شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کی جیت
اب چونکہ عام انتخابات اگلے سال ہو رہے ہیں۔ لہٰذا بی جے پی شمال مشرقی ریاستوں کے مسئلے سے روگردانی نہیں کر سکتی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سات شمال مشرقی ریاستوں میں سے چھ میں بڑی آسانی کے ساتھ جیت گئی ہے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا رہا تھا۔ جب تقسیم ہند کے سوال پر غور کیا جا رہا تھا تو بی جے پی کی انتخابی جیت کا خیال بھی نہیں تھا۔ اس زمانے میں فخر الدین علی احمد کانگریس کے چوٹی کے لیڈر تھے، انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ مختلف پڑوسی ریاستوں میں سے جن میں مشرقی پاکستان بھی تھا جو اب بنگلہ دیش ہے وہاں سے مسلمانوں کو آسام میں لایا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کانگریس نے یہ جان بوجھ کر کیا تھا کیونکہ ہم آسام کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے لیکن اس سے ریاست کے عوام کے لیے شدید مشکل پڑگئی۔
اس وقت سے دراندازی کا مسئلہ شمال مشرقی ریاستوں بالخصوص آسام کے ساتھ جڑا ہوا ہے لیکن جب انگریزی سلطنت میں غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ اٹھا تو قومی اور ریاستی سطح پر کئی اقدامات کیے گئے، مگر مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ اس کے نتیجے میں وہاں سماجی، سیاسی اور ماحولیاتی اعتبار سے بہت سے مسائل پیدا ہو گئے۔ جب باہر سے آنے والوں کو آسام سے نکالنا شروع کیا گیا جس کے لیے 1950ء کا ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا تو صرف ان لوگوں کو قیام کی اجازت دی گئی جنھیں خطے سے زبردستی نکال دیا گیا تھا۔ اس سے مغربی پاکستان میں بہت مخالفت ہوئی۔ 1950ء کا ایک قانون ''آسام سے بیدخلی'' کے نام سے منظور ہوا تھا۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستان سے ان کے ہم منصب لیاقت علی خاں کے مابین ایک معاہدہ کیا گیا جس کے تحت 1950ء میں بے دخل ہونے والوں کو بھارت جانے کی اجازت دیدی گئی۔
1962ء کی ہند چین جنگ کے نتیجے میں آسام پلان بنایا گیا، جس کے ذریعے نئی دہلی حکومت نے 1964ء میں مبینہ طور پر مشرقی پاکستان سے غیرقانونی طور پر آنے والوں کو روکنا تھا لیکن عوام کا ریاست سے نکلنا جاری رہا۔ 1970ء کے عشرے کے اوائل میں بھارت میں بہت زیادہ لوگ غیرقانونی طور پر داخل ہوئے۔ 1972ء میں اندرا گاندھی اور شیخ مجیب الرحمٰن میں ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق 1971ء سے پہلے آنے والے تمام لوگوں کو غیر بنگلہ دیشی قرار دیدیا گیا۔ آسام کے لوگوں نے اس معاہدے کی مخالفت کی اور ہنگامے شروع کر دیے۔
1972ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت 1971ء سے پہلے آنے والے تمام افراد کو غیر بنگلہ دیشی قرار دیدیا گیا۔ اس موقع پر ایک ٹربیونل تشکیل دیا گیا تاکہ تمام غیر قانونی طور پر آنے والوں کا تعین کیا جائے۔ یہ ایکٹ 1983ء میں نافذ ہوا جس کا مقصد غیر قانونی آنے والوں کی کھوج لگا کر انھیں ڈی پورٹ کرنا تھا۔ ان کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے لیکن اس سے بھی شمال مشرق میں وسیع دراندازی کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ معاہدہ آسام 1985ء میں نافذ ہوا جس کے فوراً بعد غیر قانونی تارکین وطن کا کھوج لگانے کا فیصلہ کیا۔ آسام میں 25 مارچ 1971ء سے پہلے کے جتنے بھی تارکین وطن تھے ان کا حساب کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ یہ تاریخ بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کی تاریخ ہے۔
