کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور بھارت کا رویہ

کشمیری جو فیصلہ کریں‘ اسے سب تسلیم کر لیں‘ یہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔


Editorial August 17, 2018
کشمیری جو فیصلہ کریں‘ اسے سب تسلیم کر لیں‘ یہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے بھارت کے یوم آزادی 15 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جس کا مقصد عالمی برادری کو یہ پیغام دینا ہے کہ بھارت نے ریاست جموںوکشمیر پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس موقع پر مقبوضہ کشمیر کے شہروں اور قصبوں میں ہڑتال بھی کی گئی' دکانیں، تجارتی مراکز، دفاتر اور پٹرول پمپ بھی بند رہے جب کہ سڑکوں پر ٹریفک بھی معطل رہی۔ کسی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے مقبوضہ علاقے کے تمام بڑے شہروںاور قصبوں میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی بھاری تعداد تعینات کی گئی۔

تمام حساس علاقوں اور اہم تنصیبات پر ماہر اسنائپرز (نشانہ بازوں) کو تعینات کیاگیا ہے جب کہ لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ۔ انتظامیہ نے مقبوضہ کشمیر کے بیشتر علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی تھی۔

ادھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت کے 71 ویں یوم آزادی پر دہلی کے لال قلعہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر گولی سے نہیں کشمیریوں کو گلے لگا کر حل کرنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی حکومت سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی تعلیمات کو اپناتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ انسانیت، کشمیریت اور جمہوریت ہم ان تینوں باتوں کو لے کر مقبوضہ کشمیر سمیت مسلم اکثریت والے علاقوں کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہماری حکومت مقبوضہ وادی میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے بھی پرعزم ہے۔

دریں اثناء بھارتی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ2022ء میں بھارت انسان کو خلاء میں بھیجنے والی چوتھی قوم بن جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ لا ل قلعے کی چھت پر کھڑا ہو کر قوم کو ایک خوشخبری دے رہا ہوں، بھارت نے ہمیشہ خلائی سائنس میں ترقی کی ہے لیکن ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جب بھارت اپنی آزادی کے75 سال مکمل کر لے گا، ہو سکتا ہے اس سے بھی پہلے، بھارت کا بیٹا یا بیٹی ہاتھ میں تین رنگا جھنڈا لیے خلاء میں جائیں گے۔

جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کشمیریوں کے ساتھ محبت کی میٹھی باتیں اور خلا کی سائنس میں ترقی کے دعوے کر رہے تھے' اس وقت بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے گورنر نریندر ناتھ ووہرا نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ پاکستان کے خلاف بیان میں انھوں نے الزام لگایا ہے کہ جموں و کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری پاکستان کی جانب سے پراکسی وار (درپردہ جنگ) اور تشدد و افراتفری کو ہوا دینے سے ریاست کی ترقی بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بننے والی نئی حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ اسے جموں وکشمیر میں دہشت گردی کا ایجنڈا جاری رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور نہ ہی بھارتی رہنماؤں کی باتیں نئی ہیں' پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر نریندر مودی تک جتنے بھی وزیراعظم آئے' انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں ایک ہی پالیسی برقرار رکھی یعنی کشمیریوں کو حق رائے دہی سے محروم رکھا جائے ۔ بھارت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوتے ہیں' ان انتخابات میں کشمیریوں کی رائے معلوم ہوجاتی ہے 'لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھارت کی دو عملی کو بے نقاب کرتی ہیں' بھارت کا ہر حکمران اپنے اپنے دور کے مطابق ترقی کی باتیں بھی کرتا رہا ہے' اس لیے نریندر مودی کی باتیں بھی نئی نہیں ہیں بلکہ پرانی باتوں کا ہی تسلسل ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ بھارت خلائی سائنس میں کمال حاصل کر لے یا معاشی طاقت بن جائے' پاکستان کو اس پرکوئی اعتراض نہیں ہے' ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ معیشت و سائنس میں ترقی کرے' بھارت اگر ایسا کرتا ہے تو یہ یقیناً ایک اچھی بات ہے لیکن کسی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے ہمسایے یا کسی اور ملک کے بارے میں پراکسی وار کا الزام عائد کرے۔ بھارتی قیادت پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر منفی پروپیگنڈا کرنے سے کبھی باز نہیں آئی۔

بھارت پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کا الزام عائد کرتا ہے' بھارت میں کوئی بھی بم دھماکا ہو جائے یا دہشت گردی کی واردات ہو جائے' اس کا الزام بھی پاکستان پر عائد کرتا ہے' اس پروپیگنڈے کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بدنام کرنا بھی ہے۔ حالانکہ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ کشمیری اپنے بل بوتے پر آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔

یہی نہیں بھارت پاکستان کے خلاف پانی کا ہتھیار بھی استعمال کر رہا ہے' مقبوضہ کشمیر میں بھارت مسلسل ڈیم اور بیراج بنا رہا ہے۔ پاکستان کی جانب جو دریا بہتے ہیں ان کے راستے مقبوضہ کشمیر میں ہیں 'سیدھی سی بات ہے جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں ڈیم اور بیراج بنائے گا تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں میں پانی کم ہو جائے گا۔ اس وقت پاکستان کے دریاؤں میں پانی مسلسل کم ہو رہا ہے ' پاکستان کے لیے اپنی آبپاشی کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔

پاکستان کے احتجاج کے باوجود بھی بھارت نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی وجوہات تلاش کی جائیں تو اس کی ساری ذمے داری بھارت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اگر بھارت برصغیر میں امن چاہتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس پورے خطے میں کشیدگی ختم ہو جاتی 'کشمیریوں کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا اور پاک بھارت تجارت بھی شروع ہو جاتی لیکن بھارت نے مسائل کو حل کرنے کے بجائے خطے پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کی پالیسی اختیار کی 'بھارت کی اس پالیسی کی وجہ سے اس خطے میں کشیدگی نے جنم لیا جو آج تک جاری و ساری ہے۔صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھی بھارت سے نالاں ہیں۔ بنگلہ دیش ہو 'سری لنکا ہو یا نیپال ان سب کو بھارت سے کچھ نہ کچھ شکایات ہیں۔

بھارت کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے' اس کا ساری دنیاکو پتہ ہے' کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں' یہ ان کی اپنی جنگ ہے' بھارت کو کسی دوسرے پر انگلی اٹھانے کے بجائے حقائق کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اگر نریندر مودی کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر گولی سے نہیں بلکہ کشمیریوں کو گلے لگا کر حل کرنا چاہتے ہیں تو یہ بڑی اچھی بات ہے۔ کشمیریوں کا مطالبہ تو واضح اور ابہام سے پاک ہے' وہ حق خودارادیت چاہتے ہیں' بھارت اگرکشمیریوں کو محبت سے گلے لگانا چاہتا ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کرادے' کشمیری جو فیصلہ کریں' اسے سب تسلیم کر لیں' یہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں