مسائل کہاں ٹالے سے ٹلتے ہیں

بھیک مانگنے والے فقیروں کو اگر ٹالنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹلتے نہیں ہیں۔ آپ لاکھ کہتے رہیں۔۔۔


Saeed Parvez May 20, 2013

بھیک مانگنے والے فقیروں کو اگر ٹالنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹلتے نہیں ہیں۔ آپ لاکھ کہتے رہیں ''بابا معاف کردو'' مگر وہ معاف نہیں کرتے اور ہاتھ پھیلائے بولتے رہتے ہیں۔ اور آخر آپ کو ایک دو روپے دے کر جان چھڑانا پڑتی ہے۔ مسائل بھی ایسے ہی بھیک مانگنے والے فقیر ہوتے ہیں کہ انھیں حل کرنے کے بعد ہی جان چھٹتی ہے۔

نواز شریف، عمران خان اور شہباز شریف کو مبارک ہو کہ لوگوں نے انھیں آئندہ پانچ سال کے لیے حق حکمرانی دے دیا ہے۔ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) حکومت بنائے گی جب کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف حکومت بنائے گی۔ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی ''تبدیلی'' کا ووٹ لے کر آگے آئی ہیں، لہٰذا ان دونوں جماعتوں پر بہت بھاری ذمے داری آن پڑی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو مرکز اور صوبہ پنجاب میں ''چوکیداری'' کا منصب بھی عوام نے عطا کیا ہے یعنی دونوں اہم جگہ یہ جماعت قائد حزب اختلاف ہوگی۔ صوبہ سندھ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہاں مزید پانچ سال پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ حکومتی فرائض انجام دیں گی۔

تبدیلی کا ووٹ لے کر آنیوالی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف اب وقت ضائع کیے بغیر کمر کس کے میدان عمل میں آجائیں اور مسائل میں بری طرح گھرے ہوئے لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے کا کام شروع کردیں۔ بجلی، گیس، پانی، تعلیم، بیروزگاری جیسے بنیادی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا عمل شروع کردیا جائے۔

الیکشن ہوگئے، جہاں جہاں دھاندلی کی شکایات ہیں وہاں ہونے والی غیر یقینی سرگرمیوں کے ثبوت کے ساتھ شکایت کنندہ امیدوار الیکشن کمیشن کے قائم کردہ ٹریبونل میں چلا جائے۔ دھاندلی کے معاملات کو سڑکوں سے اٹھاکر الیکشن کمیشن کے ٹریبونل میں لے جایا جائے۔

یہ کام وہاں ہوتا رہے گا اور مسلم لیگ (ن) و پاکستان تحریک انصاف کو بجلی، گیس، پانی، تعلیم، بے روزگاری، دہشت گردی جیسے مسائل کے حل کرنے کے لیے دن رات سخت محنت کرنا ہوگی۔ شہباز شریف تو سخت محنت کرنے کے عادی ہیں اور ہمارا کپتان عمران خان بھی جو سوچ لے اسے پورا کرکے ہی دم لیتا ہے۔ انتخابی منشوروں میں اور جلسوں میں اور ٹاک شوز میں جو جو باتیں مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف نے کی ہیں اب ان باتوں کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان جس نازک وقت سے گزر رہا ہے اس سے ہمارے سیاسی رہنما بخوبی واقف ہیں۔ خصوصاً ''تبدیلی'' کا ووٹ لینے والوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

صوبہ بلوچستان میں انتخابی نتیجہ وہی آیا ہے جو پہلے تھا۔ لیکن طلال بگٹی کا بائیکاٹ اور اختر مینگل کا نتائج تسلیم کرنے سے انکار نے صوبہ بلوچستان کی خراب صورت حال میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ملک شدید بحرانوں میں بری طرح گھرا ہوا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ہمارے سیاسی رہنماؤں کو انتخابی مہم والے جذبہ حب الوطنی کو اور زیادہ بڑھانے کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔صوبہ بلوچستان پہلے ہی تباہی و بربادی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ طلال بگٹی اور اختر مینگل نے اس تصویر میں مزید رنگ بھر دیے ہیں، نواز شریف اور عمران خان کو مل کر بلوچستان کو سنبھالنا ہوگا۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ، یہ شہر کبھی روشنیوں کا شہر ہوتا تھا ''اے روشنیوں کے شہر بتا' اجیالوں میں اندھیاروں کا' یہ کس نے بھرا ہے زہر بتا ' اے روشنیوں کے شہر بتا۔'' اس شہر میں الیکشن ہوئے اور کیا خوب ہوئے۔ شہر کی واحد مضبوط ترین سیاسی جماعت، متحدہ قومی موومنٹ، لیاری کے علاقے میں داخل نہ ہوسکی اور مجبوراً متحدہ قومی موومنٹ نے اس حلقے میں الیکشن کا بائیکاٹ کردیا، دوسرا بہت خوب واقعہ حلقہ نمبر 250 میں رونما ہوا۔ یہ حلقہ کراچی کے انتہائی پرامن علاقے پر مشتمل ہے۔

اس حلقے میں ڈیفنس، کلفٹن کا پوش علاقہ بھی شامل ہے اور اتنے پرامن علاقے میں انتخابی عملہ اور سامان دونوں نہیں پہنچ سکے۔ وہ لوگ جو ووٹ ڈالنے کے عادی ہی نہیں تھے اور الیکشن والا دن سوکر گزارتے تھے یا گھروں میں تفریحی پروگرام بناکر دوستوں کے ساتھ گزارتے تھے یا سیر سپاٹے کو نکل جاتے تھے وہ لوگ بھی اس بار اپنے ایئرکنڈیشنڈ گھروں سے نکل کر مئی کی شدید گرمی میں صبح سات بجے سے رات دس بجے تک پولنگ اسٹیشنوں کے باہر کھڑے رہے مگر نہ الیکشن کا عملہ آیا اور نہ سامان آیا، پتہ نہیں الیکشن کا عملہ کہاں غائب ہوگیا تھا اور سامان کون لے گیا، کہاں لے گیا؟ کچھ پتہ نہیں۔ہاں مگر بیانات اور دھرنوں کے شور کے بعد 19مئی کو پھر سے پولنگ ہوئی اور تحریک انصاف جیت گئی ۔