اس معاہدے میں ان تمام تارکین وطن کا ذکر تھا جو مذکورہ بالا تاریخ سے پہلے یہاں آئے تھے۔ باغیوں کے گروپوں کو قانون کے تحت ریاست سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ باغی گروپ آسام کی ایک تنظیم اے اے ایس یو (آسو) کی چھتری کے نیچے آئے تھے جب کہ قانون میں تمام غیر قانونی تارکین وطن کے اخراج کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تارکین وطن کو راشن کارڈ بھی جاری کیے گئے تھے اور ان کا نام ووٹر لسٹ میں بھی شامل کر لیا گیا تھا لیکن چونکہ بنگلہ دیشی تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد جاری تھی جس سے آسام کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے میں مسلمان آبادی کے تناسب میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو گیا تھا تا آنکہ سپریم کورٹ کو 2005ء کے ایک ایکٹ کے تحت اس معاملے میں مداخلت کرنا پڑی لہٰذا غیر قانونی قرار دیے جانے والوں کو فوری طور پر اخراج کا سزاوار قرار دیا گیا۔
یہ الگ بات ہے کہ بنگلہ دیش سے آنیوالوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس سے ریاست کے ذمے دار سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ دوسری طرف مرکز میں بی جے پی کی حکومت 1955ء میں نافذ ہونے والے شہریت کے قانون میں ترمیم لانا چاہتی ہے تا کہ تارکین وطن کو کچھ سہولتیں بھی دی جا سکیں لیکن آسام کے لوگوں کی اکثریت مجوزہ ترمیم کے خلاف ہے۔ بی جے پی کی حکومت چاہتی ہے کہ عوام سے نسلی بنیادوں پر کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔
آسام کا قانون یہ کہتا ہے کہ بنگلہ دیش سے 25 مارچ 1971ء کے بعد آنے والے تمام تارکین وطن کو ڈی پورٹ کر دیا جائے۔ مرکزی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ اس مسئلے کو ریاستی بنیادوں پر حل کیا جائے جس طرح ناگا لینڈ، میزورام اور آرونچل پردیش کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تمام ریاستیں آرونچل پردیش کے سوا کسی نہ کسی سطح پر آسام سے بھی کاٹ کر بنائی گئیں۔
اسی طرح منی پور کے میزورام اور ناگالینڈ کے ساتھ سرحدی مسائل موجود ہیں لیکن وہ اتنے نمایاں نہیں جتنے کہ آسام کا مسئلہ ہے۔ تاہم یہ علاقہ کئی معاملات میں باہم متحد ہے۔ ملک کے بعض حصوں میں طلبہ کی برادری کوئی ہنگامے وغیرہ شروع کر دیتی ہے جو کہ قومی دارالحکومت میں بھی ہوتے ہیں کیونکہ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انھیں مرکزی حکومت کی طرف سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وہ حکومتی ترقیاتی پروگرام میں شرکت کرنا چاہتے ہیں جوکہ بی جے پی کی حکومت بھی چاہتی ہے لیکن جہاں تک مسلح افواج کو خصوصی اختیارات دینے کا ایکٹ (AFSPA) شامل ہے۔ اس میں بعض نکات پر اپوزیشن کے اعتراضات موجود ہیں۔
اس کے ساتھ ہی غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے کو بھارت کی سلامتی کے لیے چیلنج قرار دیا گیا اور اس معاملے میں سخت قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ حکمران بی جے پی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ شمال مشرق کا علاقہ اجتماعیت کے معاشرے کا حامل ہے جس کو ہندی بولنے والوں کا قلب بھی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا مرکز پر زور دیا جاتا ہے کہ اس علاقے کی تعمیر و ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے اور آنکھیں بند کرکے ہندوتوا کو نافذ کی حرکت سے اجتناب کیا جائے۔
