پرویز الٰہی پنجاب کی سیاست میں ترپ کا پتا
پنجاب میں چوہدری پرویزالٰہی کی اسپیکر شپ اور تحریک انصاف کی حکومت ایک دوسرے کی انشورنس پالیسی ہیں۔
چوہدری پرویزالٰہی ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر بن چکے ہیں۔ پہلی بار وہ 1997ء میں اس منصب پر فائز ہوئے تھے، جب ن لیگ کو الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی اور کہا جا رہا یہ تھا کہ نوازشریف وزیراعظم اور پرویزالٰہی وزیراعلیٰ پنجاب بنیں گے۔ پس منظر اس کا یہ تھا کہ الیکشن سے پہلے نوازشریف کے والد گرامی میاں محمد شریف بنفس نفیس گلبرگ لاہور میں چوہدری شجاعت حسین کے گھر آئے اور خواہش ظاہر کی کہ وہ ان کی والدہ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔ شجاعت حسین ان کو اپنی والدہ کے پاس لے گئے۔
میاں شریف نے ان سے کہا، میں اور میرا خاندان آپ کے انتہائی احسان مند ہیں، آپ نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے ،حتیٰ کہ شجاعت حسین اور پرویزالٰہی نے جیل بھی کاٹی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس بار الیکشن میں اگر اللہ نے کام یابی دی اور نواز شریف وزیراعظم بنے تو پرویزالٰہی ہی پنجاب کے وزیراعلٰی ہوں گے۔ ویسے بھی یہ اچھا نہیں لگے گا کہ ایک بھائی کے وزیراعظم ہوتے ہوئے دوسرا بھائی وزیراعلیٰ بن جائے۔ ان شااللہ اس بار آپ کے بچوں کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھے گا اور دونوں خاندان ایک خاندان کی طرح مل کر اکٹھے چلیں گے۔ چوہدری برادران اور ان کی والدہ نے میاں شریف کا شکریہ ادا کیا۔
الیکشن میں مسلم لیگ ن جیت گئی۔ مگر میاں صاحبان کی طرف سے کسی نے چوہدری برادران سے رابطہ قائم نہیں کیا۔اس طرح پنجاب میں پرویزالٰہی کے ساتھ کیے گئے عہد کو بھلا کر شہبازشریف کو وزیراعلیٰ بنا دیاگیا۔ پنجاب میں پرویزالٰہی دو مرتبہ وزیربلدیات رہ چکے تھے اور ان کو یہ وزارت چلانے کا بڑا تجربہ تھا، لیکن شہبازشریف کی وزارت اعلیٰ کے تحت انھوں نے وزیربلدیات بننے سے صاف انکار کر دیا۔اس پر ان کو اسپیکر پنجاب اسمبلی بننے کی دعوت دی گئی، جو مزید بدمزگی سے بچنے کے لیے انھوں نے قبول کر لی۔ وہ ضلع کونسل گجرات کے چیئر مین رہ چکے تھے۔ لہذا ہاوس چلانے میں ان کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ اس دوران میں وہ ایشیا ریجن سے دولت مشترکہ کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور اس کی اسپیکرز کانفرنس میں بھی شرکت کی۔
نوازشریف نے چوہدری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ نہیں بننے دیا اور شہبازشریف وزیراعلیٰ بنا کر اپنے تئیں اپنا پنجاب کا قلعہ مضبوط کر لیا، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 1999ء میں نوازشریف کی حکومت اس طرح گری کہ اس کے ساتھ ہی شہبازشریف کا قلعہ بھی منہدم ہو گیا۔مسلم لیگ ق وجود میں آئی اور2002ء میں پرویزالٰہی ن لیگ کے مرہون احسان ہونے بغیر وزیراعلیٰ بن گئے اوراگلے پورے پانچ سال پنجاب میں ان کی وزارت اعلیٰ کا ڈنکا بجتا رہا۔ بلاشبہ ان کا یہ پانچ سالہ دور پنجاب کا بہترین دور ثابت ہوا۔2008 ء میں پرویزالٰہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے اور2011 ء کے آخر میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں نائب وزیراعظم کا منصب سنبھالا۔ 2013ء میں ن لیگ برسراقتدار آئی تو پنجاب میںاپنی پارٹی کی محدود طاقت کے باوجود ن لیگ کو ٹف ٹائم دیا۔