لیاری اور ڈیفنس دونوں علاقوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیاری غریب، مسائل زدہ عوام کا علاقہ جہاں جگہ جگہ کوڑاکرکٹ، کچرے کے ڈھیر، ابلتے ہوئے گٹر، تعفن زدہ رستے گلیاں، صاف پینے کے پانی سے محروم باشندے، چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے عوام ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ پر بیعت کرنیوالے لیاری کے وعدے کے پکے عوام جو آج بینظیر بھٹو شہید کے بعد بھی پیپلز پارٹی کے وفادار ہیں۔ غریبوں کے اس علاقے سے بڑے بڑے نامور لوگوں کا تعلق رہا ہے ہمارے عہد کے بڑے شاعر فیض احمد فیض لیاری کے کھڈہ کالج میں پرنسپل رہے۔

فیض صاحب کے اثرات اس علاقے میں خاصے قائم رہے۔ ہمارے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس (ر) سجاد علی شاہ کا آبائی علاقہ یہی لیاری ہے۔ ہمارے بہت پیارے میرغوث بخش بزنجو اسی علاقے میں قیام کرتے تھے۔ لالہ لعل بخش رند جیسا محبتی انسان بھی یہیں رہتا تھا۔ پروفیسر نور محمد شیخ عوامی ادبی انجمن کاچراغ لیے اسی لیاری میں رہتے ہیں۔ن م دانش بھی یہیں پیدا ہوئے۔ پروفیسر علی محمد شاہین نے بھی جمن شاہ پلاٹ پر ساری عمر مفت ٹیچنگ میں گزاری تھی۔یہ سب گنج ہائے گراں مایہ تھے اور کچھ آج بھی ہیں ۔

بلاشبہ ڈیفنس میں صاف ستھری چوڑی سڑکیں، بڑے بڑے دیدہ زیب گھر اور بعض محل نما گھر پرسکون ماحول، سبزے سے مزین راستے ہیں اور الیکشن کا عملہ اس پرسکون علاقے میں نہ پہنچ سکا۔ پورا شہر کراچی سن رہا ہے الیکشن کے حوالے سے جو باتیں ہورہی ہیں، میں صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ سندھ اور کراچی کے حالات کو بھی مرکز اور پنجاب میں الیکشن جیت کر آنے والی دونوں جماعتوں کو دیکھنا ہوگا۔ خصوصاً کراچی کے شہریوں کے سروں پر بھی شفقت بھرا ہاتھ رکھنا ہوگا۔

کراچی شہر بڑے باہمت لوگوں کا شہر ہے۔ یہ شہر طوفانوں سے ٹکرانا خوب جانتا ہے۔ یہ حق و صداقت کا پرچم بلند کرنے والوں کا شہر ہے۔ یہ جنرل ایوب کا نہیں محترمہ فاطمہ جناح کا شہر ہے۔ اور اس شہر کے رہنے والے ''جاگتے لوگ'' ہیں اور اس شہر کے باسی کبھی اپنے شہر کو برباد نہیں ہونے دیں گے۔ اس شہر کے لوگ ہی اس شہر کو بحرانوں سے نکالیں گے، اندر باہر کے شیطانوں کو بھگائیں گے۔

میرے کانوں میں نوازشریف کی آواز آرہی ہے ''ہم کراچی میں انڈرگراؤنڈ ٹرین چلائینگے اور شہباز شریف نے کہا ''میٹرو بس کراچی میں چلائینگے'' شریف برادران! آپ کو مبارک ہو کہ اس شہر نے بھی آپ کو نمائندگی کا حق عطا کردیا ہے۔ حلقہ 258 سے ممبر قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن جیت گیا ہے یہ اہم کامیابی پر ایک بار پھر مبارکباد۔ عمران خان کو بھی اس شہر سے بہت ووٹ ملے ہیں۔
آخر میں کچھ باتیں اپنے کپتان کے بارے میں۔

عمران خان نے اسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے یہ کہا تھا ''مجھے اللہ نے نئی زندگی دی ہے، شاید اللہ مجھ سے کچھ کام لینا چاہتا ہے'' تو ہمارے کپتان! آپ بستر سے اٹھنے کے بعد یقیناً اپنی اہم ذمے داریاں سنبھالیں گے، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت آپ کو سنبھالنا ہے اور بقول آپ کے ''صوبہ خیبرپختونخوا میں ہم مثالی حکومت بنائیں گے جہاں پولیس کا نظام، تعلیم اور امن وامان مثالی ہوں گے'' ہمارے کپتان! آپ الیکشن میں ''رنراپ'' کی پوزیشن پر آئے ہیں۔ یہ قدرت کی طرف سے آپ کی ٹریننگ کا پانچ سالہ عرصہ ہے۔ پھر آئندہ الیکشن میں آپ ''الیکشن کپ جیت جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے لیے حبیب جالب کا شعر نذر کرتے ہوئے اجازت:

بہر صورت مسائل کو تو حل کرنا ہی پڑتا ہے
مسائل ایسے سائل ہیں' کہاں ٹالے سے ٹلتے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