افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال
افغانستان میں طویل عرصہ تک امن قائم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
افغان دارالحکومت کابل میں خودکش حملے میں طلبا سمیت 48 افراد جاں بحق اور 67 زخمی ہو گئے جب کہ صوبہ بغلان میں طالبان کے فوجی چوکی پر حملے میں 44 فوجی اور افغان پولیس اہلکار جان سے گزر گئے۔ بتایا گیا ہے کہ کابل کے مغربی علاقے دشتِ بارچا میں قائم ایک نجی تعلیمی ادارے میں طلبہ و طالبات یونیورسٹی داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کر رہے تھے کہ خودکش بمبار نے حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں طلبا سمیت ایک سو سے زائد افراد ہلاک و زخمی ہو گئے۔
پولیس ترجمان کے مطابق حملہ آور پیدل آیا تھا جس نے خود کو تعلیمی ادارے کے اندر دھماکے سے اڑا لیا۔ حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ حملے کا الزام داعش پر بھی لگایا گیا ہے جب کہ طالبان کے ترجمان نے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ پاکستان نے کابل میں تعلیمی ادارے پر دہشتگردی کے حملے کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔
ادھر افغان طالبان نے انس حقانی کے بدلے دو یرغمالیوں آسٹریلوی شہری کیون کنگ اور امریکی شہری کنیتھ ہولینڈ کو رہا کرنے کی پیشکش کی ہے جنھیں اگست 2016ء میں اغوا کیا گیا تھا۔ دریں اثنا افغان طالبان نے عید الاضحی کی تعطیلات کے دوران جنگ بندی کے اعلان پر غور شروع کر دیا ہے۔ ادھر افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان میں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے عملے کو محفوظ راستہ نہیں دیں گے کیونکہ عالمی ریڈ کراس کابل کی جیل میں طالبان قیدیوں کی مدد کرنے میں ناکام رہی ہے۔
افغانستان میں امریکی فوج افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت کر رہی ہے اور ان کا دعوی ہے کہ افغان فورسز اب اپنے ملک کے دفاع کے بخوبی قابل ہو گئی ہیں مگر وہاں پے در پے ہونے والے حملوں میں افغان فوجیوں کی ہلاکتوں سے ان کی تربیت کرنے والے امریکیوں کے دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی۔
امریکی فوج اور امریکا کی سرپرستی میں قائم ہونے والی افغان حکومت کے خلاف طالبان امریکی فوج کے انخلا تک جد و جہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں اور اس تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان میں طویل عرصہ تک امن قائم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ غزنی کی صورتحال بھی خاصی خراب ہے' یہاں کئی دن تک جنگ ہوتی رہی ہے' اب تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ سرکاری فوجوں نے طالبان کو غزنی سے نکال دیا ہے اور شہر پر اپنا کنٹرول بحال کر دیا ہے۔
بہرحال ان واقعات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ افغانستان میں طالبان اب بھی ایک موثر عسکری قوت ہے اور جب تک اس کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوتے' افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ امریکا کو اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے تاکہ برسوں سے جنگ زدہ افغانوں کو امن نصیب ہو سکے۔
پولیس ترجمان کے مطابق حملہ آور پیدل آیا تھا جس نے خود کو تعلیمی ادارے کے اندر دھماکے سے اڑا لیا۔ حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ حملے کا الزام داعش پر بھی لگایا گیا ہے جب کہ طالبان کے ترجمان نے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ پاکستان نے کابل میں تعلیمی ادارے پر دہشتگردی کے حملے کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔
ادھر افغان طالبان نے انس حقانی کے بدلے دو یرغمالیوں آسٹریلوی شہری کیون کنگ اور امریکی شہری کنیتھ ہولینڈ کو رہا کرنے کی پیشکش کی ہے جنھیں اگست 2016ء میں اغوا کیا گیا تھا۔ دریں اثنا افغان طالبان نے عید الاضحی کی تعطیلات کے دوران جنگ بندی کے اعلان پر غور شروع کر دیا ہے۔ ادھر افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان میں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے عملے کو محفوظ راستہ نہیں دیں گے کیونکہ عالمی ریڈ کراس کابل کی جیل میں طالبان قیدیوں کی مدد کرنے میں ناکام رہی ہے۔
افغانستان میں امریکی فوج افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت کر رہی ہے اور ان کا دعوی ہے کہ افغان فورسز اب اپنے ملک کے دفاع کے بخوبی قابل ہو گئی ہیں مگر وہاں پے در پے ہونے والے حملوں میں افغان فوجیوں کی ہلاکتوں سے ان کی تربیت کرنے والے امریکیوں کے دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی۔
امریکی فوج اور امریکا کی سرپرستی میں قائم ہونے والی افغان حکومت کے خلاف طالبان امریکی فوج کے انخلا تک جد و جہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں اور اس تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان میں طویل عرصہ تک امن قائم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ غزنی کی صورتحال بھی خاصی خراب ہے' یہاں کئی دن تک جنگ ہوتی رہی ہے' اب تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ سرکاری فوجوں نے طالبان کو غزنی سے نکال دیا ہے اور شہر پر اپنا کنٹرول بحال کر دیا ہے۔
بہرحال ان واقعات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ افغانستان میں طالبان اب بھی ایک موثر عسکری قوت ہے اور جب تک اس کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوتے' افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ امریکا کو اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے تاکہ برسوں سے جنگ زدہ افغانوں کو امن نصیب ہو سکے۔