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دھاندلی کے خلاف تحریک ہو یا لانگ مارچ اورلاک ڈاون، ق لیگ اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی تھیں۔بلدیاتی الیکشن کے دوران بھی دونوںپارٹیوں کے درمیان مفاہمت کی فضا نظر آئی۔ جنرل الیکشن میں دونوں پارٹیوں میں قدرے دیر سے مفاہمت ہوئی، مگر جہاں بھی ہوئی دونوں ہی پارٹیوں کو اس کا بے پناہ فائدہ ہوا۔ مثلاً گجرات میں تحریک انصاف ق لیگ اتحاد نے سوائے ایک نشست کے، تمام ضلعی نشستیں جیت لیں۔
چوہدری پرویزالٰہی کو اسپیکر پنجاب اسمبلی کے عہدے کی پیش کش اس وقت کی گئی تھی، جب وہ چوہدری شجاعت حسین کے ہمراہ تحریک انصاف کی کامیابی پر عمران خان کو مبارک دینے بنی گالہ گئے۔اس سے پہلے کچھ اس طرح کی خبریں نشر ہوئیں کہ جیسے وہ وزیراعلیٰ یا نائب وزیراعظم بننے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ حقیقتاًان خبروں میں کوئی صداقت نہ تھی۔ اگرچہ ق لیگی ارکان کے ملنے سے ہی پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کابننا یقینی قرار پایا تھا، اس کے باوجود چوہدری برادران کا منظور وٹو کے نقش قدم پر چلنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور ان کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے وزیراعلیٰ کا انتخاب تحریک انصاف کی صوابدید ہے۔
یہی نہیں، چوہدری برادران نے شریف برادران کی پیش کش بھی ٹھکرادی، جس میں وہ عمران خان کے خلاف ساتھ دینے پر پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے پر بھی آمادہ تھے۔ چوہدری برادران کامگر کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے ساتھ ان کا عہد الیکشن سے پہلے کاہے، وہ عہد شکنی نہیں کریںگے۔اس سے پہلے کہ کوئی غلط فہمی پیدا ہو، چوہدری برادران بنی گالہ پہنچے اور عمران خان کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا۔عین اس روز حمزہ شہباز بھی چوہدری شجاعت حسین سے ملنے کے لیے بے تاب تھے لیکن 'عمران پرویز الٰہی ملاقات' نے یہ نوبت نہیں آنے دی۔ عمران خان سے ملاقات کے بعد اسی شام پرویزالٰہی نے قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں چھوڑنے کا باضابطہ اعلان کردیا اور یوں پنجاب کا سیاسی مطلع صاف ہو گیا ۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پنجاب میں چوہدری پرویزالٰہی کی اسپیکر شپ اور تحریک انصاف کی حکومت ایک دوسرے کی انشورنس پالیسی ہیں۔چونکہ ن لیگ اور اس کے اتحادیوں اور تحریک انصاف کے درمیان عددی فرق بہت معمولی ہے۔ایسے میںپرویزالٰہی، عمران خان کے لیے ترپ کا پتہ ثابت ہوئے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ن لیگ کے کئی ارکان چوہدری برادران سے رابطے میں ہیں، جو مستقبل قریب میں فارورڈ بلاک بنا کر 2008 ء کی تاریخ کو دہرا سکتے ہیں، جب ایسے ہی حالات میں ق لیگ کے ارکان فاروڈ بلاک بنا کر ن لیگ کے ساتھ مل گئے تھے۔ یہ فارورڈ بلاک بھی اگر براستہ ق لیگ، تحریک انصاف کی حمایت کرتا ہے تو پنجاب میں پرویزالٰہی کی اسپیکر شپ کی سیاسی اور تکنیکی طاقت میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور ان کا موازنہ پنجاب اسمبلی کے ماضی کے کسی اسپیکر سے کرنا ممکن نہیں رہے گا اور یہ ایک بالکل نئی صورت حال ہو گی۔
یہ بات بھی اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ پرویز الٰہی نے بطور وزیراعلیٰ اپنے دور میں پنجاب اسمبلی کی نئی اور وسیع بلڈنگ کی تعمیر شروع کرائی جو قریب قریب مکمل ہو چکی تھی، لیکن شہبازشریف نے دس سال تک اس کو روکے رکھا۔ کسے معلوم تھا کہ سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے ،ن لیگ حکومت عوام کے سیلاب میں بہہ جائے گی اور پنجاب اسمبلی کی یہ نئی بلڈنگ پرویزالٰہی کے ہاتھوں ہی پایہ تکمیل کو پہنچے گی اور انھی کے کام آئے گی۔ درس ایام وہی ہے ، جو شاعر نے کہا تھا،
سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے