مسلم لیگ کے عزائم
مسلم لیگ کیا ہے؟ ایک انقلابی سیاسی پارٹی ہے۔ یہ جذبہ ہے اور جنون ہے، یہ نہ مذہبی ہے اور نہ سیکولر اور نہ ہی اسٹیٹس۔۔۔۔
مسلم لیگ کیا ہے؟ ایک انقلابی سیاسی پارٹی ہے۔ یہ جذبہ ہے اور جنون ہے، یہ نہ مذہبی ہے اور نہ سیکولر اور نہ ہی اسٹیٹس کو کی پارٹی ہے بلکہ ایک روشن خیال ترقی پسند جماعت ہے، لیکن انتہا پسند اور شدت پسند نہیں ہے۔ یہ ایک خوشحال اور پُرامن انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دینے کی داعی ہے، یہ ملکی اور بین الاقوامی حالات و واقعات کی روشنی میں اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ہر زمانے کے مطابق ایسی پالیسیاں تشکیل دیتی ہے جو زندگی کے ہر طبقہ فکر کے افراد کے لیے فائدہ مند ہو۔
یہ نوجوانوں کی پارٹی ہے، طلبا، مزدور، خواتین، کسان اور زمیندار، غریب، امیر، دستکار صنعتکار، وکلا، صحافی، بزنس مین، بچے، بوڑھے سب اس کی پالیسیوں کی وجہ سے اس کے حامی ہیں اور اس طرح یہ سب کی پارٹی ہے۔ اس کے قائدین بھی تاریخی شخصیات تھیں۔ جہاں علامہ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا تصور دیا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے جاں نثار ساتھیوں، شہید ملت لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، سردار عبدالرب نشتر، پیر الٰہی بخش، محمد ایوب کھوڑو، ملک فیروز خان نون، محمد قاضی عیسیٰ، عبدالقیوم خان اور دیگر کے ساتھ مل کر ایک عظیم اسلامی ملک پاکستان حاصل کیا۔
خان لیاقت علی خان نے ان آزادی کے مجاہدین کے ساتھ اپنے وطن کی تعمیر نو شروع کی، پاکستان کی بنیادیں مضبوط کیں، ملک فیروز خان نے گوادر کا علاقہ خرید کر پاکستان میں شامل کرادیا۔ محمد خان جونیجو نے بکھری ہوئی مسلم لیگ کا احیا کیا اور آخر میں میاں نواز شریف نے پھر سے منتشر مسلم لیگ کو ملک کے کونے کونے میں منظم کیا۔ لاتعداد تعمیر و ترقی کے بڑے بڑے پراجیکٹ مکمل کیے اور آخر میں امریکا اور مغربی ممالک کی سخت مخالف کے باوجود ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنادیا۔
اس طرح ان فرشتہ سیرت عقابی سوچ اور انقلابی ذہن رکھنے والی عظیم شخصیات نے اپنے اپنے دور میں تاریخ کے صفحات پر اپنے نقش چھوڑے ہیں۔ ان بزرگوں کے کارنامے پاکستان اور مسلم لیگ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ مسلم لیگ کے خلاف ابتدا سے ہی سازشیں شروع ہوگئیں۔ 1950 سے سول اور ملٹری بیوروکریسی نے مسلم لیگ کو کمزور کرکے اس پر بالآخر 1958 میں قبضہ کرلیا اور مسلم لیگ پر مظالم کا دور شروع ہوگیا۔ مرد انقلاب میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کا صدر بننے کے بعد اس میں زندگی کی روح پھونک دی اور اس قوم نے میاں نواز شریف کی سرپرستی میں 1997 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو دو تہائی اکثریت سے نوازا لیکن مخالفین مسلم لیگ کی کامیابی کو برداشت نہ کرسکے اور ایک سازش کے ذریعے عوامی حکومت کو ختم کرکے آمر نے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
بہرحال 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ اپنے عظیم قائد میاں نواز شریف کی قیادت میں پھر ابھری اور قومی اسمبلی میں دوسرے نمبر پر نشستیں حاصل کرکے مضبوط حزب اختلاف بنائی اور ساتھ ہی ساتھ صوبہ پنجاب میں حکمران بنی۔ گزشتہ پانچ سال میں مرکز میں بہترین حزب اختلاف اور صوبہ پنجاب میں بہترین حکمرانی کی روشن مثالیں قائم کیں، مسلم لیگی قائدین کی دور اندیش اور حقائق پر مبنی عوام دوست پالیسیوں نے عوام کے دلوں میں گھر کرلیا ہے۔
اب چاروں صوبوں سے حکمرانی کے ماہر سیاستدان، دانشور حضرات اپنے اپنے حلقے کی بااثر شخصیات، ممتاز تاجر، صنعت کار، کاروباری حضرات، مزدور رہنما، فلاح و بہبود کی خدمات انجام دینے والے سماجی رہنما، ماہرین دفاعی امور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ماہر صحافی، ماہرین معیشت اور عام شہری جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہوچکے ہیں اور مسلم لیگ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور چٹان کی طرح متحد اور مضبوط ہوچکی ہے۔ الیکشن میں واضح اکثریت سے جیتی ہے۔
اس کے قائدین اور کارکنوں کا عزم ہے کہ مملکت پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنائیں گے جس میں ہر طبقہ زندگی کے افراد کے ساتھ انصاف ہوگا۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق کم ہوگا۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی تو کارخانوں اور ملوں کی چمنیوں سے دھواں نکلے گا، روزگار کے مواقع بڑھیں گے، ملک خوشحال ہوگا اور عوام کا معیار زندگی بلند ہوگا۔ بڑے شہروں میں میٹرو بس سسٹم متعارف کرایا جائے گا، کراچی میں انڈر گراؤنڈ ریل چلائی جائے گی، کراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین چلے گی۔ کراچی، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا اور دوسرے علاقوں میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنائی جائے گی۔
دہشت گردی کو ختم کرایا جائے گا، دانش اسکول کھلیں گے، اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کا معیار بلند کیا جائے گا اور طلبا کو لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ دیے جائیں گے۔ مزدوروں کے معاوضے میں اضافہ کیا جائے گا، ملک سے کرپشن کی لعنت ختم ہوگی۔ شاہراہیں اور موٹرویز تعمیر کی جائیں گی، غیر ممالک کے ساتھ آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کیا جائے گا۔ بلدیاتی انتخابات جلد از جلد منعقد کراکر نچلے درجے تک اختیارات کی منتقلی کے ذریعے جمہوریت کے پودے کو مضبوط کیا جائے گا۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
نئے کارخانے اور صنعتیں لگا کر ایک تو بیروزگاری ختم ہوگی، دوسرا فاضل پیداوار ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کمایا جائے گا۔ غیر ملکی قرضوں سے جان چھڑائی جائے گی اور خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کرکے غیروں کے آگے کشکول پھیلانا بند کیا جائے گا اور غیرت مندانہ پالیسی اختیار کی جائے گی۔ کالا باغ ڈیم کسی بھی صوبے کی مخالفت کی صورت میں ہرگز نہیں بنایا جائے گا۔ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے گی۔ کم ترقی یافتہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبے مکمل کرکے ان کا احساس محرومی ختم کیا جائے گا۔ قومی اداروں مثلا اسٹیل ملز، واپڈا، ریلوے، پی آئی اے اور دیگر اداروں کی تطہیر کے ذریعے نئے سرے سے منظم کرکے انھیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے گا۔
صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پنجاب جیسی ترقیاتی اسکیموں کو مکمل کرکے ایک انقلاب برپا کیا جائے گا۔