرنے والی روایت دم توڑ رہی ہے۔ فوٹو : فائل

AMANZIMTOTI, SOUTH AFRICA: دنیا میں آنکھ کھولنے والے بچے کے لیے ہرچیز بالکل نئی ہوتی ہے، ارد گرد موجود ہر چیز اس کے کورے ذہن کو آگاہی فراہم کر رہی ہوتی ہے۔

مثلاً کیا چیز ٹھنڈی ہے اور کیا گرم، کیا چیز بے ضرر ہے اور کیا چیز خطرناک۔ اس طرح کی بہت سی چیزیں تو وہ اپنے تجربے سے پرکھ کر اور برت کر حاصل کر لیتا ہے، لیکن اچھے برے اور صحیح غلط کی تربیت میں سکھانے کے لیے نصیحتوں سے زیادہ اہم کردار مختلف قصوں اور کہانیوں کا ہے، جو نانی، دادی یا گھر کی دیگر خواتین چھوٹے بچوں کو سناتی ہیں۔ بچپن میں سنائی جانے والی کہانیوں سے ان کی زبان وبیان کی تربیت اور تخیلاتی قوت بہت تیز اور فعال ہوجاتی ہے۔ ان کہانیوں میں انہیں کچھ معلومات اور سبق ملنے کے ساتھ ساتھ غور وفکر اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو بھی خاطر خواہ فایدہ پہنچتا ہے۔

حال ہی میں سامنے آنے والے ایک سروے کے مطابق والدین کی معاشی مصروفیات اور جدید ذرایع ابلاغ کے باعث اب بچوں کو سوتے میں کہانیاں سنانے کا رجحان دم توڑ رہا ہے، جس سے ان کی ذہنی صلاحیتیں، سیکھنے کے عمل اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ مطالعے کی عادت تباہ ہونے سے ایک طرف غیر نصابی کتب سے دل چسپی نہیں رہی تو دوسری طرف اساتذہ بھی بچوں میں دیر تک توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت میں کمی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ویڈیو گیم، کمپیوٹر اور ٹی وی دیکھنے والے بچوں کو کتابیں بور کرنے لگتی ہیں۔ غیر محسوس طریقے سے بڑھنے والی ہماری اس کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب وقت کی کمی کا جواز تراش کر موٹی موٹی کتابوں سے تو جان چھڑائی ہی جانے لگی، ساتھ ہی اب انٹرنیٹ پر موجود قابل مطالعہ مواد بھی پڑھنے میں کمی آئی ہے، جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ صرف کتابیںو رسائل یا چھَپی ہوئی چیزیں ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر مطالعہ ہی کم ہوتا جا رہا ہے۔

بچوں کو کہانیاں سنانے کا سلسلہ تربیت کا وہ باقاعدہ اور غیر نصابی طریقہ ہے جو انسانی فطرت اور جذباتی میلانات سے قریب تر ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہو جاتا ہے، جب ایک بچہ ہماری بات سن کر سمجھنے لگتا ہے اور اپنے عمل اور ٹوٹی پھوٹی زبان اور اشاروں سے اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ ایسے میں اسے سکھانے اور سمجھانے کا یہ نہایت دل چسپ اور مفید سلسلہ اس کے چشم تصور سے اسے ایسی دنیا کی سیر کرا رہا ہوتا ہے، جہاں وہ اپنی بہترین توجہ کے ساتھ بہت سی نئی چیزوں اور نئی باتوں کو سمجھ رہا ہوتا ہے۔

اس کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ اور مختلف کیفیات کا ادراک ہوتا ہے اور خود بہ خود پھر ان الفاظ کے لیے معنی، شکلیں اور ان کا اچھا یا برا ہونا بھی طے کر رہا ہوتا ہے۔ ننھے سے ذہن میں جب بھی اس مرحلے میں مشکل پیش آتی ہے تو اس کا اظہار وہ اپنے سوال کی صورت میں کرتا ہے۔ یہ بچے کے منطقی انداز میں سیکھنے اور تربیت کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جو اسے عقلیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے۔