اب چونکہ عام انتخابات اگلے سال ہو رہے ہیں۔ لہٰذا بی جے پی شمال مشرقی ریاستوں کے مسئلے سے روگردانی نہیں کر سکتی۔ آسام میں لوک سبھا کی 25 نشستیں ہیں اور سب سے زیادہ نشستیں آسام کی ہیں۔ بی جے پی کو ان جماعتوں سے سخت مقابلہ درپیش ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کے لیے ہر نشست کو جیتنا زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اس سے وہ اپنے صحیح معنوں میں وفادار سیاسی ارکان کو بھی سامنے لانا چاہتے ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
اس وقت سے دراندازی کا مسئلہ شمال مشرقی ریاستوں بالخصوص آسام کے ساتھ جڑا ہوا ہے لیکن جب انگریزی سلطنت میں غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ اٹھا تو قومی اور ریاستی سطح پر کئی اقدامات کیے گئے، مگر مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ اس کے نتیجے میں وہاں سماجی، سیاسی اور ماحولیاتی اعتبار سے بہت سے مسائل پیدا ہو گئے۔ جب باہر سے آنے والوں کو آسام سے نکالنا شروع کیا گیا جس کے لیے 1950ء کا ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا تو صرف ان لوگوں کو قیام کی اجازت دی گئی جنھیں خطے سے زبردستی نکال دیا گیا تھا۔ اس سے مغربی پاکستان میں بہت مخالفت ہوئی۔ 1950ء کا ایک قانون ''آسام سے بیدخلی'' کے نام سے منظور ہوا تھا۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستان سے ان کے ہم منصب لیاقت علی خاں کے مابین ایک معاہدہ کیا گیا جس کے تحت 1950ء میں بے دخل ہونے والوں کو بھارت جانے کی اجازت دیدی گئی۔
1962ء کی ہند چین جنگ کے نتیجے میں آسام پلان بنایا گیا، جس کے ذریعے نئی دہلی حکومت نے 1964ء میں مبینہ طور پر مشرقی پاکستان سے غیرقانونی طور پر آنے والوں کو روکنا تھا لیکن عوام کا ریاست سے نکلنا جاری رہا۔ 1970ء کے عشرے کے اوائل میں بھارت میں بہت زیادہ لوگ غیرقانونی طور پر داخل ہوئے۔ 1972ء میں اندرا گاندھی اور شیخ مجیب الرحمٰن میں ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق 1971ء سے پہلے آنے والے تمام لوگوں کو غیر بنگلہ دیشی قرار دیدیا گیا۔ آسام کے لوگوں نے اس معاہدے کی مخالفت کی اور ہنگامے شروع کر دیے۔
1972ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت 1971ء سے پہلے آنے والے تمام افراد کو غیر بنگلہ دیشی قرار دیدیا گیا۔ اس موقع پر ایک ٹربیونل تشکیل دیا گیا تاکہ تمام غیر قانونی طور پر آنے والوں کا تعین کیا جائے۔ یہ ایکٹ 1983ء میں نافذ ہوا جس کا مقصد غیر قانونی آنے والوں کی کھوج لگا کر انھیں ڈی پورٹ کرنا تھا۔ ان کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے لیکن اس سے بھی شمال مشرق میں وسیع دراندازی کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ معاہدہ آسام 1985ء میں نافذ ہوا جس کے فوراً بعد غیر قانونی تارکین وطن کا کھوج لگانے کا فیصلہ کیا۔ آسام میں 25 مارچ 1971ء سے پہلے کے جتنے بھی تارکین وطن تھے ان کا حساب کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ یہ تاریخ بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کی تاریخ ہے۔
اس معاہدے میں ان تمام تارکین وطن کا ذکر تھا جو مذکورہ بالا تاریخ سے پہلے یہاں آئے تھے۔ باغیوں کے گروپوں کو قانون کے تحت ریاست سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ باغی گروپ آسام کی ایک تنظیم اے اے ایس یو (آسو) کی چھتری کے نیچے آئے تھے جب کہ قانون میں تمام غیر قانونی تارکین وطن کے اخراج کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تارکین وطن کو راشن کارڈ بھی جاری کیے گئے تھے اور ان کا نام ووٹر لسٹ میں بھی شامل کر لیا گیا تھا لیکن چونکہ بنگلہ دیشی تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد جاری تھی جس سے آسام کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے میں مسلمان آبادی کے تناسب میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو گیا تھا تا آنکہ سپریم کورٹ کو 2005ء کے ایک ایکٹ کے تحت اس معاملے میں مداخلت کرنا پڑی لہٰذا غیر قانونی قرار دیے جانے والوں کو فوری طور پر اخراج کا سزاوار قرار دیا گیا۔
یہ الگ بات ہے کہ بنگلہ دیش سے آنیوالوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس سے ریاست کے ذمے دار سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ دوسری طرف مرکز میں بی جے پی کی حکومت 1955ء میں نافذ ہونے والے شہریت کے قانون میں ترمیم لانا چاہتی ہے تا کہ تارکین وطن کو کچھ سہولتیں بھی دی جا سکیں لیکن آسام کے لوگوں کی اکثریت مجوزہ ترمیم کے خلاف ہے۔ بی جے پی کی حکومت چاہتی ہے کہ عوام سے نسلی بنیادوں پر کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔
آسام کا قانون یہ کہتا ہے کہ بنگلہ دیش سے 25 مارچ 1971ء کے بعد آنے والے تمام تارکین وطن کو ڈی پورٹ کر دیا جائے۔ مرکزی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ اس مسئلے کو ریاستی بنیادوں پر حل کیا جائے جس طرح ناگا لینڈ، میزورام اور آرونچل پردیش کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تمام ریاستیں آرونچل پردیش کے سوا کسی نہ کسی سطح پر آسام سے بھی کاٹ کر بنائی گئیں۔
اسی طرح منی پور کے میزورام اور ناگالینڈ کے ساتھ سرحدی مسائل موجود ہیں لیکن وہ اتنے نمایاں نہیں جتنے کہ آسام کا مسئلہ ہے۔ تاہم یہ علاقہ کئی معاملات میں باہم متحد ہے۔ ملک کے بعض حصوں میں طلبہ کی برادری کوئی ہنگامے وغیرہ شروع کر دیتی ہے جو کہ قومی دارالحکومت میں بھی ہوتے ہیں کیونکہ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انھیں مرکزی حکومت کی طرف سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وہ حکومتی ترقیاتی پروگرام میں شرکت کرنا چاہتے ہیں جوکہ بی جے پی کی حکومت بھی چاہتی ہے لیکن جہاں تک مسلح افواج کو خصوصی اختیارات دینے کا ایکٹ (AFSPA) شامل ہے۔ اس میں بعض نکات پر اپوزیشن کے اعتراضات موجود ہیں۔
اس کے ساتھ ہی غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے کو بھارت کی سلامتی کے لیے چیلنج قرار دیا گیا اور اس معاملے میں سخت قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ حکمران بی جے پی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ شمال مشرق کا علاقہ اجتماعیت کے معاشرے کا حامل ہے جس کو ہندی بولنے والوں کا قلب بھی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا مرکز پر زور دیا جاتا ہے کہ اس علاقے کی تعمیر و ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے اور آنکھیں بند کرکے ہندوتوا کو نافذ کی حرکت سے اجتناب کیا جائے۔
اب چونکہ عام انتخابات اگلے سال ہو رہے ہیں۔ لہٰذا بی جے پی شمال مشرقی ریاستوں کے مسئلے سے روگردانی نہیں کر سکتی۔ آسام میں لوک سبھا کی 25 نشستیں ہیں اور سب سے زیادہ نشستیں آسام کی ہیں۔ بی جے پی کو ان جماعتوں سے سخت مقابلہ درپیش ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کے لیے ہر نشست کو جیتنا زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اس سے وہ اپنے صحیح معنوں میں وفادار سیاسی ارکان کو بھی سامنے لانا چاہتے ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)