نوازشریف پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا سکتے ہیں پاپام

نئی حکومت کو آٹو سیکٹر اور آٹو پارٹس وینڈرز انڈسٹری کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے


Business Reporter May 21, 2013
چند سال آٹو سیکٹر کیلیے انتہائی تکلیف دہ رہے، مشہود خان اور مصباح کی میڈیا سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈایسوسی ایشن (پاپام) نے ملک میں آنے والی نئی حکومت سے آٹوسیکٹراورآٹوپارٹس وینڈرز انڈسٹری کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے نامزد وزیراعظم نوازشریف مستحکم پالیسیاں دے کر پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا سکتے ہیں لیکن یہ تب ہی ممکن ہوگا کہ جب ملک میں کاروباری صورتحال میں بہتری لائی جائے اور لوگوں کاروزگار داؤ پر نہ لگے۔

پاپام کی منیجنگ کمیٹی کے رکن اورایف پی سی سی آئی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر محمد مشہود علی خان اور ممبر منیجنگ کمیٹی سید مصباح الدین نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اگر حکومت نے ملکی آٹو انڈسٹری کو مکمل سپورٹ نہ کیا اور پاکستان میں آٹوموبائل سیکٹر میں کام کرنے والے مینو فیکچررز کو اپنے مستقبل کا پتا نہ رہا تو پھر وینڈرز انڈسٹری کو بھی دھچکہ لگے گا، آٹو موٹیو پارٹس واسیسریز مینوفیکچررزکا روزگار متاثر ہوا تو پھر اس شعبے میں کام کرنے والے ہزاروں افراد بے روزگار ہونگے۔

گزشتہ چندسال آٹو سیکٹر کے لیے انتہائی تکلیف دہ رہے ہیں لیکن اب یقین ہے کہ ملک میں معاشی استحکام اور مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔ محمدمشہودعلی خان نے بتایا کہ ملک میں آٹو انڈسٹری سالانہ ڈیڑھ سے2 لاکھ تک گاڑیاں فراہم کررہی ہے جبکہ کمرشل گاڑیوں کی مارکیٹ 6 ہزار سالانہ ہے، ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں ایمنسٹی اسکیم اور حکومت کی جانب سے چھوٹ ملنے کے باعث ملک میں لائی گئی ہیں، بے شمار استعمال شدہ ایسی گاڑیوں کی ایمنسٹی اسکیم کے تحت معمولی ڈیوٹی ادا کردی گئی ہے جو بعد میں لائی جائیں گی، اس طرح ملک میں کرپشن کا بازار لگایا گیا۔



ملکی آٹو سیکٹر نے 5 لاکھ گاڑیوں اور 1 لاکھ 20 ہزار موٹر سائیکلیں بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ خواب ہی رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کے نام پر لائی جانے والی گاڑیوں کے ذریعے ملکی آٹو موٹیو پارٹس انڈسٹری کو ختم کرنے کی سازش کی گئی جبکہ انفرااسٹرکچر تباہ حال ہونے سے پہلے ہی کئی یونٹ بند ہوچکے ہیں جن میں کام کرنے والے سیکڑوں مزدور روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں بغیر کسی حکمت عملی کے سی این جی کا استعمال کیا گیا،1000 سی سی سے زیادہ کی گاڑیوں کیلیے سی این جی کو ممنوع قرار دینا چاہیے تھا لیکن ہمارے ہاں زبانی کلامی دعوے کیے گئے، آج بھی بسیں اور کوچز سی این جی فلنگ کرتی دکھائی دیتی ہیں اور اس ضمن میں کوئی منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں