ڈاؤ یونیورسٹی سانپ کے زہر کے علاج کیلئے دوا تیار کرلی گئی
یونیورسٹی نے جشن آزادی کے موقع پر اینٹی باڈیز تیار کرکے عوام کو تحفہ دیا ہے، ڈاکٹر عشرت العباد خان ۔
ڈاؤ یونیورسٹی نے پہلی بار سانپ کے کاٹے کے علاج کی اینٹی باڈیز سیریم (Polyvaltnt Antibody ,Divalent Antibody) تیار کرلیا جس سے متاثرہ مریضوںکو کامیاب علاج کیا جائیگا۔
تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی نے پاکستان میں پائے جانے والے مختلف سانپوں کے زہر کے علاج کے لیے اینٹی باڈیزسیریم تیارکرلیا جس سے متاثرہ مریضوں کو علاج فراہم کرکے ان کی جانیں بچائی جاسکیں گی، یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مسعود حمید خاں نے بتایاکہ یونیورسٹی میں اوجھا کیمپس میں لیبارٹری اینمل سائنسز ڈپارٹمنٹ قائم کیا ہے جہاں یونیورسٹی نے دوسال قبلSero biology لیب قائم کی تھی جہاں ملک میں پائے جانیوالے مختلف سانپوں کی لیبارٹری (اسینک ہائوس) بھی قائم ہے۔
اس لیبارٹری میں سفید چوہوں کی کالونی (لیب)، خرگوش اوردیگر جانور بھی رکھے گئے ہیں، اس کالونی میں سانپوں کے زہر سے گھوڑوں پر کامیاب تجربات مکمل کرلیے گئے اور ان گھوڑوں میں سانپ کے زہریلے انجکشن لگاکر گھوڑوں کے خون میں بننے والی اینٹی باڈیز نکالی گئیں ہیں، انھوں نے کہاکہ اسسٹنٹ پروفیسر اینمل ڈاکٹر ضمیر احمد سمت دیگر ماہرین کی نگرانی میں پہلے مرحلے میں سانپ کے کاٹے کے علاج کیلیے اینٹی باڈیز تیار کرنے میںکامیاب ہوگئے۔
دوسرے مرحلے میں سگ گزیدگی (پاگل کتے) سے متاثر مریضوںکے علاج میں استعمال ہونے والی اینٹی باڈیز بھی تیارکی جائیگی، یہ پہلا موقع ہے کہ ڈائو یونیورسٹی کے ماہرین نے مسلسل تحقیق کے بعد2سال کے دوران سانپوںکے زہر کا علاج دریافت کرنے میںکامیاب ہوگئے، انھوں نے بتایا کہ مستقبل میں ہیپاٹائٹس وائرس سے بچائوکی ویکسین بھی بنائی جائیگی، اس سلسلے میں بائیوٹیک لیبارٹری بھی قائم کی جارہی ہے جہاں پولیو،تشنج، انفلوائیزا،خناق کی حفاظتی ویکسین سمیت مختلف امراض کی تشخیص کے لیے کٹس بھی تیارکی جائیںگی۔
اسسٹنٹ پروفیسر اینمل لیب ڈاکٹر ضمیر احمد نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں سالانہ20ہزار افراد سانپ کے کاٹے سے متاثر اور جاں بحق ہوتے ہیں، اس علاج سے اموات پر قابو پایا جاسکے گا، اس سے قبل سانپ کے کاٹے کی بیرون ممالک سے اینٹی باڈیز منگوائی جاتی تھیں جو پاکستان میں موثرنہیں، کیونکہ بیرون ممالک میں بنائی جانے والی اینٹی باڈیز وہاںکے سانپوںکے زہر سے بنائی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں سانپ مختلف نوعیت کے پائے جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اسینک ہاؤس میں تھر سمیت اندرون سندھ وبلوچستان کے خطرناک سانپ موجود ہیں ان میںSaw askil وائپر، پاکستانی رسل وائپر، (لونڈی) کوبرا، سنگ چور، بلوچستان میں پایا جانے والا leafe Nose viperاس کے علاوہ انڈیا کا کوبرا سانپ بھی موجود ہے، دریں اثنا گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین کی مسلسل تحقیق کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ یونیورسٹی نے جشن آزادی کے موقع پر اینٹی باڈیز تیار کرکے عوام کو تحفہ دیا ہے، اس کامیاب تحقیق پر یونیورسٹی کے ماہرین مبارکباد کے مستحق ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی نے پاکستان میں پائے جانے والے مختلف سانپوں کے زہر کے علاج کے لیے اینٹی باڈیزسیریم تیارکرلیا جس سے متاثرہ مریضوں کو علاج فراہم کرکے ان کی جانیں بچائی جاسکیں گی، یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مسعود حمید خاں نے بتایاکہ یونیورسٹی میں اوجھا کیمپس میں لیبارٹری اینمل سائنسز ڈپارٹمنٹ قائم کیا ہے جہاں یونیورسٹی نے دوسال قبلSero biology لیب قائم کی تھی جہاں ملک میں پائے جانیوالے مختلف سانپوں کی لیبارٹری (اسینک ہائوس) بھی قائم ہے۔
اس لیبارٹری میں سفید چوہوں کی کالونی (لیب)، خرگوش اوردیگر جانور بھی رکھے گئے ہیں، اس کالونی میں سانپوں کے زہر سے گھوڑوں پر کامیاب تجربات مکمل کرلیے گئے اور ان گھوڑوں میں سانپ کے زہریلے انجکشن لگاکر گھوڑوں کے خون میں بننے والی اینٹی باڈیز نکالی گئیں ہیں، انھوں نے کہاکہ اسسٹنٹ پروفیسر اینمل ڈاکٹر ضمیر احمد سمت دیگر ماہرین کی نگرانی میں پہلے مرحلے میں سانپ کے کاٹے کے علاج کیلیے اینٹی باڈیز تیار کرنے میںکامیاب ہوگئے۔
دوسرے مرحلے میں سگ گزیدگی (پاگل کتے) سے متاثر مریضوںکے علاج میں استعمال ہونے والی اینٹی باڈیز بھی تیارکی جائیگی، یہ پہلا موقع ہے کہ ڈائو یونیورسٹی کے ماہرین نے مسلسل تحقیق کے بعد2سال کے دوران سانپوںکے زہر کا علاج دریافت کرنے میںکامیاب ہوگئے، انھوں نے بتایا کہ مستقبل میں ہیپاٹائٹس وائرس سے بچائوکی ویکسین بھی بنائی جائیگی، اس سلسلے میں بائیوٹیک لیبارٹری بھی قائم کی جارہی ہے جہاں پولیو،تشنج، انفلوائیزا،خناق کی حفاظتی ویکسین سمیت مختلف امراض کی تشخیص کے لیے کٹس بھی تیارکی جائیںگی۔
اسسٹنٹ پروفیسر اینمل لیب ڈاکٹر ضمیر احمد نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں سالانہ20ہزار افراد سانپ کے کاٹے سے متاثر اور جاں بحق ہوتے ہیں، اس علاج سے اموات پر قابو پایا جاسکے گا، اس سے قبل سانپ کے کاٹے کی بیرون ممالک سے اینٹی باڈیز منگوائی جاتی تھیں جو پاکستان میں موثرنہیں، کیونکہ بیرون ممالک میں بنائی جانے والی اینٹی باڈیز وہاںکے سانپوںکے زہر سے بنائی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں سانپ مختلف نوعیت کے پائے جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اسینک ہاؤس میں تھر سمیت اندرون سندھ وبلوچستان کے خطرناک سانپ موجود ہیں ان میںSaw askil وائپر، پاکستانی رسل وائپر، (لونڈی) کوبرا، سنگ چور، بلوچستان میں پایا جانے والا leafe Nose viperاس کے علاوہ انڈیا کا کوبرا سانپ بھی موجود ہے، دریں اثنا گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین کی مسلسل تحقیق کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ یونیورسٹی نے جشن آزادی کے موقع پر اینٹی باڈیز تیار کرکے عوام کو تحفہ دیا ہے، اس کامیاب تحقیق پر یونیورسٹی کے ماہرین مبارکباد کے مستحق ہیں۔