یوں تو آج کل کی مائیں اگرچہ ماضی کی مائوں سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، لیکن تربیت کے معاملے میں آج خاصی کم زوری نظر آتی ہے۔ ممتاز ادیبہ اور کالم نگار رئیس فاطمہ کے مطابق ''ہم نے ایسی نانی، دادی سے طلسم ہوش ربا اور الف لیلہ وغیرہ سنی ہیں جو صرف ناظرہ قرآن پڑھی ہوئی تھیں۔'' اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں گھر کی خواتین کی جانب سے بچوں کی تربیت کے لیے کہانی سنانے کا سلسلہ کس قدر مضبوط تھا۔ آج کی مائیں تو شاید ''طلسم ہوش ربا'' اور ''الف لیلہ'' کا صحیح تلفظ بھی ادا نہ کر سکیں اور شاید انہوں نے کبھی ان کا نام بھی نہ سنا ہو!

بچوں کے کہانیاں سنانے سے محرومی کے حوالے سے شعبہ نفسیات، جامعہ کراچی کے پروفیسر حیدر عباس رضوی کا کہنا ہے کہ اب سب کچھ تعلیمی اداروں پر چھوڑ دیا جاتا ہے، جس سے بچوں کی تربیت میں بہت زیادہ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ پہلے دادا، دادی اور نانا، نانی یا ماں کی طرف سے بچوں کو کہانی سنانے کا سلسلہ رہتا تھا۔ ان کہانیوں کے ذریعے سیکھنے سکھانے کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت و روایات بھی اجاگر ہوتی تھیں۔ اب ہمارے پاس اپنے بچوں کو بہلانے کے لیے وقت نہیں، بچہ اگر ضد کر رہا ہے تو اسے کھلونے دلوا کر گویا جان چھڑالیں گے، جب کہ پہلے بچوں کو وقت دیتے تھے۔

اس کے ساتھ لوڈو کھیلتے تھے، جس سے بچے کے اندر ہار تسلیم کرنے اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہوتی تھی۔ یہ اس کی تربیت کا ایک موثر طریقہ تھا۔ اب نام نہاد مصروفیات اور والدین کی ملازمتوں نے بچوں کو اس چیز سے محروم کردیا ہے۔ نتیجتاً بچے خود ہی اپنے تفریح کے ذرائع ڈھونڈتے ہیں جس سے ان کی شخصیت میں ٹھہرائو اور سکون ختم ہوگیا ہے، ان میں تشدد اور عدم برداشت کا عنصر بڑھ رہا ہے۔

نفسیاتی امور پر گہری نظر رکھنے والے ابن مستقیم کے مطابق ٹی وی دیکھتے لمحے بچے کی قوت متخیلہ کام نہیں کرتی، جب کہ کہانی کے ذریعے بچے کی تخیلاتی قوت بہت زیادہ تیز ہوتی ہے، کتاب پڑھتے ہوئے وہ کتاب کے ذریعے اپنے شعور میں کسی چیز کو محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ بچپن میں کہانی سننے کے دوران جب اس کا ذہن بالکل نازک اور صاف ہوتا ہے اور ابھی پڑھ کر سمجھنے کی قوت پروان نہیں چڑھی ہوتی۔ ایسے میں سُن کر کسی چیز کو محسوس کرنے کا تجربہ نہایت پُر اثر ثابت ہوتا ہے۔

کوئی بھی بچہ کسی بات کو سن کر فوراً اپنے تصور کی مدد سے اسے محسوس کرتا اور اپنے ذہن میں اس الفاظ یا چیز کی کوئی نہ کوئی شبیہ بنا لیتا ہے، کیوں کہ اسے کسی بھی فرد، چیز یا جگہ کی کوئی تصویر یا خاکہ دکھایا نہیں جا رہا ہوتا۔ سب کچھ الفاظ کے ذریعے بتایا جاتا ہے،

لہٰذا مطالعے کے قابل ہونے سے پہلے کہانی سننے کا سلسلہ اس ضمن میں خاصا کار آمد ثابت ہوتا ہے، جیسے بچپن میں پودنوں کی ایک کہانی میں جب یہ بتایا گیا کہ ایک پودنے کو ایک تخت پر قید کر لیا گیا تو یہ صورت حال میرے ننھے ذہن کے لیے خاصی اچھوتی تھی کہ تخت پر بھلا کیوں کر کسی کو قید کیا جا سکتا ہے، لیکن پھر اس کی توجیہ یہ بتائی گئی کہ چوں کہ ان کا قد فقط بالشت بالشت بھر تھا، لہٰذا ان کے لیے تو تخت اتنا اونچا ہوا کہ قید خانہ بن گیا۔ کہانیوں میں اس طرح کی چیزوں سے ہمارے اعتماد اور سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت خاطر خواہ تیز ہوتی ہے۔

آج کل ہمارے یہاں بچے کہانی سن کر سونے کے بہ جائے ٹی وی دیکھتے سوتے ہیں یا پھر ایک ڈیڑھ سال کا بچہ بھی موبائل سے کھیلتے ہوئے سونا چاہتا ہے۔ چھوٹے بچے نرم شاخوں کی مانند ہوتے ہیں، انہیں جس جانب موڑا جائے گایہ مڑ جائیں گے۔

بچوں کی ابتدائی عمر میں اگر والدین انہیں ٹی وی، کمپیوٹر اور ویڈیو گیم سے تھوڑا پرے کرتے ہوئے کہانیوں کی جانب راغب کریں اور کوشش کر کے تھوڑا سا وقت نکال کر انہیں کہانی سننے کی عادت ڈالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بچے اس جانب راغب نہ ہوں۔ اس کے بعد جوں جوں وہ بڑے ہوتے جائیں گے، وہ خود بھی مطالعے کی طرف راغب ہوں گے اور آپ کی آج دی گئی تھوڑی سی توجہ یقیناً آپ کے بچے کے کل کو بہت بہتر بنادے گی۔

کہانی کے کرداروں سے باتیں

ممتاز صحافی مبشر علی زیدی اپنی کتاب ''نمک پارے'' کے انتساب میں بچپن میں اپنی امّی سے سنی جانے والی کہانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے کردار کے حوالے سے بتاتے ہیں، جس سے عہد کم سِنی میں سنائی جانے والی کہانیوں کے بچوں پر اثرات کا بڑا واضح پہلو سامنے آتا ہے۔

''میری امی بچپن میں مجھے سلانے کے لیے کہانیاں سناتی تھیں۔ وہ کہانی شروع کرتیں اور اسے ختم کرنے سے پہلے سو جاتیں۔ میں رات بھر جاگتا رہتا، کہانی سوچتا رہتا، کردار مجھ سے باتیں کرتے رہتے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں سچ مچ اپنی امّی کی وجہ سے ہوں۔''

اسکولوں میں کہانیاں سنانے کا رجحان

پرائمری کلاسوں میں نصاب میں شامل داستانوں اور قصوں کے ساتھ ایک اہم روایت اسکولوں میں اساتذہ کی جانب سے کہانی سنانے کی بھی رہی ہے۔ جس کا مقصد تدریس کے ماحول کو طلبہ کے لیے دل چسپ بنانا اور انہیں ایک مثبت چیز کی طرف مائل کرنا ہوتا۔

بالخصوص جب کسی استاد کی غیر حاضری یا کسی اور وجہ سے کوئی پیریڈ فارغ ہو تا یا طلبا کے پاس کچھ فرصت ہوتی تو وہ خود بھی کہانی سننے کی فرمائش کرتے تھے، اس طرح گھروں کے ساتھ اسکولوں میں بھی کہانی سنانے کی روایت پروان چڑھتی رہتی تھی۔ آج کے بچوں کو نہایت کم سنی میں اسکول بھیج دیا جاتا ہے، جہاں اگرچہ اسے کھیل ہی کھیل میں پڑھایا جاتا ہے، لیکن قصہ گوئی جیسی روایت موجود نہیں۔

بچوں کے کیسٹ کہانیوں کا دور

1980ء اور 1990ء کی دہائی میں جب ہمارے یہاں ذرایع ابلاغ کی ترقی شروع ہوئی تو بچوں کی کہانیوں کے آڈیو کیسٹ سامنے آئے، جنہوں نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ جو مائیں خود بچوں کو کہانیاں نہیں سنا پاتی تھیں، انہیں یہ سہولت ملی کہ وہ بازار سے جا کر عاریتاً یا خرید کر بچوں کی مختلف کہانیوں کے یہ کیسٹ لے آتیں۔

یوں وہ بہ آسانی اپنی مصروفیات جاری رکھتیں اور بچے بھی اپنی کہانی سننے میں محو رہتے۔ بچوں کی کہانی سننے کا یہ دور اگرچہ بہ تدریج انہیں کہانی سنانے کی پرانی روایت سے دور لے گیا، لیکن روز مرہ کی مصروفیات کے باعث یہ کسی نعمت سے کم نہ تھا کہ کم سے کم انہیں بہ ذریعہ آڈیو کیسٹ ہی، اچھی کہانیاں سننے کو مل رہی تھیں، پھر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی دم توڑ گیا۔

کتاب پڑھتے ہوئے ''شرمندگی!''

''نیشنل لٹریسی ٹرسٹ'' کے سروے کے مطابق 17 فی صد نوجوانوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ اگر انہیں کوئی کتاب پڑھتے دیکھ لے تو انہیں شرمندگی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ محض 17 فی صد ہی کی رائے ہے، مگر ہمارے معاشرے پر تو یہ بالکل صادق آتی ہے کیوں کہ لوگوں کو کتاب پڑھنے کے لیے دو جواز بتانے ہوتے ہیں کہ نصابی کتاب ہے یا مذہبی! اس کے علاوہ کوئی کتاب چوں کہ بہت کم ہی پڑھی جاتی ہے اس لیے اس کے پڑھنے والے شاید یہ پوشیدہ رکھنا چاہتے ہوں، جیسا کہ 17 فی صد نوجوانوں نے اظہار کیا کہ جب کوئی انہیں کتاب پڑھتے ہوئے دیکھ لے تو انہیں شرمندگی ہوتی ہے!

داستان گوئی کے احیا کی ایک کوشش

موجودہ دور میں بچوں کو کہانی سنانے کی روایت زندہ کرنے کے لیے ''ٹافی ٹی وی'' کی جانب سے وقتاً فوقتاً شہر کے مختلف مقامات پر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کو مختلف کہانیاں سنانے کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں اسکولوں میں قومی زبان بولنے پر جرمانہ ہو اور گھر میں بھی اردو کی جگہ انگریزی رائج ہو، وہاں ان کہانیوں کے پروگراموں میں اردو کو خصوصیت کے ساتھ اختیار کرنا اسے اور بھی اہم بنا دیتا ہے۔

اس سلسلے کو آج کے دور میں بچوں کی تربیت سے جڑے اس سلسلے کے احیا کی ایک اہم کوشش قرار دیا جا سکتا ہے، جس کا مقصد آج کل کے بچوں میں کہانی سننے کا شوق پیدا کرنا اور والدین کو اس جانب مائل کرنا ہے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالیں اور گھروں میں بھی اس خوب صورت روایت کو زندہ کرکے اپنے بچوں کو پھر سے کہانیاں سنانا شروع کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں